Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسئلہ فلسطین سے متعلق غیر متزلزل اصول

جمعرات 11 جنوری کوسعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ میں شائع ہونے والا اداریہ

  مسئلہ فلسطین عربوں اور مسلمانوں کا کلیدی مسئلہ ہے۔ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کسی بھی حالت میں اس کے پائدار اور جامع حل سے کم پر راضی ہونا ممکن نہیں۔
سعودی عرب مسئلہ فلسطین کی سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی گتھیوں کو سلجھانے میں مسلسل دلچسپی لینے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ سعودی عرب نے یہ کام ہمیشہ بطور فرض کیا ہے۔مملکت نے مسئلہ فلسطین کا ساتھ انفرادی فرض کے طور پربھی انجام دیا ہے او رتمام مسلم و عرب ممالک کے دائرے میں اجتماعی فرض کے طور پر بھی اسے سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔سعودی عرب نے اس مسئلے کی بابت کبھی کوئی سودے بازی نہیں کی اور نہ ہی اسے بنیاد بناکر کچھ کمانے کا چکر چلایا۔ سعودی عرب نے اس سلسلے میں اپنی مکمل ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ہی اپنا کردارادا کیا۔
سعودی عرب نے 1982ءکے دوران فاس عرب سربراہ کانفرنس کے موقع پر شاہ فہد امن منصوبہ اور 2002 ءمیں عرب امن فارمولہ پیش کیا۔ مملکت نے 2007ءمیں مکہ مکرمہ میں فتح اور حماس معاہدے کی سرپرستی کی۔ 2000ءمیں قاہرہ میں عرب سربراہ کانفرنس کے دوران الاقصیٰ فنڈ او رالقدس فنڈ کے قیام کی تجویز دی۔ الاقصیٰ فنڈ کیلئے 200ملین ڈالر پیش کئے جبکہ اس کا کل سرمایہ 800ملین ڈالر طے کیاگیا تھا۔ مملکت نے 200ملین ڈالر والے القدس فنڈ کی مد میں 50ملین ڈالر دیئے۔ مملکت نے فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کے حل سے بھی دلچسپی لی۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو براہ راست بھی امداد فراہم کی اور پناہ گزینوں کے امور سے دلچسپی لینے والی عالمی تنظیموں اور ایجنسیوں کے توسط سے بھی یہ کام کیا۔
سعودی عرب نے یہ سب کچھ اور بھی بہت کچھ کیا ۔امریکہ کیساتھ مضبوط تعلقات نے مملکت کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ مملکت نے القدس میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی سے متعلق امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس سے جامع اور منصفانہ حل تک رسائی میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اس سے فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی القدس کو اسکا دارالحکومت بنانے کے اصول پر حرف آئیگا۔ خادم حرمین شریفین نے فلسطینی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے انہیں ایک بار پھر یقین دلایا کہ مسئلہ فلسطین سے متعلق مملکت کی پالیسی غیر متزلزل ہے۔ مملکت اسے کل بھی اپنا پہلا مسئلہ شمار کرتی رہی ہے، آج بھی یہی موقف ہے اور آئندہ کل بھی یہی موقف رہیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: