Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشرے میں جوتے کا کردار

ہمارے معاشرے میں جوتے کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں . یہ پہننے کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے استعمال میں آتے ہیں اور ان سے بہادری کی وہ وہ داستانیں رقم کی جاتی  ہیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتتا ہے . مثال کے طور پر جوتوں کا بطور  لائسنس یافتہ ہتھیار استعمال ، یا من چلوں کو سر عام  سیدھی راہ دکھانا یا پھر اماں کے جوتے کھا کر راہ راست پر آجانے کا سہرا ان جوتوں کے سر ہی جاتا ہے . 
دسمبر دوہزارآٹھ کے بعدجوتے نے جس طرح دنیاکو اپنی طرف متوجہ کیا ہےشائد ہی اس سے قبل ایسا ہوا ہو . ایک عراقی صحافی منتظر الزیدی نے جوتے کے سیاسی استعمال کی ایک نئی مثال قائم کی  اور جوتوں سے اپنے غم و غصےکے اظہار کا طریقہ اپنا کرایک غیرمقبول امریکی صدر کے مقابلےمیں بےپناہ عالمگیر شہرت پائی۔ اس صحافی کے یکے بعد دیگرے دو جوتے  امریکہ کے صدارتی محل کے ستونوں  سے جا ٹکرائے .   صدر بش پر  اس حملے کی ویڈیودنیا بھر کے ٹی وی اسکرینزپر ہائی ریٹنگز لینے میں کامیاب ہوئی ۔اس واقعے کے بعدسابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ،آئی ایم ایف کے سربراہ سٹراس کاہن،سابق صدر پاکستان جنرل پرویزمشرف سمیت دنیا کے کئی لیڈروں پر جوتے اچھالے گئے لیکن اچھالنے اور کھانے میں بڑا فرق ہوتا ہے لہذا  سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اس حوالے سے ذرا بدقسمت ثابت ہوئے . 
جوتے انسان کے اسٹائل ، فیشن سینس اور شخصیت کے ساتھ ساتھ فلسفہ زندگی کا بھی پتہ دیتے ہیں .  جوتوں کو کرپشن کا حصہ بھی ہونا چاہیے . اب بھارتی ریاست تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے لتا کو ہی دیکھ لیں۔ 1997 میں پولیس نےغیرقانونی طور پردولت جمع کرنے کے الزام میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا  توپولیس کو نہایت قیمتی 10ہزار ساڑھیاں اور750 جوڑی مہنگے ترین جوتے ملے ۔  اس سب کے باوجود بھی وہ فلپائن کی سابق خاتون اول ایملڈمارکوس کو شکست نہ دے سکیں اور ایملڈمارکوس نے  دنیا کی سب سے بڑی شوزکولیکٹرہونے کی وجہ سےگینز بک آف ورلڈریکارڈمیں جگہ  بنالی . ایملڈ کو یہ اعزاز 3400 جوڑے جوتے رکھنے کے باعث دیا گیا . اب یہ نہیں معلوم کہ وہ اتنے جوتوں کو صرف پہنتی ہیں یا ان کا اور بھی کوئی مصرف ہے ۔

شیئر: