Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پڑوسی ملکوں کی کہانی

 خلیل احمد نینی تال والا 
یورپ کے 2ممالک ایک ہی براعظم میں واقع ہیں اور ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں ۔ان کانام انگلستان اور فرانس ہے۔ دونوں کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔دونوں کی تہذیب وتمدن ،رہنا سہنا ،کھانا پینا،سیاسی شعور الغرض کوئی چیز ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتی۔ دونوں پڑوسی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جانی دشمن سمجھے جاتے تھے ۔ایک دوسرے کی زبان بولنا تو کجا پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔فرانسیسی انگلش زبان کو بڑی حقارت سے دیکھتے تھے۔ اگر کوئی مسافر فرانس میں انگریزی میں کوئی پتہ پوچھتا تھا تو فرانسیسی اسے نفرت سے دیکھتا ہوا آگے بڑھ جاتا تھا اور بیچارا مسافر منہ دیکھتا رہ جاتا تھا ۔یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں، صرف25تیس سال پہلے تک کی بات ہے ۔ایک زمانے تک دونوں ملکوں میں بادشاہت تھی ۔فرانس اپنے بادشاہوں سے نجات پاکر جمہوری ملک بن گیا مگر انگلستان میں آج بھی ملکہ راج ہے اور ساتھ ساتھ جمہوریت بھی ہے ۔
دونوں نے دیگر ممالک پر حکمرانی کی ۔فرانس کی حکمرانی زیادہ ترعربوں کی خلیجی ریاستوں،افریقہ اور فرانس سے متصل سرحدی ممالک تک محدود رہی ۔اسی وجہ سے اپنے آپ کو عظیم حکمران سمجھتے تھے اور انگریزوں سے نفرت کرتے تھے ۔انکے اپنے ملک میں اور مفتوحہ ممالک میں ٹریفک کا نظام بھی انگریزوں کے برعکس ہوتا تھا۔ناپ تول کا نظام انگریزوں سے مختلف تھا۔انگریز اونس ،پونڈ ،گیلن ،میل میں حساب کرتے تھے تو وہ کلوگرام ،لِٹر اورکلومیٹر کے نظام سے کام چلاتے تھے یعنی کوئی چیز ان میں مشترک نہیں تھی ۔دونوں ایک دوسرے پر برتری لیجانے کی کوشش کرتے تھے البتہ انگریزوں کا رویہ فرانسسیوں کے مقابلے میں اس قدر جارحانہ نہیں ہوتا تھا ۔انکی فتوحات فرانسسیوں سے بہت زیادہ تھیں ۔وہ تقریباً ہر براعظم میں اپنی حکومت پھیلا چکے تھے، اسی وجہ سے خود کو گریٹ برٹن (Great Britian)کہلواتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ انکے زیر اقتدار علاقے میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر انکی دشمنی ہمیشہ مثالی رہی۔ دونوں خوشحال تھے ۔پڑھے لکھے صنعتی تجارتی طور پر ترقی یافتہ تھے ۔موسم اور مذہب دونوں کے تقریباً ایک تھے ۔آہستہ آہستہ یورپ والوں نے دیکھا کہ ایشیا والے ان سے آگے بڑھ رہے ہیں، وہاں تعلیم آچکی ہے۔انکی تعداد آبادی کے لحاظ سے زیادہ ہے اور وہ خود سر بھی ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے اپنی اپنی مملکت کو سمٹنا شروع کردیا جس کی وجہ سے قومیں آزاد ہونے لگیں اور نئے نئے ملک دینا کے نقشے پرا بھرنے لگے ۔
انہی ملکوں میں ایک ملک ہندوستان بھی تھا جو 70سال پہلے آزاد ہوا ۔اس ملک میں کئی قومیں آباد تھیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتی تھیں۔ ان میں مسلمان اور ہندوئوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ باقی سکھ ،عیسائی اور یہودی اور پارسی بہت کم تھے۔ اس ہندوستان پر ایک عرصہ تک مسلمان حکمران رہے۔ دونوں کا مذہب اگر چہ الگ تھا مگردونوں ایک دوسرے کے ہمیشہ دوست رہے۔ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ آپس میں بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی زبان سمجھتے تھے یعنی اُردو زبان ۔پھر کھانا پینا بھی تقریباً ایک جیسا تھا ،سوائے آپس میں مذہبی ممنوعہ اشیاء کے دونوں ایک جیسا ہی کھاتے تھے۔
پھر ہندوستا ن آزاد ہوگیا تو دونوں قومیں آزاد ہوگئیں مگر افسوس شرپسندوں اور مفاد پرستوں کو موقع مل گیا ۔نسلوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے راتوں رات ایک دوسرے کے نہ صرف دشمن بلکہ خون کے پیاسے ہوگئے ۔ایک دوسرے کو قتل کرکے ان کے مال پر قابض ہوگئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔دونوں ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر لڑرہے ہیں حالانکہ غربت آج بھی دونوں کا عام مسئلہ Problem) (Commonہے ۔انگریز جاتے جاتے کشمیر کی صورت میں دونوں کے درمیان دانستہ ایسا ناسور چھوڑ گیا جو دونوں کو کبھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دے گا ۔ ہندچونکہ طاقتور تھا اور پاکستان بحیثیت نوزائیدہ ملک بے حد کمزور ،اُس نے کشمیر پر جھگڑا کرنے کے بجائے یواین او اور اُس وقت کے ہندوستانی حکمرانوں کے وعدوں پر اعتبار کرکے دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر افسوس مغربی ممالک نے ہم کو ایک دوسرے سے کھنچائو اور تنائو میں رکھ کر ہماری ساری اقتصادی ترقی کو جنگ اور دشمنی کی آگ میں جھونک رکھا ہے اور خود دور بیٹھے ہوا دے رہے ہیں ۔اب دونوں ممالک ایٹمی قوت بن چکے ہیں ۔گزشتہ 70برسوں میں دونوں طرف کے مالی اورجانی نقصانات کا اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ کھربوں ڈالر دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
  دوسری طرف وہی ازلی دشمن انگلستان اور فرانس ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے ہیں کہ انکی کرنسی ،پارلیمنٹ،ایکسپورٹ ایک ہوچکی ہے ۔فرانس میں اب انگریزی بولنا فخر سمجھاجاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے کھل کر تجارت کررہے ہیں اور یورپ پھر سے ایشیاء کو من مانے داموں پر ٹیکنالوجی بیچ رہا ہے اور ہم اپنے ازلی دشمن کو آج بھی نہیں پہچان سکے ۔انہوں نے اپنی مفتوحہ مملکتیں آہستہ آہستہ آزاد کردی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کسی بھی ملک پر زبردستی اجارہ داری قائم نہیں رکھی جاسکتی۔انگلستان ایک گھنٹہ فرانس سے آگے ہے ۔میں ہندوستانی حکمرانوں سے سوال کرتا ہوں کہ آپ نے 70سال کشمیر پر بالجبر حکومت کرکے کیا حاصل کیا ؟ اور آئندہ یہ ہٹ دھرمی جاری رکھی تو بھی آپ کیاحاصل کرسکیں گے ؟کشمیر فطری طور پر ہندسے الگ ہے ،اسے بزور اپنا حصہ نہیں بنایا جاسکتا لہذا ہندوستانی حکمرانوں کو حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے اور کشمیریوں کو انکی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہیے، اسی میں ہند سمیت سب کا بھلا ہے ۔
روس جیسا ملک افغانستان پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکا، وہ عاقبت اندیش تھا اس نے جلد ہی سمجھ لیا کہ اب کوئی ملک دوسرے ملک پر زبردستی حکومت نہیں کرسکتا۔ وہ اس محاذ آرائی میں اربوں روبل اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ دیکر افغانستان سے دستبردار ہوگیاجبکہ ہند کھربوں ڈالر خرچ کرکے اور لاکھوں جانوں کی بھینٹ دیکر وہیں کا وہیں ہے کشمیری آج70سال بعد آزادی کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں اور ہند کی حکمرانی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ہندوستانی حکمرانوں نے اگر آج کشمیر کو آزاد نہیں کیا تو کل وہ مزید قیمت ادا کرکے بھی اس پر مسلط نہیں رہ سکتے اور ایک دن ان کو کشمیر کو آزاد کرنا ہوگا بہتر یہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے عزت کے ساتھ کشمیر کو آزاد کرکے ہندوستانی عوام کی خوشحالی کے کام کریں اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرکے ایشیاء کے2 اچھے پڑوسیوں کی طرح شیر وشکر ہوجائیں ۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں