Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوسروں کیلئے جی کر دیکھئے بہت سکون ملے گا، سلمیٰ بہادر

اسی سوچ نے فلا حی کا موں پر ما ئل کیا،کراچی میں معذوروں کےلئے قائم امید گاہ ویلفیئر ٹرسٹ کی بانی کا انٹرویو
تسنیم امجد۔ریا ض
گھڑی کی سو ئیو ں کی ٹک ٹک ہی وہ ما نو س آواز ہے جو وقت گزر نے کا احساس دلا تی ہے ۔اردو نیوز کے ہوا کے دوش پر ،کے سلسلے کو پڑ ھتے ہوئے برسوںگزر گئے لیکن ہر ہفتے اس کی تِشنگی میں اضافہ اس کی مقبولیت کا پتہ دیتا ہے ۔دیسیو ں و پر دیسیو ں کے زندگی کے تجربات اسے چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ہوائی ملا قا تو ں سے سبھی خوش ہیں ۔اردو کمیو نٹی کو اپنے وجود کا احساس ہو تا ہے ۔زندگی کا احساس ہو نا بہت سروردیتا ہے ۔ذہنِ رسا اس حوالے سے کیا خوب کہتا ہے کہ زندگی تو خود ایک آرٹ ہے اور ہم سب آرٹسٹ۔اس کے رنگوں میں ہر کو ئی اپنی بساط کے مطا بق رنگ بھرتا ہے ۔ہر ایک اس کے کینوس پرخوبصورت نقش و نگار بنانے میں مصروف ہے جو اسے اپنی سمت منتخب کرنے کا اشارہ دیتے ہیں ۔محترمہ سلمی بہادر اپنے نام کی طرح ایک بہادر خاتون ہیں۔وہ بھی اپنی زندگی کا کینوس اپنے ہی رنگوں سے خوب سے خوب تر بنانے کا عزم لئے روا ں ہیں ۔وہ ایک ایسی فنکارہ ہیں جو زندہ انسانوں کو نئی روشنیوں سے ہمکنار کرنے کی متمنی ہیں۔اس مقصد کے لئے انہوں نے ” امید گاہ ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا ۔ذہنی ،جسمانی پسماندہ بچو ں کی بحا لی کا یہ مر کز گلشن اقبال میںبے لو ث جدو جہد میں مصروف ہے ۔
محترمہ سلمیٰ سے ہوا کے دوش پر ہماری ملا قات ہوئی ۔ان کی گود میں ایک بچی تھی جو جسمانی طور پر معذور تھی ۔اس نے کھانا کھا یا تھا اور وہ اس کے ہاتھ دھلا رہی تھیں ۔ہمیں کچھ دیر منتظر رہنا پڑا۔اس دوران ہم نے مرکز کا جا ئزہ لینا مناسب جانا ۔ہر عمر کے بچے وہا ں مو جود تھے ۔جو اپنے اپنے طور مشا غل میں اتنے مصروف تھے کہ سر اٹھانے کی فر صت بھی نہ تھی ۔کوئی برش پکڑے رنگ کر رہا تھا اور کوئی ڈرائنگ۔کچھ اداس بیٹھے ما حول کا جا ئزہ لے رہے تھے جیسے فلا سفر ہو ں ۔ایسا لگا کہہ رہے ہو ں
یہ جو چہرے سے تمہیں لگتے ہیں بیمار سے ہم
خوب روئے ہیں لپٹ کر درو دیوار سے ہم 
سب کی آ نکھ کی نفرت نے ہمیں قتل کیا 
رنج ہی رنج جھولی میں بھرے ہیں ہم نے
جب بھی گزرے ہیں کسی درد کے بازار سے ہم
کچھ جہد مسلسل نے تھکایا ہے اورکچھ نفرت نے
اند ھیری رات میں آ نسو بچھا دئے ہم نے 
یہی توہیں جو خدا سے التما س کرتے ہیں !!!
کچھ بچے ابھی کھا نا کھا رہے تھے ۔یہ عمر میں کچھ سمجھدار تھے اس لئے ان کی باری تیسری شفٹ میں ر کھی گئی ۔ان کے بیٹھنے کے انتظامات بہت اچھے تھے ۔میز پر بیٹھے اپنے سامنے رکھے کھانے سے محظو ظ ہو رہے تھے ۔ڈسپلن کمال کا تھا ۔ہم سو چنے لگے کہ دما غی اور جسمانی کمزوری کے با وجود ان پر نہ جانے کتنی محنت کی گئی ہے کہ اسقدر نظم و ضبط کا مظاہرہ ہے ۔ان کے لئے کھا نا کہا ں اور کیسے بنتا ہے اسی تجسس میں تھے کہ سلمی بہادر آ گئیں۔ہم نے ان سے اس ڈسپلن کا سوال کیا تو بو لیں ،
زندگی کیا ہے ؟ عنا صر میں ظہو رِ تر تیب  
موت کیا ہے ؟ انہی اجزاءکا پریشا ں ہو نا
اس ظہورِ تر تیب “کا دوسرا نام نظم و ضبط ہے ۔ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے زندگی کے ہر انداز کو نظم و ضبط میں ڈھا لنے کا درس دیا ہے ۔اس پر عمل کرنے والے کی زندگی بے ڈھب نہیں رہتی ۔ہم بحثیت مجمو عی سب سے پہلے بچو ں کو اس کے لئے با قا ئدہ ٹریننگ دیتے ہیں۔انہیں 
معلوم ہے کہ ہماری باری کب آئے گی۔ورنہ خا ص طور پر کھانے کے وقت مشکل ہو جائے ۔انہیں معلوم ہو تا ہے کہ اب کھانے کا وقت ہو گیا
ہے۔  پہلے سے ہی اپنا کام سمیٹ کر ،ہاتھ منہ صاف کر کے خود کو تیار کرلیتے ہیں۔کھانا شام کو تیار ہو گا تو آپ کو وہ سارا طریقہءکار دکھائیں گے۔گفتگو کے دوران سلمی مر کز کی دیوا روں پر لگے بو رڈ بھی ٹھیک کر رہی تھیں۔کہنے لگیں چائے کا وقت ہے آئیے مل کر چائے پیتے ہیں ،ہوا
کے دوش پر جغرا فیائی حدود کے با وجود ادھر ادھر آمنے سامنے بیٹھ کر چائے پینے کا بھی ایک الگ ہی لطف ہے ۔ہم نے بھی کپ تھام لیا ،کہنے لگیں،یہ کام میں گذ شتہ 25برس سے کر رہی ہو ں۔اس سے مجھے جو سکون ملتا ہے اس کو الفا ظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔میں 3برس کی تھی 
کہ مجھے پو لیو ہوا ۔اس نے میری زندگی کو سہارے کے سپرد کر دیا ۔والدین نے خوب علاج کروایا۔اللہ کا احسان ہے کہ مکمل معذوری سے 
بچ گئی اور صرف ایک ٹا نگ پر اثر ہوا جس کے لئے ہینڈ بیسا کھی کا سہا را لینا پڑ تا ہے ۔اس کی وجہ سے میں نے اپنی تعلیم میں بے شمار رکا و ٹیں
دیکھیں۔سکول کی چند جما عتو ں کے بعدبا قی تعلیم پرا ئیویٹ ہی حا صل کی ۔ان بر سوں میں مجھے جن جن تجر بات سے گزرنا پڑا ان کو شاید میں یہا ں بیان نہ کر سکو ں۔یہ سب بتا تے ہو ئے سلمی بہادر کے چہرے پر شدید کر ب کے آ ثار تھے ۔اس کے ساتھ ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ ایک ہمہ جہت و ہمہ صفت خاتون ہیں ان کی آواز میں ایک عزم تھا ۔آگے بڑھ کر کچھ پا لینے کا عزم،خو شیو ں کو با نٹنے کا عزم ۔ معصوم و معزور
لوگ جنہیں دنیا بے کار جان کر اپنے وجود سے پرے پھینکدیتی ہے،کو گلے لگا نے کا عزم۔میں نے تہیہ کیا کہ ایسے تمام افراد کو جو کسی نہ کسی طور معذ ور ہیں،کو ان کی اس سوچ سے نکالو ں گی کہ وہ اب معاشرے پر بو جھ ہیں ۔اس کو شش میں کسی نہ کسی حد تک کا میاب بھی ہو چکی ہوں۔مجھے ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ سے سکون ملتا ہے ۔جذ بو ں میں صدا قت ہو تو کا رواں بنتا چلا جاتا ہے ۔ہم سبھی قومی دن مناتے ہیں۔جو بچے یا بچیا ں کسی حد تک بہتر ہو تے ہیں انہیں نغمو ں ،ٹیبلو یا کسی اور طرح کی پر فار منس میں شامل کر لیتے ہیں ۔اسٹیج پر اور گراﺅنڈ میں یہ خود کو بہت بہتر ثابت کر نے کی کو شش کرتے ہیں ۔فز یو تھرا پی کے عا لمی دن کے مو قع پر ” ڈا ﺅ یو نیور سٹی آف ہیلتھ سا ئینسز ،، کے طلباء و طا لبات نے ہمارے بچو ں و ٹیچرزکو فز یو تھراپی کے طریقو ں سے آ گاہ کیا ۔انہیں آگہی دی کہ یہ کسقدر اہم ہے ،خصوصی طور پراسپیشل لوگوں کے لئے ۔یہا ں محتر مہ کی آواز بھرا گئی۔بو لیں ،ہمارا معاشرہ بہت سنگدل ہے ۔ایسے لوگ آ ٹے میں نمک کے برا بر ہیںجو دل و جان سے بہبو د کے کام کرتے ہیں ۔سنٹر ’4 ، بچوں سے شروع ہوا تھا لیکن اب اس میں35 ہیں۔ہر عمر کے بچے ہیں اس لئے انہیں الگ الگ کلا سیں آلاٹ کر نا پڑ تی ہیں ۔افسوس تو یہ ہے کہ ان میں ایسے گھرانوںکے بچے بھی ہیں جو بہت کھاتے پیتے ہیں۔یہ لوگ اپنی مصروف زندگی میں انہیں رکا وٹ سمجھتے ہیں یا شرم بھی محسوس کرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ؟
سلمیٰ بہادر کی ان با تو ں سے ہمیں چند گھرا نوں کے بچے یاد آ گئے جنہیں ان کے والدین کے ایسے ہی رویو ں نے ا حساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا ۔ہم مسلمان ہو تے ہو ئے بھی اس حقیقت کو پلے نہیں با ندھتے کہ ہر انسان کو اللہ تعا لی نے بنایا ہے ۔کو ئی کمی وہ کسی اور انداز میں پو ری کر دیتا ہے ۔یعنی اس کی تلا فی بھی اسی ذاتِ اقدس کے ہا تھ میں ہے ۔جیسے اندھو ں کی سماعت اور حا فظہ دو سروں سے بہتر ہو تا ہے۔مشہور انگریزشاعر لارڈ با ئزن لنگڑا تھا ۔اس نے اپنی علمیت اور شا عری سے لو گو ں کو ایسا گر ویدہ بنا یا کہ اس زمانے کی انگریز عو ر تیںلنگڑا کر چلنے میں فخر محسوس کر تیں۔مصر کے مشہور عا لم ،مصنف اور و زیر سید طہٰحسین نا بینا تھے مگر ان کی بیو ی پیرس کی حسین ترین عو رت تھی۔مصر کے ایک دیہات کا لڑ کا نا بینا تھا ۔بھیک ما نگنے کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا
ارد گرد کے لو گو ں کی بھی یہی رائے تھی ۔اس نے اپنی معذوری کو چیلنج سمجھا اورتعلیم حا صل کی ۔اس کی لگن نے اسے و زیرِ تعلیم بنا دیا ۔ہیلن کیلر 
اگر چہ اندھی تھی لیکن اس نے دنیا بھر میںاندھو ں کے لئے لیکچر اس انداز میں دئے کہ بہتری کی صورتیں وا ضح ہو تی چلی گئیں ۔کرا چی کی ڈاکٹر فا طمہ سے تو ہماری ملا قات بھی ہو ئی جو نا بینا ہونے کے باو جود دنیا گھوم آ ئی۔ اس سے ہم نے ان کی زندگی کے بارے میں پو چھا تو بولیں
کسی قسم کی معذوری یا کمزوری تر قی کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہے ۔جیسے شعر میں ہے کہ ،
تندی باد ِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑا نے کے لئے 
سلمیٰ بہادر بو لیں میرے والد بھی اپنے نام کی طر ح بہا در انسان تھے جبکہ والدہ زینب بہادر بھی بہت با ہمت بھی۔ہم پانچ بہنیں اور ایک بھا ئی ہیں ۔پا نچ بیٹیو ں کی تر بیت اور پھر بیا ہنا کو ئی آ سان نہیں۔لیکن والدین نے یہ فریضہ خوب نبھا یا ۔بھا ئی اکلوتا ہے لیکن اس میں اکلوتوں والی کو ئی پھوں پھا ں نہیں ۔نہایت با ادب اور پر خلوص۔بھا بی بھی میرے ساتھ سنٹر میں کام کرتی ہے ۔میں بھیا کے ساتھ ہی رہتی ہوں۔ہمارے سوال پر کہ زندگی میں سا تھی کو ن بنا تو مسکرا کربولیں،
عالمَ محبت میں
اک کمال و حشت میں
بے سبب رفا قت میں
دکھ اٹھا نا پڑ تا ہے 
 تتلیا ں پکڑنے کو 
دور جانا پڑ تا ہے
ان کے اس جواب سے ہم سب سمجھ گئے ۔کہنے لگیں،میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں۔مسکرا ہٹیں بکھیرنے میں جو سکون ہے اس کا کوئی بدل نہیں۔میری لگن نے مجھے ایک پہچان دی ہے ۔گذ شتہ جشنِ آذادی پر ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی محتر مہ شہلا رضا بطور مہمانِ خصوصی تشریف لا ئیں تو بہت حو صلہ افزائی ہو ئی ۔انہوں نے کہا اسپیشل بچے قوم کی امانت ہیں۔ان کا خیال رکھنا عبادت ہے ۔یہ وطن کے پھول ہیں ۔ہم سب کی ہمدردی اور محبت کے مستحق ہیں ۔اسی طرح کسی بڑے آدمی کا آنا ہم سب کے لئے حو صلہ افزا رہتا ہے ۔یہ ادارہ رجسٹر ڈ ہے۔ہم یہا ں اسپیچ تھراپی ،مینٹل تھراپی ،فیز یکل تھراپی اور ایجو کیشنل تھراپی مہیا کرتے ہیں ۔بچو ں کے پک اینڈ ڈراپ کے لئے ایک گا ڑی ہے ۔ابھی کو سٹر کی اشد ضرورت ہے ۔مجھے اللہ کریم کی ذات پہ پورا بھرو سہ ہے ۔اس کی مدد کہیں غیب سے آن پہنچتی ہے ۔مرکز اپنے نام کی طر ح ” امیدو ں ،، کے سہارے ہی چل رہا ہے ۔پھر وہ ہمیں کھانے کی جانب لے گئیں ۔بچے کھڑکیو ں سے با ہر جھا نک رہے تھے۔کچھ اشارو ں سے خو شی کا ا ظہاراورکچھ بھوک لگنے کا کہہ رہے تھے یہ منظر رلانے والا تھا ۔انسان کی بے بسی اور لاچاری دیکھ کر بے اختیار شکرانے کے لئے آنکھیں اور ہاتھ او پر اٹھ گئے ۔کھانا حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطا بق بنا یا جا رہا تھا ۔با ورچیوں کا سر ڈھانپنا اور ہاتھوں میں دستانے پہننابہت اچھا لگا ۔سلمی بو لیں انسان اشرف ا لمخلوقات ہے ۔اس نے اپنے اس شرف کو پہچانا ہی نہیں ۔معذ ور افراد کو بوجھ سمجھا جا رہا ہے ۔1998ءکی مردم شماری کے مطا بق معذور افراد ہماری آبادی کا 2.49 حصہ ہیں۔اب ان میں ا ضا فہ ہی ہوا ہو گا۔ (کیو نکہ اس کے بعد مردم شماری نہیں ہوئی ) یہ بھی کل آ بادی کا دس لاکھ بنتے ہیں۔ان میں صرف 4% کو تعلیمی سہولتیں میسر ہیں ۔باقی 96% کا کو ئی پرسانِ حال نہیں ۔ہمارے ہا ں70ءکی دہائی میں شمولیاتی تعلیمی نظام شروع ہوا یعنی کم معذور بچوں کو عام بچوں کے ساتھ ہی تعلیم دلائی جائے تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو اور انسانی تنوع کا ادراک حا صل کر سکیں ۔بظاہر کسی کمی کا شکار یہ بچے درحقیقت اپنی ذات میں بے شمار گوہر سنبھا لے ہو تے ہیں۔اسی لئے ہر سال 3 دسمبر کو ان کا دن منا یا جا تا ہے ۔حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارے ہا ں اسپیشل بچوں و بڑوں کی تعداد سویڈن ،آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے ۔لیکن ہم ان کی طرف سے با لکل لا تعلق ہیں ۔گھر والوں پر بو جھ ہیں ۔غر با ءتو انہیں سڑ کوں پر کمانے کے لئے چھو ڑ دیتے ہیں ۔کو ئی ذیادہ دور کی مثال نہیں ،امریکہ کے صدر ” تھیڈور روز ویلٹ کی ہے جو 1901ء میں صدر منتخب ہوا ۔یہ بچپن میں ٹیڈی کے نام سے پہچا نا جا تا تھا ۔
پیدا ئشی مرگی کے مرض میں مبتلا تھا اوربعد میں دمہ کا شکار رہا ۔بعد میں ادیب ،شاعر اور فو جی بنا ۔اسی طر ح ایک امریکی ادا کارہ ” جو لیا را بر ٹس کو بھی بچپن میں بو لنے کا مسئلہ رہا لیکن بعد میں وہ امریکہ کی سب سے ذیا دہ معا و ضہ و صول کرنے والی ادا کارہ بنی ۔ہمیں بھی یاد آیا کہ ہمارے ایک گورنر جنرل غلام محمد خان کا شمار بھی معذور افراد میں ہو تا تھا ۔شاید ان کی پشت پر کوئی بڑی شخصیت ہوگی ۔( ہمارے رویوں کے مطابق )۔ہماری گفتگو خا صی طویل ہو چکی تھی لیکن مو ضو ع ایسا تھا کی بات سے بات نکل رہی تھی ۔سلمیٰ بہادر اپنے ہی معا شرے کی بے شمار مثالیں دینے لگیں کہ کسطر ح کئی سپیشل افراد کسی نہ کسی کام میں لگے ہو ئے ہیں۔یہ وہ ہیں جن پر تو جہ دی گئی ۔جن کے والدین خوفِ خدا رکھتے تھے ۔لیکن ان لو گو ں سے نفرت کی جا تی ہے ۔ان کی حر کات کو نفرت سے دیکھا جاتا ہے ۔گھر میں ان کا وجود بو جھ ہو تا ہے۔مہمانوں کے آنے پر ان کوکسی پچھلے کمرے میں چھپا دیا جاتا ہے ۔اس حالت میں ان پر جو گز رتی ہے وہ یہ بتا نہیں سکتے ۔ہم ایسے رویوں کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں ،آ خر میں بو لیں ، دوسرو ں کے لئے جی کر دیکھئے ،بہت سکون ملے گا ،مجھے یہی سوچ فلا حی کا مو ں کی طرف ما ئل کرتی گئی کہ اسی میں اللہ کی خو شنو دی حا صل ہو گی ۔نشیب و فراز سے نمٹنے کے لئے بلند ہمتی درکار ہے ۔
کچھ جہدِ مسلسل سے تھکاوٹ نہیں لا زم
انساں کو تھکا دیتا ہے سو چو ں کا سفر بھی
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: