Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران، داخلی اور خارجی خطرات کا سامنا

 عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
ایران میں مظاہروں کے طوفان پر ایک ہفتہ گزر جانے کے بعدلبنانی حزب اللہ کے قائد اعلیٰ حسن نصر اللہ نے خدشات کا اظہار کردیا۔ انہوں نے خطے میں ایران کی قائم کردہ دہشتگرد تنظیموں کے ذہنوںمیں ابھرنے والے خدشات ظاہر کردیئے۔ایران نے خطے کے مختلف ملکوں میں ہراول دستے کے طور پر دہشتگرد تنظیمیں قائم کررکھی ہیں۔ لبنانی حزب اللہ ان میں سے ایک ہے۔ حسن نصر اللہ نے ایران میں ہونے والے مظاہروں کا ذمہ دار امریکہ اور سعودی عرب کو ٹھہرا دیا۔ولایت فقیہ کے خلاف تحریک بیداری چلانے والے ایرانیوں کا پیغام عرب ملیشیاﺅں کے قائدین تک پہنچ گیا۔ ایرانی عوام کے حساب پر پلنے والی دیگر تنظیموں کے رہنماﺅں کو بھی تحریک بیداری چلانے والے ایرانیوں کا پیغام موصول ہوگیا ہے۔ اُنکے اِن پیروں کارو کو بھی پیغام مل گیا ہوگا جو ہر روز ایران کے مرشد اعلیٰ کے نظام کی نیابت کرتے ہوئے شام میں ہلاک ہونے والوں کو ہر روز دفنا رہے ہیں۔
ایران میں ہونے والے مظاہرے خالص ایرانی ہیں۔ نہ یہ سعودی ہیں، نہ امریکی۔ کسی بھی خارجی طاقت کا ان مظاہروں میں کوئی ہاتھ نہیں۔ اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دنیا بھر کے ممالک ایرانی مظاہرین کی مدد اور انکی حمایت کیلئے مستقبل میں کوئی اقدام نہیں کرینگے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ اگر ایرانی نظام خطے کے ممالک کو خطرات لاحق کرتا رہا ، انکے دشمنوں کو بجٹ فراہم کرتا رہااور انکے شہروں پر حملوں کیلئے میزائل مہیا کرتا رہا تو وہ ایرانی نظام کے خلاف ضرور کھڑے ہونگے۔ ایران اب ماضی والا مضبوط قلعہ نہیں رہا بلکہ غیض و غضب کا اظہار کرنے والے ایرانیوں کی مدد کے خواہشمندوں کیلئے ایران کی سرزمین کے دروازے چوپٹ کھل گئے ہیں۔
ایران میں جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ تحریک بیداری کے مظاہرے ایران کے طول و عرض میں واقع 50 شہروں تک پھیل چکے ہیں۔ ہر طبقے اور گروہ کے ایرانی مظاہروں میں شامل نظرآرہے ہیں۔ ان میں فارسی بھی ہیں، آذربائیجانی بھی ہیں ،کرد بھی ہیں اور بلوچ بھی۔ عرب بھی ہیں ، شیعہ اور سنی بھی ۔ حد تو یہ ہے کہ خود قم کے مذہبی پیشوابھی مظاہرین کا حصہ بن گئے ہیں۔ مظاہروں میں مذکورہ طبقوں اور گروہوں کی شرکت ظاہر کررہی ہے کہ ایرانی نظام کی عوامی مقبولیت ختم ہوگئی ہے۔ مظاہروں سے جو بات سامنے آئی ہے یہ ان میں سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
ایرانی حکمرانوں کے خلاف ایرانی عوام کی بیداری نے حسن نصر اللہ ،عراق ، لبنان، شام اور یمن میں شیعہ ملیشیاﺅں کے قائدین ، بحرین میں انتہا پسند شیعہ اور اپوزیشن کے رہنماﺅں ، کویت، سعودی عرب ، نائیجریا اور پاکستان وغیرہ میں انتہا پسند شیعہ فرقے کے قائدین کو خوف وہراس میں مبتلا کردیا ۔ ایران کے مظاہروں سے یورپی ممالک، جنوبی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں پھیلے ہوئے خفیہ گروپ بھی لرزہ بہ اندام ہونے لگے ہیں۔ یہ مظاہرے ولایت الفقیہ نظام کے سر پر تلوار بن گئے ہیں۔ یہ نظام انتہا پسندانہ شیعی افکار کا نمائندہ ہے۔ ولایت الفقیہ نظام ہی نے سنی داعش تنظیم کو انتہا پسندانہ ریاست کے قیام کی تحریک دی تھی۔ایران میں آیت اللہ والا نظام مبلغین، ملیشیاﺅں ، خودکش عناصر ، سراغرسانوں اور خفیہ گروپوں پر مشتمل عناصرکے سہارے ریاستی نظام چلانے والا نظام ہے۔ ایران کا یہ ریاستی نظام اپنی سرگرمیوں کیلئے منی لانڈرنگ اور منشیات کی اسمگلنگ کا بھی سہارا لے رہا ہے۔ خطے پر تسلط کی خواہش کی کوئی حد نہیں ۔ ایرانی نظام ولایت الفقیہ پورے خطے کو خطرات لاحق کرتا چلا جارہا ہے۔
عالمی برادری نے جس طرح القاعدہ اور داعش سے جنگ کیلئے مشترکہ اقدام کیا تھا، دنیا کے بہت سارے ممالک ایران کو مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو خطرہ پیدا کرنے والی ریاست سمجھ رہے ہیں۔ ایران میں مظاہرے اہم تبدیلی ہیں۔اس تبدیلی نے ولایت الفقیہ نظام کو کمزور کردیا ہے۔ اب وہ اندرون ملک سے ایرانیوں اور بیرون ملک سے علاقائی و بین الاقوامی طاقتوں کے حصار میں آچکا ہے۔ داخلی اور خارجی فریق ایرانی نظام حکومت کو تبدیل ہونے یا حکومت سے نکلنے پر مجبور کرینگے۔ ایرانی حکمرانوں کو سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ وہ بیرون ملک دہشتگردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کریں کیونکہ یہ نیٹ ورک عالمی استحکام کو خطرات لاحق کررہا ہے۔ ایرانی عوام کے خزانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ عراقی حزب اللہ، لبنانی حزب اللہ ، یمن میں انصار اللہ، افغانستان میں الفاطمیون، عراق میں النجبائ، العصائب الحق، بحرین میں اسلامی محاذ آزادی، سعودی عرب میں حزب اللہ الحجاز، نائیجریا میں جماعت الزکزاکی اور پاکستان وغیرہ میں سپاہ محمد وغیرہ کی شکل میں دہشتگرد تنظیموں کا زبردست جال پھیلا ہوا ہے۔ تہران میں آیت اللہ کا نظام پاسداران انقلاب کے ذریعے ان سب کو متحرک کئے ہوئے ہے۔2017 ءکی آخری جمعرات سے ہونے والے مظاہروں نے ایران کو بدل دیا ہے۔ اب ایران وہ نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے ۔ ایران اب مقامی زلزلوں کی زد میں ہے۔ یہ زلزلے امریکہ کی دھمکیوں سے زیادہ پُرخطر ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: