Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کا فیصلہ ،عالمی قرار دادوں کے منافی

 القدس صرف100 سال کے علاوہ 637ء سے 1917ء تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا ، آبادی کی بڑی تعداد مسلمان ہے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی۔ ریاض
امریکہ میں گزشتہ سال عہدہ صدارت کے انتخابات ہونے سے قبل ہی دنیا کی مختلف امن پسند تنظیموں و اداروں اور متعدد سیاسی شخصیات نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر دنیا میں امن وسلامتی کے لیے خطرہ کا اظہار کیا تھا چنانچہ خود امریکہ میں ٹرمپ کی جیت پر جو مخالف مظاہرے اور احتجاج ہوئے وہ اس سے قبل وہاں دیکھنے میں نہیں آئے۔ نیز 2017 میں امریکہ میں جو دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے وہ اس کی واضح علامت ہیں۔ 20 جنوری 2017 کو ٹرمپ نے امریکہ کے عہدہ صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے اب تک متعدد ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی وہ تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ ٹرمپ کے بعض فیصلوں پر خود امریکی عدالتوں نے بھی پابندی لگائی جن پر ٹرمپ کو بہت خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔یہ فیصلہ تمام عالمی قراردادوں کے منافی ہے۔
اپنی شدت پسندی اور مسلم مخالف پالیسی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تمام عالمی قوانین، قراردادیں اور بین الاقوامی برادری کے متفقہ فیصلوں کی دھجیاں اڑاکر ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017ء کو یہ اعلان کرڈالا کہ اب وہ امریکی سفارت خانہ کو اسرائیل کے شہر تل ابیب سے ہٹاکر فلسطینی دارالخلافہ ’’القدس‘‘ منتقل کردے گا، جس کو بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آج سے100 سال قبل دسمبر 1917ء میں برطانوی حکومت نے اپنی ظالمانہ وغاصبانہ پالیسی کے تحت عثمانی حکومت سے کم وبیش ایک ماہ کی جنگ کے بعد اس مقدس سرزمین کو مسلمانوں سے چھین لیا تھا۔
غرضیکہ ٹرمپ کے اعلان کے مطابق اب اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں بلکہ وہ بیت المقدس شہر ہوگا جو آج بھی عالمی پیمانہ پر فلسطین کا ایک شہر ہے، جس پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں کیونکہ اْس نے 1967ء سے اْس پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ اسرائیل نے اپنی ہٹ دھرمی کا ثبوت دے کر 1980ء  میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کرکے تمام سرکاری دفاتر من جملہ پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ اور وزیر اعظم وصدرِ مملکت کے گھر بیت المقدس میں منتقل کردیئے ہیںلیکن اسرائیل کے اس ظالمانہ فیصلہ کے 37 سال گزرنے کے باوجود دنیا کے کسی بھی ملک نے آج تک بیت المقدس کو اسرائیلی حکومت کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا۔ اسی وجہ سے کسی بھی ملک کا اسرائیل کے لیے سفارت خانہ بیت المقدس میں نہیں ہے ۔ تمام سفارت خانے تل ابیب میں ہی قائم ہیں۔ امریکہ کے یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995ء کے تحت 31 مئی 1999ء سے قبل اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ کو القدس شہر منتقل ہونا تھا لیکن 22 سال گزرنے کے باوجود اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا اور ہر6 ماہ کے لیے اس کو مؤخر کردیا جاتاتھا۔ یکم جون 2017ء کو ٹرمپ بھی اس کو ایک بار مؤخر کرچکے ہیں۔یکم دسمبر 2017ء کو دوسری مرتبہ 6ماہ کے لیے مؤخر کرنے کے بجائے اسرائیل کے دباؤ میں آکر ٹرمپ نے بالآخر 6 دسمبر 2017ء کو یہ اعلان کرڈالا کہ وہ القدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرے گا۔ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ عرب ممالک سمیت مسلم رہنماؤں اور بین الاقوامی برادری نے ٹرمپ کے اس فیصلہ کی مذمت کی ہے کیونکہ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے حالات خراب ہوں گے، خونریزی اور قتل وغارتگری میں اضافہ ہی ہوگا اور اس مذموم فیصلہ کی وجہ سے دنیا ایک ایسی جنگ کی طرف جاسکتی ہے، جس سے دنیا میں تباہی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگااس لیے امن پسند لوگوں کو چاہئے کہ ٹرمپ کے اس فیصلہ کی ڈٹ کر مخالفت کریں۔ اقوام متحدہ نے بھی ٹرمپ کے اِس فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ اس موقع پر آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک آواز سے بین الاقوامی اداروں اور علاقائی تنظیموں کے ذریعہ امریکہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے مذموم فیصلہ کو پہلی فرصت میں واپس لے، نیز اس موقع پر مسلمانوں سے درخواست ہے کہ قبلہ اوّل کی یہودیوں کے چنگل سے مکمل آزادی کے لیے اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں کریں کیونکہ مسجد اقصیٰ میں یقیناپنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے لیکن جس شہر میں مسجد اقصیٰ واقع ہے ، یعنی بیت المقدس، اْس کا مکمل نظم ونسق اسرائیلی حکومت کے پاس ہے اور اس مقدس شہر میں مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے اور یہودیوں کی آبادی کو بڑھانے پر مکمل پلاننگ کے تحت کام کیا جارہا ہے۔ آئیے اس موقع پر اس مقدس سرزمین کے متعلق تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل کریں۔
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی حدود اِس وقت اردن، سوریا، لبنان اور مصر سے ملتی ہیں۔ یہ در اصل پورا علاقہ( سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن) تاریخی کتابوں میں ملک شام سے موسوم ہے۔ فلسطین کا سب سے مشہور شہر القدس ہے، جسے بیت المقدس بھی کہتے ہیں اور اسرائیل اسے یروشلم (Jerusalem) کہتا ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں بڑے آسمانی مذہبوں کے لیے یہ مقدس شہر ہے۔ اسی مبارک شہر ’’القدس‘‘ میں قبلہ اوّل واقع ہے جس کی طرف نبی اکرماور صحابہ کرامؓ نے تقریباً 16 یا 18 ماہ نمازیں ادا فرمائی ہیں۔ اس قبلۂ اول کا قیام مسجد حرام کے 40 سال بعد ہوا۔ مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کے بعد سب سے بابرکت وفضیلت کی جگہ مسجد اقصیٰ ہے، جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے۔ اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپکو مکہ مکرمہ سے لے جایا گیا اوروہاں آپنے تمام انبیاء ؑ کی امامت فرماکر نماز پڑھائی، پھر اسی سرزمین سے آپ کو آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا جہاں آپ کی اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوئی۔ اس سفر میں آپ نے جنت وجہنم کے مختلف مناظر دیکھے اور7 آسمانوں پر آپکی مختلف انبیائے کرام ؑ سے ملاقات ہوئی۔ یہ مکمل واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کے اس سفر کو’’ اسراء‘‘  اور مسجد اقصیٰ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے اس سفر کو’’ معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
  16ہجری (637ء ) میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس مبارک شہر (بیت المقدس) کو فتح کرکے وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں عالیشان مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخراء کی تعمیر کی گئی۔ بیت المقدس کی فتحیابی کے 462سال بعد 1099ء  میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر عیسائیوں نے اس شہر پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا تھا مگر صرف 88 سال بعد 1187ء میں حضرت صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے القدس شہر کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑایا۔ غرضیکہ یہ مبارک شہر (بیت المقدس) صرف100 سال کے علاوہ 637ء سے 1917ء تک مسلمانوں کے ہی قبضہ میں رہا ہے۔ اور اس شہر میں رہنے والوں کی بڑی تعداد مذہب اسلام کو ہی ماننے والی رہی ہے لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی 1917ء میں اس شہر اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا اورپھر آہستہ آہستہ دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو آباد کرکے مسلمانوں کی اس سرزمین (فلسطین) پر 1948ء میں ایک ایسے ناجائز ملک کے قیام کا اعلان کردیا جو آج تک پورے خطہ کے امن وسکون کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی طاقتوں نے فلسطین کو یہودیوں کو دینے یا وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کے تعلق سے دباؤ ڈالا تو اْن کا جواب تاریخ کا حصہ بن گیا: میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔ 1948ء سے 1967ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک ’’اردن‘‘ کا ہی ایک حصہ رہا۔ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی ممالک کی بھرپور مدد سے فلسطین کے دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ اس طرح 1967ء میں وہ مقدس شہر بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا، جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔ 
 

شیئر: