Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نرمی سے محروم ، ہر خیر سے محروم

 اختلافی رویہ سے احتراز کیاجائے کہ ہمارا تقدس اسلام سے وابستہ ہے، مسلک و جماعت سے وابستہ نہیں
    اختلاف کے اصول و آداب کے حوالہ سے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ انسان چونکہ مختلف عوامل کا مرکب ہے اس لئے ضروری نہیں کہ وہ فوراً ہر بات مان لے اور اسکا دل مطمئن ہوجائے گرچہ وہ بات کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو۔انسان پر جب انانیت کا غلبہ ہوتاہے تو کوئی دلیل و منطق اور کوئی تدبیر کام نہیں آتی۔ یہ ایک سچائی ہے جس سے قرآن مجید اور کتب احادیث کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
    مثال کے طورپر انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوموں کو قولاً اور عملاً ہر طرح سمجھایاکہ جن بہت سے خداؤں کی تم پرستش کررہے ہو، وہ لائق پرستش نہیں ، وہ تمہارے اپنے تراشیدہ ہیں اور انھیں فہم و بصیرت بھی حاصل نہیں مگر قوموں نے انکی اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ بسااوقات انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور تھوڑی دیر کیلئے ندامت کی کیفیت بھی ان پر طار ی ہوئی مگر اسکے باوجود وہ رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائے۔ اپنے مسلک اور اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوئے بلکہ انکی عداوت اور شدید ہوگئی اور وہ انانیت سے ایسے مغلوب ہوئے کہ نبیوں کے پیش کردہ سارے دلائل بے اثر ہوگئے۔ اسی انانیت سے مغلوب ہوکر نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا، فرعون نے حضرت موسٰیؑ کو جلاوطنی کی سزادی، عزیز مصر نے حضرت یوسف ؑ کو پابند سلاسل کیا اور اہل مکہ نے نبی آخر کو ہجرتِ مدینہ پر مجبور کیا۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ محض دلائل سے مخالف فکر کے حامل کو رام نہیں کیاجاسکتا بلکہ حقیقت شناسی اور معرفتِ حق، اللہ کافضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اُس سے بہرہ ور کرتاہے لہٰذا دلائل و براہین کے ساتھ اختلاف کو رفع کرنے، نفرتوں کو مٹانے اور کدورتوں کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ کے رسول نے فرمایا:    gنرمی ملاطفت کو حسین و مزین بناتی ہے اور اس کے فقدان سے معاملات بگڑجاتے ہیں۔
     gاللہ تعالیٰ رفیق ہے، وہ نرمی کو پسند کرتاہے اور اس سے وہ نتائج برآمد کرتا ہے جو شدت پسندی اور سختی سے نہیں ہوسکتے(ترمذی، ابوداؤد)۔
    gجونرمی سے محروم ہے وہ گویا ہر خیر سے محروم ہے (مسلم و ابوداؤد)۔
    فکر و عمل کے میدان میں ہمیں حتی المقدور اختلافی راستہ کے بجائے ،اتفاقی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اہل علم کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ فروعی مسائل میں حد سے تجاوز نہ کریں، ان کی شعوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اختلافی رویہ سے احتراز کیاجائے کہ ہمارا تقدس اسلام سے وابستہ ہے، مسلک و جماعت سے وابستہ نہیں ، ہمیں اصلاً اسلام کی پیروی کرنی ہے، کسی مسلک و امام کی نہیں اور اسلام ہی ہمارا مقصد و منزل ہے ،دوسری چیزیں ضمنی اور ثانوی ہیں۔
    اسی اصول کو اپناکر ہم اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام انجام دے سکتے ہیں اور اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں غلو، نفسانیت، تعصب اور خودپسندی جیسی بُری خصلتوں سے محفوظ رکھے،آمین۔

 

شیئر: