Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملائیشیا کی ترقی ، ترکی کے قدرتی حسن نے مسحور کیا، مبین سلطانہ

 شادی کے موقع پرمانجھے اور مہندی کی رسمیں دھوم دھام سے منائیں،ہوا کے دوش پرگفتگو
زینت شکیل ۔ جدہ
مالک حقیقی کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا فرمایا اور ایمان جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا ۔ایمان ایسی نعمت ہے جو صرف مسلمانوں کے لئے ہی مختص ہے اور قیامت تو ہے ہی ایمان والوں کے لئے ۔علم وحکمت کامیابی کی کنجی ہے ۔ایک طاقتور مومن، کمزور مومن سے افضل ہے۔ صحت مند اذہان، صحت مند معاشرے کی تکمیل کرتے ہیں، اسی لئے عوام کی روحانی اور مادی نشو و نما کے لئے 
بے شمار تراکیب بروئے کار لائی جاتی ہیں ۔ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ علم کے ساتھ عمل لازم وملزوم ہے۔ اسی سلسلے میں” ہوا کے دوش پر“ ہماری گفتگو محترم شریف الدین اور انکی اہلیہ محترمہ مبین سلطانہ سے ہوئی۔ اس ”ملاقات“ کا احوال قارئین کی نذر ہے:
ہر انسان نیکی اور سچائی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتاہے ۔معاشرے میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہر فرد اپنی فطری خوبیوں اورصلاحیتوںکو بروئے کار لائے تو ریاست ترقی کا سفر بہترین طور پرطے کر سکتی ہے ۔معیاری تعلیم وہ ہے جو جسم اور روح کی تربیت پر مشتمل ہو۔ تعلیمی ادارے افراد کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ مختلف اقسام کی ورزشیں اور کھیل ،عقل افعال کے لئے سائنس کا درجہ رکھتی ہیں۔
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جناب شریف الدین سمجھتے ہیں کہ کھیل سے نہ صرف انسان چاق وچوبند رہتا ہے بلکہ کھیل کی نت نئی تکنیک سے ذہانت کو بھی فروغ ملتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک اسپورٹس مین جتنا جسمانی طور پر فٹ ہوتا ہے، اسی قدر اپنی ذہانت استعمال کرتے ہوئے وہ بروقت درست فیصلہ کر کے اکثر کھیل کا نتیجہ اپنے حق میں کرلیتا ہے ۔ شریف الدین اسکول کے زمانے سے ہی باکسر محمد علی کلے کے مداحوں میں شامل رہے یہی وجہ ہوئی کہ انہوں نے اسٹیٹ لیول تک باکسنگ میں کئی ایواڈز حاصل کئے چونکہ اسپورٹس کوٹے کے تحت اسکول کی تعلیم حاصل کی، اس لئے کئی کھیلوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ کرکٹ، والی بال، لان ٹینس ،ٹیبل ٹینس وغیرہ میں اب تک بےشمار ایوارڈز، شیلڈز ،سرٹیفکیٹس اور مختلف پوزیشنز پر کئی کپ جیتنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
محترمہ مبین سلطانہ کا کہنا ہے کہ آجکل ہم لوگوں نے کھیل کے میدانوں سے اپنے بچوں کو دور رکھا ہوا ہے۔ جم، فٹنس کلب اور انڈور گیمز کے مراکز آج کے دور میں اسٹیٹس سمبل بن گئے ہیں۔پہلے زمانے میں اسکول میں میدان ہوتے تھے ،جہاں بچے روزانہ کھیل کود میں بھر پور مقابلہ کرتے تھے اور اب اس کا موقع ہر اسکول میں نہیں ملتا ۔ اب تو ایسا سمجھ لیا گیا ہے کہ ایک طالب علم اسکول میں آیا ہے تو اسے صرف پڑھنا لکھنا چاہئے اور کھیل کود سے دور رہنا اس کے فرائض میں شامل ہے ۔ اگر یہ بات زبان سے نہ بھی کہیں تو انکا نظام ایسا ہی ہو کر رہ گیا ہے کہ اکثر اسکولوں میں کھیل کا میدان ضروری نہیں سمجھا جاتا اس لئے اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔
شریف الدین نے اپنے اسکول کے وقت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اُس دور میں بچے اپنا ہوم ورک اس لئے جلدی مکمل کرلیا کرتے تھے تاکہ انہیں کھیلنے کا موقع زیادہ مل سکے۔ اب تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ کھیل ہو یا پڑھائی ،اس کے لئے کمپیوٹر لازمی ہے۔ 
  محترم شریف الدین آئی ٹی انجینیئر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسپورٹس مین میں کھیل کے باعث اسپورٹس مین اسپرٹ آجاتی ہے اور اس سے انسان بہت بروقت اوردرست فیصلے کرنے کی صلا حیت حاصل کرلیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان پہلے گھروں میں زیادہ بولی جاتی تھی، اس کے تلفظ کا خیال رکھا جاتا تھا، اب اردو پر توجہ اتنی نہیں دی جا رتی ۔بات چیت میں تو فی الحال اردو کا کافی استعمال ہو رہا ہے لیکن لکھنا نہیں سکھا یاجا رہا اور یہی بات توجہ کے قابل ہے کہ پہلے دور میں لوگ اس زبان کو محنت سے سیکھتے تھے۔ اب اس پر توجہ نہیں دی جا رہی ۔ ان حالات میں خیال آتا ہے کہ آئندہ اس کا مستقبل کیا ہو گا جبکہ اکثر فلموں کے گانے اسی زبان کی چاشنی کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں۔
  حیدرآباد سے کچھ فاصلے پر موجود سنگاریڈی میں رہنے والی محترمہ مبین سلطانہ کا کہنا ہے کہ وہ ابھی کالج کی گرمیوں کی چھٹیاں گزارہی تھیں کہ انکی پھوپھی نے انکے رشتے کی بات کی اور پھر چند دنوں میں دونوں طرف سے شادی کی تیاریوں کاآغاز ہوگیا ۔ حیدرآبادی رسمیں پرکشش لگتی ہیں اور دور دور تک مشہور ہیں۔ مانجھے اور مہندی کی رسمیں دھوم دپام سے منائیں۔ خوب محنت سے سب کے گانے بھی گائے اور مقابلہ بھی کیا پھر اتنا تھک گئے کہ شادی اور ولیمے میں کچھ زیادہ رسمیں نہیں ہوپائیں۔ دونوں جگہوں کے کھانے میں رہن سہن میں کیا فرق ملا اس بارے میں انکا کہنا تھا کہ دونوں خاندانوںمیں ایک جیسا ہی رسم ورواج ہے اور کھانے بھی ملتے جلتے ہی بنتے ہیں ۔سبزیاں اور مٹن مختلف طریقوں سے تیار کئے جاتے ہیں۔
محترمہ مبین سلطانہ کی ایک بہن نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے جبکہ بھائی ایل ایل بی ہیں۔ سب سے جھوٹی بہن انٹر کی طالبہ ہیں۔ انکے والد مرزا صاحب علی بیگ اور والدہ یاسمین سلطانہ نے اپنے بچوں کی تربیت پر بھرپور توجہ دی۔ مبین صاحبہ نے اپنے والد سے یہ سیکھا کہ بات جتنی بھی الجھ جائے ،ڈیڈلاک نہیں ہونا چاہئے ،معاف کرنے کا ظرف رکھنا چاہئے۔
والدہ کی خواہش تھی کہ میں اچھا کھانا بنانا سیکھ جاﺅں۔ انہیں مایوسی نہیں ہوئی کیونکہ میں بہترین کوکنگ کرتی ہوں۔ مبین صاحبہ نے بہت خوشی سے یہ بات بتائی کہ انکے سسر صاحب پہلے فوج میں تھے لیکن جب برصغیر پاک و ہند الگ الگ ہوئے تو انہوں نے فوج سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنے علاقے کی مسجد میں امامت کرنے لگے ۔انکی ساس بہترین خوبیوں کی مالک خاتون ہونے کی وجہ سے خاندان بھر میں مقبول ہیں ۔
اردو مشاعرے کی دھوم پوری دنیا میں ہے۔ دراصل شاعر محبت، دوستی اور تہذیبی روایات کا علمبردار ہوتا ہے۔ شاعر اور شعری ذوق رکھنے والوں میں اس تعلق سے ایسے جذبات اور انسان دوستی جنم لیتی ہے جس سے آدمی کو زندگی کا حقیقی شعور حاصل ہوتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے شعراءنے ہمارے عہد میں زندگی کے ہر ہر منظر،ہماری امنگوں اور آرزوﺅں کے بے حساب رنگوں کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ سب رنگ پائدار ہیں۔ 
شعرائے کرام معاشرے کے حساس افراد ہوتے ہیں اور انہیں طرز معاشرت کی تبدیلی فوراً متوجہ کرتی ہے ۔رنجور کی غزلوں میں وہی روایتی رنگ ہے۔ انکی نظمیں جدید تقاضوں اور انقلابات کی ترجمان ہیں ۔ فن کی راہ سے جو رنگینی طبع پیدا ہوئی تھی، اس کی ترجمانی غزلوں میں ملتی ہے۔ اس میں عصری میلانات اور عوامی رجحانات کی ترجمانی بھی مل جاتی ہے 
ہیں جو میرے برادر امجد
جن کی شفقت بھی مجھ پہ ہے بے حد 
ان سے اک روزعرض میں نے کی
کہ کریں عفو میری گستاخی
تو کروں عرض آپ سے اک بات
جس سے تشویش ہے مجھے دن رات 
بولے وہ بات کیا ہے شوق سے کہہ
 اس کے کہنے سے تونہ قاصر رہ
تب یہ میں نے کہا کہ حضرت من
 میرے دل کو اسی کی ہے الجھن 
یہ روش کیوں جناب کو بھائی
ترک کر دی جو وضع آبائی 
نہ وہ پاجامہ ہے نہ وہ اچکن 
بلکہ ہے کوٹ پینٹ زیبِ بدن
ہے بجائے عمامہ سر پر ٹوپ
ہوگئے آپ مولوی سے پوپ
 گرچہ رکھتے ہیں چہرے پر داڑھی
پر لبیں ہیں ضرور حد سے بڑھی
آپ نے جو یہ ترک وضع کیا
 خوبیاں اس میں کہئے ہیں کیا کیا 
اور نقصان کی جو پو چھیں آپ
 تو نہیں اس کا کچھ شمار و حساب 
پھر بھی دوچار عرض کرتا ہوں
عرض کرنے میں گرچہ ڈرتا ہوں 
 دیکھتے ہیں جو صورت ظاہر
لوگ کہتے ہیں آپ کوکافر
 آپ کی شکل دیکھ کر حضرت
 ہوتی ہے ان کو وحشت و نفرت
 خیر اِن کی اگر نہیں پروا 
سو چئے یہ تو اپنے دل میں ذرا
 جبکہ یوں شکل ظاہری بدلی
 حالت باطنی بھی بدلے گی
 پر وہ حاکم ہیں آپ ہیں محکوم
وہ ملیں آپ سے یہ ہے معلوم
الغرض اپنی قوم بھی چھوٹی
صاحبوں سے امید بھی ٹوٹی
مبین سلطانہ صاحبہ کا کہنا ہے کہ ہر کھیل کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جو کھلاڑیوں کو زندگی کو منظم کرنا سکھاتے ہیں۔ متوازن زندگی گزارنا اسی وقت آسان ہوگا جب معاشرے کا ہر فرد لائق بھی ہو گااور اس کی صحت بھی اچھی ہو گی۔نفسیات کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ایک اچھے جسم میں ہی اچھا دماغ پرورش پا سکتا ہے اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر تم اپنے کھیلوں کے میدان آباد کرو گے توبھرے ہوئے اسپتال خالی ہوتے جا ئیں گے۔
مبین سلطانہ کا کہنا ہے کہ انکے شوہر اپنے والدین کی بہت قدر کرتے ہیں۔ اپنے اباجان کو مسجد میں امامت کرتے دیکھتے ہیں تو بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کھیل کے مقابلے کے حامی ہیں۔ مبین صاحبہ کے بارے میں انکے شوہر کہتے ہیں کہ میری اہلیہ بہت سلجھی طبیعت کی حامل ہیں۔ بیٹی منزہ کی پرورش میںبھرپور توجہ دیتی ہیں۔ دینی رجحان رکھتی ہیں ۔مہمانوں کی خوشدلی سے توا ضع کرتی ہیں۔ انکی سہیلیاں انکے پکائے ہوئے کھانوں کی تعریف کرتی ہیں۔ سیا حت کی شوقین ہیں۔ کئی ممالک کی سیر کرچکی ہیں۔ملائیشیا کی ترقی نے انہیںمبہوت کیا تو ترکی کے قدرتی حسن نے مسحور کیا۔
 

شیئر: