Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہر کی ناموری پر بہت خوش ہوں، صائمہ شیخ

سروش جس شہر جاتے ہیں، وہاں انکے ساتھ شام منائی جا تی ہے
زینت شکیل۔جدہ
مالک حقیقی نے کائنات اور حیات کو ایک دوسرے سے مربوط بنایا ہے۔ اشیاءکی خارجی شکل عارضی اور فانی ہے۔ تصورات، خیالات اور افکار لافانی حیثیت کے حامل ہیں۔ کسی شے کی حقیقت اسکے مادی وجود میں نہیں بلکہ اس کے تصور میں پنہاں ہے ۔ کوئی ایک اچھی بات،ایک مفید مشورہ، ایک حوصلہ افزائی کا جملہ کسی کے لئے کتنا اہم بن جاتا ہے،اس بارے میں غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک پوری شخصیت بھرپور رہبری حاصل کرتی ہے۔
اس ہفتے ہوا کے دوش پر نوید سروش اور انکی اہلیہ محترمہ صائمہ شیخ سے اسی موضوع پر گفتگو ہوئی۔ نوید سروش جب اردو کے مضمون میں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر ایم اے کرنا چاہتے تھے تو ایک اردو روزنامے کے دفتر میں موجودبشیر عنوان صاحب نے ایک مفید مشورے سے نوازا کہ آپ ریگولر اسٹوڈنٹ کے طور پر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کیجئے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو اساتذہ کی علمی صحبت حاصل ہو گی۔ عنوان صاحب کا یہ مشورہ ہی میرے لئے بہترین دور کا آغاز ثابت ہوا ۔ میر پور خاص سے روزانہ سہ پہر والی ریل گاڑی سے تین بجے حیدر آباد جاتے اور رات مہران ٹرین سے واپس آتے۔2 سالہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں نیزعلمی و ادبی محافل نے شخصیت کو نکھارا اور اسکے لئے وہ پروفیسر رابعہ اقبال،پروفیسر ڈاکٹرسعدیہ نسیم،پروفیسر فہمیدہ شیخ،پروفیسرعتیق احمد جیلانی اور پروفیسر مرزاسلیم بیگ کے لئے تشکر کے جذبات رکھتے ہیں جنہوں نے علمی اور ادبی ماحول میں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ تربیت بھی کی۔ 
محترمہ صائمہ شیخ نے اپنے والد محمد مسلم کامشورہ کو دل وجان سے مانا اور تعلیم حاصل کرنا اپنا مقصد حیات بنا لیا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج ایگریکلچرل یو نیورسٹی ٹنڈو جام کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کمپیوٹر کے شعبے میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔ اپنی والدہ کے بارے میں وہ بہت محبت سے ذکر کر رہی تھیں کہ ہماری والدہ نے ہم 10بہن بھائیوںکو بہت توجہ سے پالا ۔ ان کی تربیت میں یہ بات شامل رہی کہ ہمیشہ مثبت انداز فکر اپناﺅ۔ اپنی پوری محنت کے بعد صبر کے ساتھہ نتیجے کا انتظار کرو ۔ زندگی میں کبھی مایوس نہ ہونا کیونکہ مایوسی کفر کی علامت ہے۔ 
انکی والدہ کا نام رشیدہ ہے اور نام کے اثرات کی ان کی شخصیت پر گہری چھاپ ہے۔ سچ یہ ہے کہ دین کا صحیح فہم اور دین کی حکمت ہی کامیابی و کامرانی کا سر چشمہ ہے۔جو کچھ دنیا کے سامنے پیش کریں ،اسکا مخاطب سب سے پہلے اپنے آپ کو بنائیے ۔زبان انسان کی پہچان ہے، قلم مصنف کی سوچ اور زاویہ¿ نگاہ کا عکس ہوتا ہے۔تعلیم وہ قیمتی اثاثہ ہے جو کسی معاشرے کی ترقی کا ضامن ہے۔ تعلیم خوابیدہ صلاحیتوں کواجاگر کرتی ہے۔ اس کے ذریعے ریاست اور افراد میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
نوید سروش صاحب شاہ عبداللطیف گورنمنٹ کالج ،میر پور خاص میں شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اپنے والد فہیم الدین اور والدہ حمیدہ بیگم کے فرماں بردار صاحب زادے ہیں ۔والد صاحب نے انہیں تعلیمی شعبے کے انتخاب کی اجازت دی اور انکی والدہ انکی تحریر کا پہلا تعارف کتابی شکل میں دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں جو” ہم نشینی“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔
محترمہ صائمہ سمجھتی ہیں کہ فن و ادب کا زندگی سے گہرا تعلق ہے ۔اقبال کا کلام نوجوانوں کو تفسیر قرآن کریم کو سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ غالب کا پورا کلام تغزل و تفکر کا جلوہ¿ صد رنگ ہے۔ تعلیم کے غیر رسمی ادارے لا محدود ہیں جو مختلف شعبہ ہائے حیات پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ بچوں کی تربیت میں گھر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ گفتگو کا انداز، نشست و برخاست اور بزرگوں کی محفلیں شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
محترمہ صائمہ کی دونوں بیٹیاں آفرینش اور اشماع اپنے دادا جان اور دادی جان کی لاڈلی ہیں ان کی وجہ سے گھر میں رونق ہے۔ میکا اور سسرال میں رسم و رواج کا زیادہ فرق نہیں ملا کیونکہ حیدر آباد اورمیر پور خاص کی معاشرت میں بہت ہم آہنگی ہے۔ 
پروین شاکر اور وصی شاہ کی شاعری بے حد پسند ہے ۔اچھاکلام جس کا بھی ہو ،متاثر کرتا ہے ۔اسی لئے ان کا کہنا ہے کہ حکیم عبدالحمید پریشان کے یہ اشعار کائنات کے حسن کو اجاگر کرتے ہیںکہ:
گلوں کو بھول گئی دیکھ کر چمن میں صبا
بس اب سماتی نہیں اپنے پیرہن میںصبا
الجھ کے رہ گئی گیسوئے پُر شکن میں صبا
 خدا کی شان ہے لوبندھ گئی رسن میں صبا
ہوائے کاکل مشکیں میں ہو گئی برباد
 بگولہ بن کہ اڑی پھرتی ہے ختن میںصبا 
چمن کی سیر سے گلشن میں اور بھڑکی آگ
 اثر سموم کا دینے لگی بدن میں صبا 
زمین تنگ میں رکھتی نہیں ہے طبع رواں
 کسی سے بندھ نہیں سکتی کبھی رسن میں صبا
نزاکت اورلطافت سے گل رخوں کی طرح
 چمن میں پھرتی ہے شبنم کے پیرہن میں صبا
 بجائے سبزہ¿ بیگانہ گل ہوئے پامال
 الجھ کے رہ گئی پا پوش کی کرن میں صبا
لپٹ کے پتوں سے دیتی ہے واہ وا ہ کی صدا
 جواب دیتی ہے بلبل کا ہر سخن میں صبا
 نمی سے ہوتے ہیں گھل گھل کے سنگ سب پانی
کرائے وصل نہ شیریں و کوہکن میں صبا
نوید سروش کی شاعری اورنثر،بالخصوص خطوط ادبی رسائل میں تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔مختلف شہروں کے ادیبوں اور شاعروں کو جب میر پور خاص کا رخ اوریہاں اپنا پروگرام کرنا ہوتا ہے تووہ نوید سروش سے رابطہ کرتے ہیں جس کے رد عمل میں موصوف جس شہر جاتے ہیں، وہاں ان کے ساتھ شام منائی جا تی ہے۔خطوط اور رابطوں کی بدولت پاکستان کا شایدہی کوئی شہر ہوگا جس میں انکی ادبی شناسائی نہ ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے ملک کے جس کسی شہر یا قصبے سے ادبی رسائل و جرائد کا اجرا ہو تا ہے،ان میں نوید سروش کا نام خواہ ایک مرتبہ ہی سہی شائع ضرور ہوا ہوگا۔ 
صائمہ شیخ کہتی ہیں کہ میں اپنے شوہر کی اس ناموری پر بہت خوش ہوں۔میر پور خاص کے کئی شعراءکے شعری مجموعوں کی اشاعت میں انکے شوہر کا کلیدی کردار ہے۔ ان میں تاج قائم خانی کا ”چھاﺅں سلگتی راہوں میں “، غلام حسین شہزب مغل کا”بستی بستی دھوپ“، ظہیر اقبال زیدی کے دو مجموعے ”نگر“ اور” بیابان“ کے علاوہ ماہر اجمیری کے اولین مجموعے ”موسم بدل رہا ہے“ شامل ہیں۔
محترمہ صائمہ شیخ کو نوید سروش کی شاعری سے زیادہ دلچسپ وہ تنقیدی خطوط لگتے ہیں جو وہ مختلف رسائل کو بھیجتے ہیں اور انکی تحریر کو نمایاں جگہ پر شائع کیا جا تا ہے۔ 
تاریخ اسلام میں بھی ماسٹرز کی ڈگری لینے والے استاد کی دینی معلومات میں یقینا اضافہ ہوا اور انکی تحریر میں بھی پختگی آئی ہے۔ وہ اس بات سے خوشی محسوس کرتی ہیں کہ نوید سروش کو تعلیم یافتہ طبقہ میسر آیا ہے اور یہ وہ نعمت ہے جس کی قدر کی جانی چاہئے ۔نوید سروش کا کہنا ہے کہ صائمہ بہت محنتی ہیں ۔وقت کو منظم کرنا جانتی ہیں ۔ وہ جاب کے ساتھ دونوں بچیوں کی تربیت بہترین طور پر کر رہی ہیں۔ بہت مہمان نواز ہیں،اپنے ملک کی سیاحت کو پسند کرتی ہیں۔ علاقائی ثقافت کی دلدادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انکے پیرہن ، ثقافت کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔ 
نوید سروش کو اپنے بچپن میں پڑھی جانے والی اشتیاق احمد کی جاسوسی کہانیاں آج بھی یاد ہیں۔ ابن صفی کی تحریر کا انتظار کرتے تھے اور اخبار میں روزانہ چھپنے والے رئیس امروہوی کے قطعات کو مختلف رنگوں کی روشنائی سے اپنے رجسٹر میں لکھا کرتے تھے ۔نوید سروش نے جب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا تو سندھ گورنمنٹ سروس میں قدم رکھا اور گورنمنٹ بوائز کالج جوائن کیا۔ پرنسپل سراج الدین قریشی نے بہت تعاون کیا ۔
 

شیئر: