Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں گوادر اور گوادر کو پانی چاہئے

وسعت اللہ خان 
  گوادر پاکستان کے اقتصادی مستقبل کی کنجی ہے۔یہیں سے دودھ اور شہد کی وہ بل کھاتی نہر شروع ہوگی جو 3ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کر کے چین میں غائب ہونے سے پہلے پاکستان کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے پسماندگی کے آنسو بھی پونچھ لے جائیگی( ایسا کہا جاتا ہے )۔
گوادر جادوئی شہر ہے۔ پرویز مشرف دور کی کوسٹل ہائی وے نے 22 گھنٹے کا سفر8 گھنٹے کا کر دیا چنانچہ گوادر تا  کراچی آتے جاتے  پہلے کی طرح بال سفید نہیں ہوتے۔گوادر ابھرتے مستقبل کا شہر ہے۔
  کوہِ بتیل  پر ایستادہ  پنج ستارہ ہوٹل دور سے یوں لگتا ہے گویا کسی کرین نے اٹھا کے پہاڑی پر دھر دیا ہو۔آپ ہوٹل  کے لان میں کھڑے کھڑے چینی نژاد گوادر پورٹ ، سبز پانی اور کچے پکے شہر کو قدموں میں دھرا دیکھ سکتے ہیں۔ 
گوادر چونکہ ا سٹراٹیجک نکاح میں آنے  کے بعد اقتصادی غیرت ہوگیا ہے لہذا فالتو کے مہمانوں کو تاک جھانک کی اجازت نہیں اور غیر ملکیوں کو تو بالکل بھی نہیں ( اگر وہ چینی نہیں ) اور  غیر ملکی میڈیا کا تو خیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
  ہمیں گوادر چاہئے اور ایک لاکھ گوادریوں کو پانی چاہئیے۔کیا آپ نے کبھی ایسے شہر کا تذکرہ سنا  جس کے 3طرف سمندر ، اطراف میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے 2پلانٹ  ،85 کلو میٹر  پر ایک اور 200کلومیٹر پرے دوسرا ڈیم ہو پھر بھی شہر  پینے کے  پانی کو ترسے اور میٹھا پانی بحریہ کے جہاز کراچی سے بھر بھر کے لائیں اور گوادری کہیں کہ اکنامک کاریڈور بے شک لے لو مگر  پینے کا پانی تو دے دو۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی قابلِ ذکر دریا نہیں۔کبھی جنم کرم میں بارش ہوجائے تو پہاڑی نالے زمین  کاٹ کے رکھ دیتے ہیں اور اس سے پہلے کہ لوگ بارانی و سیلابی پانی جمع کرنے کیلئے دوڑیں پانی غائب ہو جاتا ہے۔خطۂ مکران میں کہنے کو6 قابلِ ذکر پہاڑی نالے ہیں مگر بارش ہوجائے تو ان کا پانی بھی سمندر فوراً  ضبط کرلیتا ہے۔
جب گوادر1958 تک سلطنتِ اومان کا حصہ تھا تو کم آبادی کا کھارے پانی کے4,2 کنوؤں سے گزارہ ہوجاتاتھا۔ 1972 میں نیپ کی 10 ماہی حکومت آئی تو اس نے گوادر تا دریائے دشت ایک پائپ لائن بچھا دی مگر دریا ہی خشک ہو تو پائپ لائن کیا کرے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں گوادر سے 85 کلو میٹر دور آکڑہ کور ڈیم بننا شروع ہوا تو1993 میں اس کا افتتاح بے نظیر بھٹو نے کیا۔پھر جیسا کہ رواج ہے ، ڈیم میں کچھ اسٹرکچرل خامیاں ابھر آئیں تو انکشاف ہوا کہ ناقص میٹریل استعمال ہوا ہے۔ ٹھیکے دار ( نیس پاک ) نے قرضہ دینے والے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کو یہ کہہ کر ڈیم فول بنایا  کہ آکڑہ ڈیم اگلے 50 برس تک گوادر شہر کو لگ بھگ3 ملین گیلن روزانہ پانی سپلائی کرے گامگر نیس پاک کے جلد باز ٹھیکیدار نے کچھ نہیں کیا۔
نتیجہ یہ ہے کہ2010ء کے بعد سے 17 ہزار ایکڑ جھیل والا یہ ڈیم کسی فاقہ کش آنکھ کی طرح خشک  ہے۔کبھی کبھی آسمان اپنی جیب سے چند آبی سکے اچھال دے تو الگ بات۔اب تو جھیل بھی شرارتی برساتی نالوں کے لائے گارے سے بھر چکی  اور جس ڈیم کو50 برس زندہ رہنا تھا اس کا 17برس میں ہی کلیان ہوگیا۔
اگر ہم گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( جی ڈی اے )  کے نقشوں اور پریزنٹیشن پر یقین کرلیں تو حالات اتنے برے نہیں جتنے میں بیان کر رہا ہوں۔وہ آپ کو بتائیں گے کہ42 ہزار ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش والا سوار ڈیم اور51 ہزار ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش والا شادی کور ڈیم 2007 سے زیرِ تعمیر ہے۔یہ دونوں ڈیم 2014میں ہی مکمل ہوجاتے اگر یہاں کام کرنے والے مزدور قتل نہ ہوتے۔اب انشااللہ یہ ڈیم 2018 تک مکمل ہوجائیں گے ( کیونکہ2018الیکشن کا سال بھی ہے )۔ 
جی ڈی اے والے آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ ان کی گولڈن پام ڈِسٹِلّیشن پلانٹ والوں سے پانی خریدنے کی بات چل رہی ہے۔ بس فی گیلن ریٹ طے ہوجائے اس کے بعد گوادر کو4 لاکھ گیلن پانی روزانہ ملنے لگے گا۔گوادر کے نزدیک کرواٹ میں لگا پلانٹ چالو رہتا رہے  تو 20 لاکھ گیلن پانی وہاں سے  آنا کوئی مسئلہ نہیںاور ہمارا اپنا جی ڈی اے کا چھوٹا سا پلانٹ ایک لاکھ گیلن  پانی روزانہ صاف کرسکتا ہے ( اگر چلے  تو )۔اب بجلی بھی تو نہیں ۔8 سے 12 گھنٹے  کی لوڈ شیڈنگ بھی تو ہے اور اگر کوئی ہمیں 200کلومیٹر پرے واقع میرانی ڈیم سے گوادر تک صرف4 ارب روپے کی پائپ لائن بچھا دے تو وہاں سے روزانہ 50 لاکھ گیلن پانی آ سکتا ہے جبکہ گوادر اور آس پاس کے ساحلی علاقوں کی اس وقت کی روزانہ ضروریات 46 لاکھ گیلن ہیںاور اب تو پاک چائنا اکنامک کوریڈور کے نگراں احسن اقبال نے بھی وعدہ کرلیا ہے کہ2020 تک گوادر کو چونکہ کم ازکم12 ملین گیلن پانی درکار ہوگا اس لئے حکومت اس سے پہلے پہلے ہی گوادر کو ایک میگا ڈِسٹِلّیشن پلانٹ کے  ذریعے جل تھل کر دے گی اور یہ کہ…
ارے بھائی صاحب کہاں چلے…ابھی تو میری تقریر آدھی بھی نہیں ہوئی…پوری بات تو سنتے جائیں…کمال ہے ! میں گوادر کی ترقی کی بریفنگ دے رہا ہوں اور یہ بھائی صاحب بیچ میں سے ہی اٹھ کر چل پڑے۔
  وہی واٹر ٹینکر جو کراچی میں ساڑہے 3 ہزار روپے کا پڑتا ہے گوادر میں 15 ہزار روپے میں  بآسانی دستیاب ہے۔جو اَفورڈ نہیں کرسکتے وہ سرکاری واٹر ٹینکر یا پاک بحریہ کے جہاز  کا انتظار کرتے ہیں۔جو بہت جلدی میں ہیں وہ برتن لے کر پانی کی تلاش میں میلوں نکل پڑتے ہیں اور جنہیں بالکل صبر نہیں وہ سمندر سے پانی کا دیگچہ بھر کے ابال لیتے ہیں۔اس آبی پس منظر میں جب چیک پوسٹ پر کھڑا جوان منرل واٹر چسکتے ہوئے کاغذات چیک کرتا ہے تو خشک لبوں پر زبان  پھیرتے ہوئے بس مزہ ہی تو آ جاتا ہے۔

شیئر: