Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخی نباہ


شہزاد اعظم
    ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ ’’آزمودہ را آزمودن جہل است‘‘۔مس شکیلہ کی اس تعلیم کو ہم نے نصف صدی سے اپنے گلے سے لگا رکھا ہے۔ ہم نے اس مقولے کو آج تک کی زندگی میں ہر ہر شعبے میں صد فیصد درست پایا۔کبھی اس امر سے سرِ مو انحراف ہم نے نہیں دیکھاتھا مگر یہ سلسلہ 8نومبر کی سہ پہر ڈھائی بجے تبدیل ہونا شروع ہوا اور رات 9بج کر 30منٹ پر یہ تبدیلی مکمل ہوگئی ۔ اس تبدیلی نے ہمیں نصف صدی قدیم سبق بھلا دیا اور نیا سبق یہ پڑھایا کہ ’’جہل اور جاہل ملیں تو آزمائش ہے یہی۔‘‘
    ہمارا دیرینہ وتیرہ ہے کہ ہم جب بھی وطن عزیز کے شہروں کی دلہن یعنی ’’عروس البلاد‘‘ کراچی پہنچتے ہیں تو ہمیں حب الوطنی چپے چپے کی ہواخوری پر مجبور کرتی ہے ۔ ہم عروس البلاد سے لاہور کی جانب دوڑتے ہیں۔یہی اس مرتبہ بھی ہوا۔ ہم کراچی پہنچے، 2روز قیام کیا۔اس دوران ہمیں’’یونی کوڈسولوشن ‘‘نامی سافٹ ویئر کی ضرورت پڑی۔ اس ’’الیکٹرانی حاجت‘‘کی تکمیل کیلئے ہم موٹرسائیکل پر ’’مسلط‘‘ ہوئے اور گلی درگلی ، شاہراہ در شاہراہ مارے مارے پھرنا شروع کیا۔پاپوش، عبداللہ کالج، بورڈ آفس، ناظم آباد،حیدری ،کریم آباد وہاں سے لالو کھیت ، الکرم اسکوائر، 10نمبر گئے ، درجنوں دکانوں، دسیوں ماہرین اور ان گنت’’ کمپیوٹرمستریوں‘‘کے سامنے اپنی الیکٹرانی طلب بیان کی مگرکسی کی سمجھ میں ہماری بات نہ آئی۔ہم جس سے بھی کہتے کہ بھیا !یونی کوڈ سولوشن کی سی ڈی مل جائیگی؟ وہ جواباً اپنے 48سالہ صاحبزادے کو استعجابیہ انداز میں دیکھتا اور انجام کار وہ ہم سے انتہائی ناخلف قسم کی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوتا کہ ’’چچا میاں!یونی کوڈ ہمارے پاس نہیں مگر یہ بھی بتا دیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے ؟یہ بہر حال ایک الگ مسئلہ ہے جس کا ذکر کسی دیگر کالم میں کر لیاجائے گا۔
    جب ہمیں احساس ہوا کہ یونی کوڈ کے ضمن میں ہمیں گھر سے باہر نکلنا پڑے گا توہمیں یہ سوچ کربے حد خوشی ہوئی کہ اب شہروں کی ’’عروس‘‘سے ملاقات کا موقع ملے گا مگر یقین جانئے ، ہمیں شہر کی شاہرات و گلیات میں کہیں بھی ایک میٹر کا ٹکڑا ایسا نہیں ملا جس میں ہماری موٹر سائیکل کسی جھٹکے یا کھٹکے کے بغیر آگے بڑھنے کے قابل ہوسکتی ۔ ہم نے پاکستانی معیشت کی اس ریڑھ کی ہڈی کہلائے جانے والے شہرِ خوباں’’کراچی‘‘ میں نا ہمواری،نشیب و فراز،بدبو، تعفن، کچرا، کیچڑ، جوہڑ، گرد، آلودگی، دل کے ارمانوں کی طرح سلگتاکوڑا کرکٹ، دل جلی گفتگو ،آپ کی بجائے تُو، قدم قدم پر بدبو،جیبیں خالی کروانے والے ’’اہلکار‘‘ کو بہ کو،یہی کچھ دیکھا۔بہر حال لاہور جانا تھا اور کیونکہ ماضی میں نجی گروپ کی ریل سے سفر کا انتہائی’’عبرتناک تجربہ ‘‘ہو چکا تھا اور ہم نے کان پکڑ کر قصد کرلیا تھا کہ آئندہ جب بھی ٹرینی سفر کرنا ہوا تو نجی ٹرین میں نشست محفوظ کرانے کی حماقت ہرگزنہیں کریں گے چنانچہ کسی سے کہہ کہلا کرہم نے کراچی سے لاہور کیلئے سرکاری قرار دی جانے والی ریل گاڑی میں نشستیں محفوظ کروالیں اور خاندان کے تمام افراد کو ساتھ لے کر اسٹیشن جانے کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔ہماری یہ پیاری ریل گاڑی صرف7گھنٹے تاخیر سے روانہ ہونی تھی۔ ہم پلیٹ فارم پر پہنچے ، وزن اٹھا کر کئی سو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مطلوبہ 5نمبر ڈبے تک پہنچے۔ہماری نصف درجن نشستیں 2 باتھ رومز کی قریبی ہمسائیاں تھیں۔ ان میں سے ایک دیسی طرزِ استفراغ کیلئے تھا اور دوسرا فرنگی تہذیب ِ فراغت کا ترجمان، مگر یہ دونوں باتھ روم تمام تر’’جبلی رعنائیوں اور سہولتوں‘‘ سے یکسر محروم تھے۔ان کے دروازے موجود تھے مگر یہ بند کرنے کیلئے نہیں تھے۔نلکے موجود تھے مگر ان میں سے پانی نہیں آ رہا تھا۔حیاتِ انسانی کیلئے ناگزیر قرار پانے والے ان بیت الخلانامی مقامات کے ساتھ لوگوں نے انتہائی ظالم سوتیلی ماں والا سلوک کررکھا تھا۔بہر حال ہم نے اپنے آپ کو سمجھایاکہ کچھ بھی، ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ ہم کسی ظالم کے نہیں بلکہ مظلوم کے ہمسائے ہیںمگر ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم اس مظلوم سے بھی زیادہ مظلومیت کا شکار ہونیوالے ہیں۔ ہم نے آگے بڑھ کر اپنی نشستوں پر بیٹھنا چاہا تو پتہ چلا کہ پہلے ٹشو سے پونچھنا ضروری ہے کیونکہ سیٹوں پر مٹی اور کسی آبِ غلیظ کے باہم فعل و انفعال نے آلودگی کو کیچڑانہ ہیئت میں بدل دیا تھا۔ ہم نے ٹشو پیپر کا آدھا رول صفائی پر صرف کیا اور اب سامان نشست کے نیچے رکھنے کیلئے جیسے ہی فرش کی جانب متوجہ ہوئے تو دیکھ کر حیران ہوئے،خطا ہمارے اوسان ہوئے اور ہم یہ سوچ کر پریشان ہوئے کہ 1219کلومیٹر کا سفر اس حال میں کیسے کٹے گا۔ فرش پر جا بجا استعمال شدہ ٹشو، پھٹی ہوئی تھیلیاں،سگریٹوں کے فلٹر،خشک میوہ جات کی ناقابل استعمال پوست جسے آسان لفظوں میں ’’چھلکا‘‘ کہا جا سکتا ہے اور بعض ناقابل بیان اور ناقابل شناخت قسم کا کچرا موجود تھا۔ یہ حالات دیکھ کر ہمارے اہل خانہ نے چلانا شروع کر دیا کہ ہم نے سیکڑوں روپے فی کس کے حساب سے ہزاروں روپے کے ٹکٹ محض اس لئے خریدے ہیں کہ اس گندگی میں سفر کریں۔ ہم نے اہل خانہ کی بولتی بند کرانے کیلئے انہیں سمجھایااور کہا کہ ابھی گاڑی چلنے میں نصف گھنٹہ ہے، محترم جمعدار صاحب تشریف لائیں گے اور صفائی کر جائیں گے۔ ذرا انتظار کر لیجئے ۔ پھریوں ہوا کہ ٹرین چل پڑی ۔ اہل خانہ نے کہنا شروع کر دیا کہ آپ فرما رہے تھے جمعدار جی آجائیں گے ، یہاں توکوئی نہیں آیا۔ہم نے کہا کوئی نہیں آیا تو کیاہوا، ذرا انتظار کریں، ابھی ریلوے کے ا علیٰ افسر یعنی ’’ٹی ٹی ای‘‘ہماری نشستیں اور ٹکٹ وغیرہ چیک کرنے کیلئے آنیوالے ہیں، ہم ان سے کہہ کر صفائی کر وا لیں گے ۔اسی اثناء میں ٹی ٹی ای محترم آگئے ۔ ہم نے کہا کہ جناب! ذرا دیکھئے کتنا کچرا پڑا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ کے 6ٹکٹ ہیں ؟ ہم نے کہا جی ہاں! مگر جناب یہ کچرا تو دیکھئے،کہنے لگے کہ یہ سب آپ کے ساتھ ہیں؟ہم نے کہا جی مگر جناب یہ کچرا تو صاف کرائیں۔کیا یہ گند یونہی پڑا رہے گا؟ انہوں نے کہا کہ سب لاہو رہی جا رہے ہیں ناں؟ اب ہم غصے میں آنے لگے اور کہا کہ جناب! ہم نے ہزاروں روپے کرایہ اس کچرے پر براجمان ہونے کیلئے دیا تھا، صفائی کرنے والے کہاں ہیں؟  یہ کس کی ذمہ داری ہے ؟یہ سن کر ان افسر صاحب نے تیوری چڑھائی اور بولے کہ یقین جانئے یہ گاڑی جیسی لاہور سے آئی تھی ویسی ہی یہاں بھیج دی گئی، کسی نے صفائی کرنی ضروری ہی نہیں سمجھی، اب میں کیا کر سکتا ہوں؟وہ چلے گئے ، ہمارے اہل خانہ پھر گویا ہوئے کہ اب یہ گند اوراتنا لمبا سفر، کیا کریں؟ہم نے سیاستدانوں کی طرح پینترا بدلا اور کہا کہ پتا ہے، عقل مندی اسے کہتے ہیں کہ اگرحالات آپ کے موافق نہیں ہو سکیں تو خود کو حالات سے ہم آہنگ کر لیں۔ آپکو چاہئے کہ اس ٹرین کو بھی کراچی سمجھیں۔ کراچی میں بھی تو یہی عالم ہے کہ ہم بالائی منزل پر زندگی گزارتے ہیں اور نیچے زمین پر’’کچرا کہلانے والی ‘‘ دنیا بھر کی غلاظتیں جا بجا پھیلی پڑی ہیں۔ ماضی میں یوں کہا جاتا تھا کہ کراچی میں ہر جگہ انسان آباد ہیں اور کہیں کہیں کچرا بھی دکھائی دیتا ہے جبکہ آج یہ عالم ہے کہ کراچی میں ہر جگہ کچرا آباد ہے ، کہیں کہیں انسان بھی دکھائی دیتا ہے۔ہم نے اس گاڑی میںعدم سہولتوں سے ہم آہنگی اور پرائے گندسے 22گھنٹے تک جس طرح تاریخی نباہ کیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔لاہور پہنچ کر ہم نے عزم مصمم کر لیا کہ آئندہ سرکاری نہیں بلکہ نجی ریل میں ہی سفر کیا کریں گے ۔

 

شیئر:

متعلقہ خبریں