Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’اعمال کی قبولیت کا دار و مدار نیت پر ہے‘‘

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ۔شارجہ
رسول اللہ  کا ارشاد مبارک ہے:
’’قبولیت ِاعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘ (بخاری )۔
یہ ایک مختصر مگر جامع فلسفۂ زندگی ہے جس پر کسی بھی عمل کرنے والے کے فلاح و خسران کا دارومدار ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:   
’’لوگ قیامت کے دن صرف اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (زادِ راہ )۔
اللہ تعالیٰ نے ظاہری نیکی کو قبول نہیں فرمایا بلکہ وہ ارادہ، نیت، شعوری کوشش،قلب و ذہن کی آمادگی کو مدنظر رکھ کر اجر و ثواب کا مستحق سمجھے گا۔ دلوں کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ وہ علم ہے جو صرف اسی خالق کو ہی زیبا ہے جس نے ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا۔
ایک شخص بظاہر بہت اعلیٰ درجہ کا نیک کام کر رہا ہومگر اس کی خواہش اور ارادہ اور نیت محض دنیا کی شہرت اور دکھاوا ہو۔ لوگوں کی زبان سے تعریف مدح سرائی سننا ہی مطلوب ہو تو اس کو وہی مل جائے گا جس کی خواہش کی ہے، آخرت میں اس کو کوئی حصہ نہ دیا جائے گا۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اعمال کا وزن بڑے بڑے کارناموں، مال کی کثرت سے نہ کیا جائے گا بلکہ خلوص نیت کے پیمانے سے اعمال کو جانچا پرکھا جائے گا۔ ہو سکتا ہے ایک شخص شہید کہلایا جاتا ہو یا بہت سخی کہلایا جاتا ہو مگر نیت کے خالص نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی وقعت نہ رکھتا ہو مگر ایک معمولی سا کام جس کی بظاہر کوئی اہمیت نظر نہ آتی ہو، خلوصِ نیت اور طلب رضائے الٰہی کا جذبہ اْسے بلند مقام دلا دے۔ ہجرت کرنے والا سب مہاجروں کے ساتھ سفر پہ نکلا ہومگر اللہ تعالیٰ ہی دلوں کا حال جانتا ہے کہ وہ سفر کی صعوبتیں کس لئے اٹھا رہا ہے۔
طلبِ رضائے الٰہی میں کھوٹ (ریا کا شائبہ) معمولی بھی ہو تو ناقابل قبول ہے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا:معمولی ریا بھی شرک ہے(مشکٰوۃ)۔
اور شرک ناقابل معافی ہے ۔طلبِ رضائے الٰہی کا ایک ہی معیار ہے کہ یا تو ’’ہے‘‘ یا پھر ’’نہیں ‘‘ ہے۔ اس مشروبِ محبت میں ریا کا ایک قطرہ بھی سارے مشروب کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومن کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت میں شمار کئے جانے کے قابل گردانا ہے۔اگر ہر لمحہ اس کی رضا کے لئے گزارا گیا ہو حتیٰ کہ سانس لینے کا عمل ایک غیر اختیاری فعل ہے مگر ہر سانس کا اجر محفوظ ہو سکتا ہے اگر نعمت عطا کرنے والے رب کی خوشنودی اور اس کے شکرانے کا احساس شعور میں زندہ رہے۔مومن کا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا،بولنا، پہننا اوڑھنا، لینا دینا، ملنا جلنا، کام کاج کرنا، وظائف زندگی ادا کرنا اسی رب العالمین کی رضا کے مطابق ہوتا ہے۔ مومن وہ سب کام کرتا ہے جو سب انسان کرتے ہیں۔ دونوں میں فرق صرف نیت، ارادے شعوری کوشش اور خلوص کا ہے۔اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی نیک عمل کے اجر و ثواب کو متعین کرتی ہے۔اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت سمجھ کر ادا کرنا اجر و ثواب کا باعث بنا دیتا ہے۔
ایک کام میں ذمہ داریوں پر متعین افراد آخرت میں مختلف مقام رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک مسجد بنانے والے نے رقم لگائی مسجد جیسی عظیم عبادت گاہ بنانے میں۔ اس شخص کی نیت محض دنیاوی عزت و مرتبہ ہے۔ اس کو آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا،لیکن اس مسجد کو تعمیر کرنے والے مزدوروں میں سے کوئی معمولی مزدور اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں اس لئے حصہ لگا رہا ہے کہ اس ذاتِ کریم کی رضا حاصل ہو جائے تو وہ آخرت میں اپنی حسن نیت کی وجہ سے بے حساب اجر و ثواب کا مستحق ہو سکتا ہے۔ ایسا اجر و ثواب جس کو قرآن پاک میں ’’اجرغیر ممنون‘‘ کہا گیا ہے،مگر کثیر رقم خرچ کرنے والے شخص کو آخرت میں اجر سے محروم ہونا پڑے گا، اپنے عمل میں خلوص نہ ہونے کی وجہ سے وہ ’’خسران مبین‘‘ میں مبتلا ہو گا۔
اسی طرح ایک خاتون جو صاحب جائیداد، امیر کبیر، جاہ و حشمت کی مالک اور مختار کل ہے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے بڑے بڑے کام کرتی ہے۔ محض دنیا کی واہ-واہ کے لئے، میڈیا میں نام و نمود کے لئے ۔اس کا یہ رقم،وقت، صلاحیتیں خرچ کرنا کسی کام نہ آئے گا، مگر اسی خاتون کے گھر کی معمولی گمنام نوکرانی اپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمان داری خوف خدا اور طلب رضائے الٰہی کے ساتھ ادا کرتی ہے تو آخرت میں اپنی جاہ و حشمت رکھنے والی اور نامور مالکن سے زیادہ اعلیٰ شان کا مرتبہ حاصل کر سکتی ہے۔
دینی مجالس میں واعظین اپنے حسن کلام اور جوشِ خطابت سے القاب و آداب اور مال و منال کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو یہی عطا کر دیا جائے گا مگر آخرت کی کھیتی بنجر اور ویران ہو گی۔ اپنی مجالس کا اہتمام کرنے والے معمولی کارکن گمنام، خاموش، پانی پلانے والے، جوتے قطار میں لگانے والے، صفیں بچھانے والے حتیٰ کہ واش روم کی صفائی کرنے والے، اپنی ڈیوٹی کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے پوری ایمانداری سے ادا کرنے کی وجہ سے آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں گے اور دنیا حاصل کرنے کے خواہش مند خطیب و واعظ سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔
اسی طرح گھروں میں کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، مہمان نوازی، تربیت اولاد، روزمرہ کے کام چاہے کسی نوکرانی کے ہوں یا مالکن کے، چپڑاسی کے ہوں یا وزیر اعظم کے، ہر نگاہ، ہر سوچ، ہر فکر، ہر قدم ،ہر عمل مومنوں کو اعلیٰ مراتب پر فائز کر سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آخرت کی فکر کرتے ہوئے اللہ کی رضا کو سامنے رکھ کر کام کیا جائے تو دنیا کے کام خود ہی آسان ہو جاتے ہیں۔
ربّ کی رضا کو فراموش کر کے کوئی بھی کام کرنے کی کوشش کی جائے تو آخرت تو برباد ہوتی ہی ہے دنیا بھی نہیں ملتی اسی لئے ضرورت اپنی سوچ کا رخ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے پر جما دینے کی ہے۔رْخِ سمت (نیت ) درست ہو گی تو منزل (جنت) مل سکتی ہے۔ آخرت میں اعمال کا وزن تولنے اور ناپنے کا جو پیمانہ مقرر ہے اس کا نام ’’نیت‘‘ ہے۔ چونکہ نیتوں کا دارومدار دل کے ساتھ ہے اور دلوں کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اس لئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی کے اعمال کے بارے میں بدگمانی کرنا جائز نہیں۔ کون کس نیت سے کام کر رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے۔اس کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نہیں دیا۔ نیتوں کو سامنے رکھ کر سارے اعمال کا حساب کتاب آخرت میں ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں یہ بہت بْرا چلن ہے کہ ہم جلدی سے دوسروں کی نیت کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرنے لگتے ہیں…اور اپنے بارے میں ہمارا یہ کلی گمان ہوتا ہے کہ ’’ہماری نیت صاف ہے‘‘ مبالغہ کی حد تک، مثلاً کسی کو عوام میں مقبولیت پاتا دیکھ کر اس کی شخصیت کو مسخ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ خاندان برادری میں کسی کو عزت کے مقام پر دیکھ کرمحفلوں میں، ملاقاتوں میں ظاہر کرتے ہیں کہ فلاں کا مقصد تو محض شہرت ہے یا دوسروں سے تعریف کروانا ہے۔
ہم دوسروں کی عزت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ’’شخصیت پرستی کے خلاف ہیں مگر ہم اپنے لئے خیال کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے ہم لوگوں میں اپنی خودنمائی نہیں چاہتے‘‘۔دوسروں کے بارے میں ہم یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ ’’اس نے فلاں وقت منافقت سے کام لیا‘‘ وہی کام وہی خیال اپنے لئے ہو تو ’’مصلحت کا تقاضا‘‘ ہے۔محفل میں دوسروں کی برائی بیان کر کے ہم اس خیال سے خود کو مطمئن کرتے ہیں کہ ہم تو ’’اصلاح کی نیت‘‘ سے اظہار کر رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کھونٹا راستے میں ’’گاڑ دینے‘‘ اور ’’اکھاڑ دینے‘‘ کا ثواب برابر ہے اور میدان جنگ میں بظاہر موت کے خوف سے کلمہ پڑھ لینے والے انسان کوبھی قتل کر دینا جائز نہیں اس لئے کہ دل کا حال صرف اللہ رب العزت کو معلوم ہے تو ہم کہاں سے خود کو دوسروں کی نیت پر برے گمان رکھنے کا حق دار بنا لیتے ہیں۔
ہم کیا جانیں کہ کس کو عزت اس کے اعمال کی وجہ سے مل رہی ہے یا اس کا اپنا ارادہ دنیا حاصل کرنے کا ہے۔ ہم کس طرح فیصلہ کر سکتے ہیں کہ دوسروں کا بہترین پہننا، اوڑھنا، رہن سہن دکھاوا ہے کہ شکر خداوندی؟
ہمارے اور دوسروں کے اعمال کی بنیاد کیا ہے؟ اور ہمارے دل میں دوسروں کے بارے میں خیالات کیا ہیں؟ اور دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی اور اظہار کرتی ہے؟
ایک دوسرے کے بارے میں جملے، ارادے،باطنی خیالات کے کیا اسرار ہیں؟ یہ اس وقت معلوم ہو گا ’’جب سب پوشیدہ خیالات و اعمال کی چھان پھٹک کی جائے گی اور یہ سب کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ۔ اس مشکل گھڑی کا سامنا کرنے سے پہلے جو آج مہلت ملی ہے اس میں مومن ہر چیز کو ظاہری آنکھ سے نہیں بصیرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ دوسروں کی فکر کرتا ہے اس لئے کہ اس کی اپنی نجات دوسروں کی بقا کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔’’وہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرتا ہے۔‘‘ وہ اپنے رب کی رضا کا طلبگار ہے اَپنے معاشرہ کے ساتھ چلتے ہوئے اور معاشرے کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے۔
مومن اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت کو شعور کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ وہ ظاہری آنکھ سے صرف دیکھنے کا کام نہیں لیتا بلکہ اس نعمت کو استعمال کرتے ہوئے وہ نیت بھی کارفرما ہوتی ہے جس سے ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔’’رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَا اَباطِلا،سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ مظاہر قدرت کو دیکھ کر معرفتِ الٰہی پانے والے وہی ہوتے ہیں جن کے دل’’خالص اور سچی رضائے الٰہی‘‘ کی تلاش میں رہ کر طمانیت کی مٹھاس سے آشنا ہوتے ہیں۔
اور اس مٹھاس کا ذائقہ چکھنے کے لئے اپنی نیت کو درست رخ پر رکھنے کے لئے اپنی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ بار بار پورے ہوش و حواس کے ساتھ اس عمل کو دہرانا پڑتا ہے اور نیت کو کھوٹ اور ریا سے پاک کرنے کی مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے ورنہ ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں۔ 
ان خواہشات نفس کے بتوں کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور (اپنی اس کوشش کو کامیاب کرنے کیلئے) التجائیں مناجات کی سخت ضرورت ہوتی ہے ۔یہ نیت اور ارادے کا ہی کمال ہے کہ کچھ خوش قسمت لوگ مختصر وقت،کم سرمایہ، قلیل وسائل، گم نام ہونے کے باوجود’’ کامیاب‘‘ قرار پائیں گے اُس وقت جب اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی، چھان پھٹک ہو گی، کھرے اعمال کو کھوٹے اعمال سے الگ کیا جائے گا۔ اُس وقت انسان کس حسرت اور پشیمانی میں مبتلا ہو گا،کف افسوس ملے گا،خیرات، صدقات، خدمات راکھ کی طرح اڑ رہی ہوں گی،میزان خالی رہ جائے گی، وقت، عمر، مہلت اور وسائل دوبارہ نہ مل پائیں گے۔
’’کل‘‘ اس رسوائی اور پشیمانی، حسرت سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم ’’آج‘‘ ایک عہد کریں اور اس عہد کی تجدید کرتے رہیں کہ ’’میرا مرنا، میرنا جینا، میری عبادت، میری ریاضت، میرا دینا، میرا لینا،میرا غصہ، میری محبت، میرے حواس خمسہ کے سارے اعمال و افکار پر ایک ہی ’’چھاپ ہو گی ،سب کا ایک ہی رنگ ہو گا’’اللہ کا رنگ‘‘۔
رضائے الٰہی کی ’’چھاپ‘‘ اور آخرت میں اسی ’’چھاپ‘‘ اسی ’’برانڈ‘‘ کی مانگ اور قدر ہو گی۔ اسی کرنسی کا مطالبہ ہو گا ، باقی سب خاک ہو جائے گا۔ اپنے نفس پر اللہ کا رنگ غالب کرنے، نیت کو خالص کرنے کی مشق کرتے رہنے سے آہستہ آہستہ دل کی نگری خالص جذبہ سے مزین ہو جاتی ہے۔
ہر کام کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرنا سنت ہے اور یہی وہ نسخہ ہے جو انسان کو دنیاوی افکار سے نکال کر رحمن و رحیم ذات سے جوڑ دیتا ہے۔ نیت کو خالص اور ایمان کو  مْسْتَحضرکر کے بسم اللہ پڑھ کر کام کرنے کی مشق کی جائے ۔کام کاج کرتے ہوئے بار بار خود سے سوال کیا جائے کہ ہم یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ یہ ذمہ داری کس نے لاگو کی؟…کس نے صلہ دینا ہے؟ کس کو خوش کرنا ہے؟
دن میں 5 بار نماز ادا کرتے ہوئے جب بھی ’’قعدہ‘‘ میں بیٹھ کر ’’التحیات‘‘ پڑھتے ہیں تو درحقیقت 2نمازوں کے درمیان کے وقت کی کارگزاری کو اپنے رب کے حضور پیش کررہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے پیارے رب کے سامنے ’’رپورٹ‘‘ پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ ’’میری مالی، جسمانی اور قولی عبادتیں اے اللہ! آپ کے لئے ہیں‘‘ اسی طرح رات کو ہمارا خود کو چھوٹی موت (نیند) کے حوالے کرنے سے پہلے عشاء کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنا اور اصل اپنے عہدِ وفا کا اعادہ ہوتا ہے۔یہ اظہارِ بندگی کا اخلاص اور حسن کارکردگی اگر قابل قدر ٹھہرے گی تو اسی صورت میں کہ یہ ’’رپورٹ‘‘ اور عمل پیش کرتے اور ایفائے عہد کرتے ہوئے ہم محسوس کر رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیںورنہ کم از کم یہ استحضارہونا توہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہے ہیں اور وہ ہماری نیتوں کو اور اعمال کو خوب جانتے ہیں کہ ہم جسمانی، قولی، مالی عبادتوں کو اللہ کیلئے خالص کرنے میں کتنے سچے اور کھرے ہیں۔ کندن بننے کے لئے مجاہدے، مسلسل عمل اور رب سے استقامت طلب کرنا لازمی امر ہے۔
جب مجاہدے اور کوشش سے ہر کام میں عبادت کی سی لگن، لگاؤ، انبساط پیدا کر لیا جائے تو پھر طبعی طور پر افعالِ صالحہ (حسن نیت کے ساتھ اعمال) صادر ہونے لگتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رضا کا سایہ مومن کو غم اور مصائب میں بھی مطمئن، خوش و خرم، بے خوف ’’لاخوفٌ علیھم وَلاَھُمْ یَحزْنُون‘‘ کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو اپنے لئے خالص کرے۔ آمین۔
 
 
 
 

شیئر: