Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”میں اپنے نفس کی تہذیب میں لگا ہوا ہوں “

 قدسیہ ندیم لالی کے کاشانے پر ”ہم آواز “ الوداعیہ 
آدم خان۔الخبر
دنیا کے ہر خطے میںجہاں اردو بولی ، لکھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں اردو زبان کی آبیاری کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔کسی نہ کسی صورت میں چھوٹے بڑے پیمانے پر اردو زبان پر کام کرنے والے بڑے ذوق و شوق سے آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ اردوکی گود کو ہرا بھرا رکھنے میں جہاں فارسی اور دوسری زبانوں نے کارِ اہم ادا کیا ہے، وہیں اس پربھر پور دستِ شفقت عربی زبان کا شروع سے ہی رہا ہے۔ خلیج عرب کو مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی ہونے کی وجہ سے پاک و ہند نے بھر پور افرادی قوت سے نوازا ہے جس میں شعراءو ادباءکی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ 
اسلامی دنیا کے لئے محترم اور جان و دل سے عزیز ملک سعودی عرب کے تقریباً تمام شہروں میں ایشیائی باشندے بسلسلہ روزگار موجود ہیں مگر پاک وہند کی طرح یہاں بھی چند ایک شہر ادبی مراکز کے طور پر جانے جاتے ہیں جن میں منطقہ شرقیہ کا شہر الخبر اپنی ادبی حیثیت اور یہاں پر موجود ادباءو شعراءکی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اسی شہر الخبر کی متحرک اور فعال ادبی ، ثقافتی و سماجی تنظیم " ہم آواز " ہے جس کی روحِ رواں محترمہ قدسیہ ندیم لالی ہیں۔ انہوںنے معروف شاعر اقبال احمد قمر ،جو شہردمام سے اپنے روزگار کی 40 سالہ خدمات مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن پاکستان لوٹ رہے ہیں ،ان کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا بڑے تزک واحتشام سے اپنے نعمت کدے پر اہتمام کیا جس میں جدہ، الاحساء، الجبیل، دمام ، الخبر اور بحرین کے شعرائے کرام نے بھرپور شرکت کی۔
مزید پڑھئے: دست طلب پہ دست عطا رکھ دیاگیا
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ یہ سعادت قاری عبد اللطیف کو حاصل ہوئی ۔بعد ازاںمعروف شاعر و ادیب پروفیسر مشکور حسین یاد کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی گئی جو پچھلے دونوں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
سید طارق نے خوش الحانی سے نعت طیبہ پیش کی ۔محترمہ قدسیہ ندیم لالی نے پر تپاک استقبالیہ دیا اور آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سپاس نامہ پیش کیا ۔ نظامت کے فرائض شیراز مہدی ضیاءنے انتہائی نستعلیق اور منجھے ہوئے انداز میں اداکئے ۔ منصبِ صدارت نعیم حامد علی الحامدنے سنبھالی ۔ مہمانِ خصوصی اقبال احمد قمر تھے جبکہ مہمانانِ اعزاز ڈاکٹر سجاد سید اور سعید اشعر شہہ نشین ہوئے۔
سعید اشعر اور اکرام زاہد نے اقبال احمد قمر کے فن و اسلوب اور ان کے شخصی تشخص پرمبنی بھرپورمقالے پیش کئے۔ صدرِ محفل نعیم حامدعلی الحامد نے اقبال قمر کے 40 سالہ قیام اور شاعری پر بھر پور تبصرہ کیا۔ ہم آواز کی جانب سے قدسیہ ندیم لالی نے اقبال احمد قمر کی شال پوشی کی اور طویل عرصے ادبی خدمات کے اعتراف پر اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا۔ ناظمِ مشاعرہ نے بھر پور نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے شعراءکو دعوتِ کلام دی۔تقریب میں آنے والے شعراءکا منتخب کلام قارئین کی نذر:
٭٭اعجاز الحق:
مرے دل میں جو چھپی وہ تصویر بن گئی ہو
میں رانجھا بن گیا ہوں تم ہیر بن گئی ہو
٭٭معراج الدین:
کسی کا دل کو مرے کوئی انتظار نہیں 
تسلی دینے کو اب کوئی غمگسار نہیں 
گلوں نے پیرہن اپنا ابھی نہیں بدلا
ابھی چمن کی ہوا اتنی سازگار نہیں
٭٭رامز مرزا:
اب جو آئی ہو تو پھر ٹھہر کے جانا جاناں 
اور اب کی بار مرا دل نہ دکھانا جاناں 
٭٭ضیاءالرحمٰن صدیقی وقار:
ہرمنظرِ جہاں پہ نظر آ رہے ہو تم
منظورِ کائنات ہوئے جا رہے ہو تم
دنیا فقط سراب ہے سمجھے کچھ اے وقار
کتنا حسیں فریبِ نظر کھا رہے ہو تم
٭٭ثاقب جونپوری:
یہ کون روک رہالغزشوں کے ہونے سے
یہ کس کا دوڑ رہا ہے مگر لہو مجھ میں 
 تمہارادور ہے یہ مختلف ذراہم سے
یہ التجا ہے ہماری بھی آبرو رکھنا
٭٭داو¿د اسلوبی:
کورے کاغذ پہ قلم جب بھی سفر کرتا ہے
ساری دنیا پہ عیاں میرا ہنر کرتا ہے 
کبھی تنہا مجھے ہونے نہیں دیتا ہے داو¿د
بن کے سایا وہ مرے ساتھ سفر کرتا ہے
٭٭اقبال اسلم: 
دھیان میں سمت بھی ہو منزل بھی
صرف چلنا سفر نہیں ہوتا
حسن اور عشق کی حکایت میں 
منتظِر، منتظر نہیں ہوتا
٭٭اکرم زاہد:
پس دیوارجان کچھ تو ہے
دل کے اندر جہان کچھ تو ہے 
تلخی¿ زیست میں تری یادیں
دھوپ میں سائبان کچھ تو ہے 
٭٭اقبال طارق: 
تمام رات ہی آنکھوں میں کٹ گئی طارق
میں اپنی ماں کی دعا کاغذوں پہ لکھتا رہا
٭٭نکہت مرزاحنا:
شدتِ احساس وہ بھی پتھروں کے شہر میں 
آئینہ سے لوگ ہیں ہم ، جائیں تو جائیں کہاں
٭٭٭
لو نوکِ خنجر کو آج تم بھی زبان کر لو
یہ فیصلے کی گھڑی رہے گی
نہ اپنے ہاتھوں میں ڈھال رکھنا
٭٭سید شیراز ضیاءمہدی:
عجب ہے پر یہی ہر دور کے صیاد کرتے ہیں 
جسے آزاد کرتے ہیں ،اسے برباد کرتے ہیں 
عمارت کی مرمت سے ہوا ہے کیا بھلا حاصل
چلو اس بار ہم تبدیل یہ بنیاد کرتے ہیں
 ٭٭قدسیہ ندیم لالی:
کبھی نہ اس پر غرور کرنا
مگر جو پُل ہو ، عبور کرنا
٭٭ریاض شاہد:
گر پرندے ہجرتوں پر ہو گئے مجبور تو
دیکھ لینا بستیوں کے حاشیے رہ جائیں گے
٭٭٭
میں نے چھپا لئے ہیں سبھی زخم ہنسی میں 
گر قہقہہ لگاو¿ں طبیعت نہ پوچھنا
٭٭ڈاکٹر سجاد سید:
وقت بدلا تو دکانوں پہ سجے تاج و کلاہ
پھر ہوا یوں کہ غلاموں نے خریداری کی 
٭٭٭
میں اس سے جنگ بھی آخرکروں تو کیسے کروں
کہ میرا تیر بھی اس کی کماں میں رہتا ہے 
٭٭سعید اشعر:
اپنے لشکر سے لڑ پڑوں گا میں 
میرا دشمن مری پناہ میں ہے 
٭٭٭
تمہارے لہجے کی سرد مہری تو کم نہ ہوگی
ٹھٹھرگئی ہے مری سماعت، مجھے اجازت
٭٭اقبال احمد قمر:
بتاو¿ں کیا تمہیں کس بوجھ سے دبا ہوا ہوں
میں اپنے نفس کی تہذیب میں لگا ہوا ہوں
ذرا سا صبر، کھلیں گے مرے پرِپرواز
نیا نیا قفسِ عشق سے رہا ہوا ہوں 
٭٭سید نعیم حامد علی الحامد:
میں نے جس دن سے ترا نقشِ کف پا دیکھا
پھر ترے سر کی قسم منہ نہ کسی کا دیکھا
دید پر تیری تصدق، تری قربت کے نثار
میں نے خوشبو کو چھوا پیکر نغمہ دیکھا
یوں اس پروقارالوداعی تقریب کارات گئے اختتام ہوا۔ 
 

شیئر: