Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیکھا تو کیوبا سے بھی جا سکتا ہے

***وسعت اللہ خان ***
پچھلے ہفتے ایک پاکستانی نوجوان سے ملاقات ہوئی جو ان دنوں ہوانا سے چھٹی پر کراچی آیا ہوا ہے اور کیوبا میں پچھلے 3 برس سے طبی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔اس سے جو گفتگو ہوئی اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اگر کوئی قوم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہے تو کوئی مشکل نہیں ، نہ ہونا چاہے تو بہانے ہزار۔
امریکی ریاست فلوریڈا سے محض نوے میل کی دوری پر کیوبا بحیرہ کیربین کا سب سے بڑا جزیرہ ہی نہیں بلکہ جنوبی امریکہ کا سب سے خود دار اور معیارِ زندگی  کے اعتبار سے تیسری دنیا کے بہترین ممالک میںشامل ہے۔ 
نام نہاد مہذب دنیا کو کیوبا کے بارے میں چودہ سو بانوے میں علم ہوا جب کرسٹوفر کولمبس یہاں اترا۔تب سے اگلے ساڑھے چار سو برس تک کیوبا ہسپانوی نوآبادی رہا اور ہسپانویوں نے اسے غلاموں کی منڈی اور گنے اور تمباکو کے بڑے سے کھیت کی شکل میں برقرار رکھا۔1898ء  میں کیوبا، اسپین سے امریکہ نے چھین لیا اور4 برس بعد اسے کٹھ پتلی مقامی حکمرانوں کی شکل میں ایک ہاتھ سے آزادی کا سراب  تھمایا اور دوسرے ہاتھ سے جزیرے کے ایک کونے پر بحری اڈہ قائم کرنے کے لئے گوانٹانامو کا لگ بھگ 45 مربع میل کا  ٹکڑا پٹے پر حاصل کر لیا۔اس قطعہِ اراضی کا کرایہ4085 ڈالر سالانہ طے پایا۔لیکن 1959ء کے بعد سے کیوبا نے گوانٹانامو پر امریکی قبضہ کو ناجائز قرار دیتے ہوئے مارے خودداری کے کرائے کا سالانہ چیک وصولنے سے بھی انکار کردیا۔
جب1959ء میں فیڈل کاسترو کے چھاپہ ماروں نے بدعنوان صدر فلجینکیو بتستا  کا تختہ الٹا اور کیوبائی معیشت کو آکٹوپس کی طرح جکڑنے والی غیرملکی کمپنیوں اور اثاثوں کو قومیا لیا تو امریکہ نے اس دو ٹکے کے  ملک کو اوقات یاد دلانے کا فیصلہ کیا۔1961ء میں سی آئی اے کی مدد سے مفرور کیوبائیوں کی ایک فوج بنا کر کیوبا کے ساحل پر اتاری گئی مگر کاسترو کے دستوں نے ترنت صفایا کردیا۔امریکہ نے اثاثوں کی واگذاری تک کیوبا کی اقتصادی ناکہ بندی کردی۔یہ ناکہ بندی اتنی سخت تھی کہ اگر کسی ملک یا کمپنی  کا بحری جہاز کیوبا میں لنگر انداز ہوگا تو اس کا کسی بھی امریکی بندرگاہ میں داخلہ حرام ہوگا۔
کاسترو قوم پرست ضرور تھا مگر جس روز امریکہ نے ناکہ بندی کی وہ کمیونسٹ بھی ہوگیا۔سوویت یونین نے چینی کی پوری پیداوار خریدنے اور اس کے عوض تیل ، غلہ اور بھاری مشینری دینے کا اعلان کیا۔جب1962ء میں جزیرے پر سوویت ایٹمی میزائلوںکی موجودگی  کا انکشاف ہوا تو امریکہ اور سوویت یونین میں ایسی ٹھن گئی کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی۔کینیڈی انتظامیہ نے کیوبا کی فوجی ناکہ بندی کردی۔ امریکی پچھواڑے میں سوویت پہنچ کا  مظاہرہ دکھانے اور اس کی عالمی پبلسٹی کا آنند لینے  کے بعد سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل خروشچیف نے یہ میزائیل ہٹانے کا اعلان کردیا۔
جیسے جیسے امریکی رویہ سخت ہوتا گیا کیوبا بھی لوہے کا چنا ہوتا گیا۔سی آئی اے نے فیدل کاسترو کو ہلاک کرنے کی خفیہ کوششیں 70 کے عشرے تک جاری رکھیں۔اس عرصے میں کیوبا نے نہ صرف جنوبی امریکہ میں واشنگٹن مخالف بائیں بازو کی نظریاتی و مسلح قوتوں کی ہر طرح سے مدد کی بلکہ افریقہ میں بھی سرد جنگ کے دوران ایتھوپیا سے انگولا تک امریکی مفادات کے خلاف ہراول دستے  کا کردار نبھایا۔
افریقہ میں کاسترو کو سب سے بڑا مداح نیلسن منڈیلا کی شکل میں مل گیا۔جب پورا مغرب جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی علمبردار گوری اقلیتی حکومت کی پشت پر تھا کیوبا افریقن نیشنل کانگریس کی مدد کر رہا تھا۔منڈیلا نے 27 برس کی قید سے رہائی کے بعد جن دو ممالک کا سب سے پہلے دورہ کیا وہ لیبیا اور کیوبا تھا۔منڈیلا نے دونوں سے کہا ’’ اگر تم نہ ہوتے تو ہمیں جلد آزادی نہ ملتی ’’۔
کہنے کو کیوبا کی فی کس آمدنی آج بھی سو ڈالر ماہانہ ہے۔لیکن تمام آبادی کو صحت ، صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولتیں میسر ہیں۔چنانچہ اوسط عمر78 برس ہے جوریاستہائے متحدہ امریکہ سے بھی زیادہ ہے۔کیوبا کے30 ہزار ڈاکٹر اس وقت دنیا کے100 سے زائد ممالک میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔جنوبی امریکہ کے متعدد ممالک میں کیوبا کے ماہرِینِ امراض چشم مفت کیمپ لگا کے پچھلے10 برس میں لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ مریضوں کو بینائی لوٹا چکے ہیں۔مغربی افریقہ کے چودہ ممالک میں کیوبا ملیریا کے خلاف جہاد میں مصروف ہے۔سن دو ہزار آٹھ کے زلزلے میں پاکستان کی مدد کے لئے کیوبا نے جان بچانے کے آلات سے مسلح 300 ڈاکٹر بھیجے۔ گزشتہ 18برس میں کیوبا تیسری دنیا کے بیس ہزار طلبا  کو اپنے طبی اداروں میں پریوینٹو طریقہِ علاج کی تربیت دے چکا ہے۔کیوبا تیسری دنیا میں سستی اور موثر دواؤں کی ریسرچ پر سب سے زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے اور اس بابت ملٹی نیشنل ڈرگ کمپنیوں کے چنگل سے آزاد ہے۔
تعلیم پر قومی بجٹ کا 13فیصد خرچ ہوتا ہے۔پرائمری تا یونیورسٹی مفت اور 6 سال سے16 برس کی عمر تک لازمی ہے لہذا شرح خواندگی سو فیصد ہے۔سوشل سیکورٹی کے نظام کے تحت ہر خاندان کی قومی انشورنس ، ہر کارکن کی انفرادی انشورنس اور ہر معذور کیلئے ڈس ایبلٹی الاؤنس میسر ہے۔تنخواہیں کم ہیں مگر کام سے کوئی محروم نہیں۔20 فیصد افرادی قوت چھوٹا ذاتی کاروبار کرتی ہے۔
  جب باراک اوباما نے گزشتہ برس ہوانا کے پیپلز پیلس میں کھڑے ہو کر کیوبا میں انسانی حقوق کے احترام اور انفرادی آزادیوں کی بحالی کی بات کی تو صدر فیڈرل کاسترو نے امریکہ کا نام لئے بغیر چوٹ کی کہ جو ملک اپنے تمام شہریوں کو صحت ، تعلیم ، روزگار اور سماجی تحفظ فراہم نہ کر سکے وہ کیسی مثالی جمہوریت  ہے۔ انسانی حقوق اور کیا ہوتے ہیں ؟ جمہوریت میں سب شہریوں کی شراکت ہونی چاہئے نفع و نقصان سمیت۔
دہشت گردی کو فروغ دینے والے ممالک کی امریکی فہرست سے کیوبا 2 برس قبل خارج ہو چکا ہے مگر کیوبا کے خلاف  امریکی اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ امریکی کانگریس کو کرنا ہے اور کانگریس میں فی الحال ریپبلیکنز کی اکثریت ہے۔دیکھتے ہیں کہ تعلقات بحالی کا جو عمل اوبامہ دور میں شروع ہوا موجودہ صدر اپنی مدتِ صدارت ختم ہونے سے پہلے اسے کس سمت میں لے جانا پسند کریں گے۔

شیئر: