Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگائی کا اثر

خلیل احمد نینی تال والا
ہمارے ایک دوست روزانہ آٹو رکشہ سے سفر کرتے ہیں ۔آئے دن پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی جو اضافہ ہوا تودوسرے دن جب وہ رکشہ سے دفتر پہنچے تو آٹو رکشہ ڈرائیور نے میٹر سے زیادہ کرایہ طلب کیا اور وجہ یہ بتائی کہ میں نے آج رکشہ میں پٹرول ڈلوایا ہے، اس کی قیمت زیادہ ادا کی ہے لہٰذا ہر سواری سے زیادہ پیسے لینے کا رکشہ ڈرائیور کا حق بنتا ہے ۔ 
ہمارے دوست نے اس سے حجت کی کہ تمہارا میٹر جتنا کرایہ بتائے گا میں اس سے زیادہ نہیں دونگا کیونکہ وزیرِ خزانہ نے کہا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر میں نے تم کو زیادہ کرایہ دیا تو مجھ پر اثر پڑے گا۔ اس طرح وزیرِ خزانہ کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی ، لہٰذا تم وہی پیسے لو جو تمہارا میٹر بناتا ہے ۔ 
رکشہ ڈرائیور ناراض ہو گیا۔ کہنے لگا: بابو جی! کس حکومت کی بات کرتے ہو ؟جب سے قوم نے اس حکومت کو کیا کہتے ہیں "  مینڈک  " دیا ہے، اس وقت سے ہر چیز روز بروز مہنگی ہو رہی ہے ۔ ہمارے دوست نے اس سے کہا کہ بھائی مینڈک نہیں "مینڈیٹ "دیا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ جب صدر اس کا ہے ، فوج اس کی ہے ، حکومت اس کی ہے ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہر چیز کے دام بڑھائے جا رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ عوام پر اس کا اثر نہیں ہوگا ۔
کیا عوام کوئی آسمانی مخلوق ہیں جو ڈالر کی قیمت میں اضافہ ، بجلی کے نرخ ،گیس کے دام بڑھنے اور اب پٹرول ، گیس ، ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود اس کا اثر عوام پر نہیں پڑے گا تو کیا فرشتوں پر پڑے گا!یہ سن کر ہمارے دوست اس کو منہ مانگا کرایہ دیکر جب دفتر پہنچے تو آج ان کی لیٹ لگ گئی یعنی آدھی حاضری ۔ 
ایک دن ہم اپنے رشتہ دار کے ہاں گئے تو دیکھا کہ صاحبِ خانہ کی بیگم جائے نماز پر بیٹھی زور زور سے دعا مانگ رہی تھیں کہ یا اﷲ ڈالر 100روپے کا کر دے ۔ ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ قوم پہلے ہی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے بیزاز ہے اور حکومت کو کوس رہی ہے مگر موصوفہ ہیں کہ دعا مانگ رہی ہیں کہ یااﷲ ڈالر 100روپے کا کر دے ۔ جب یہ دعا سے فارغ ہوئیں تو ہم نے پوچھا کہ خیریت تو ہے آج آپ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی دعا کیوں مانگ رہی ہیں۔ وہ بولیں بھائی صاحب !میں نے اپنے سرتاج سے چھپا کر ، رقمیں بچا بچا کر لاکر میں کچھ پیسے اکھٹے کئے ۔ ایک دن جب میں نے اخبار میں پڑھا کہ لاکرز کو حکومت اپنی تحویل میں لے رہی ہے تو میں نے اپنے سرتاج کو بتایا کہ صبح ہی صبح بینک جا کر لاکر ز سے پیسے نکالنے ہیں جو میں نے آپ کو بتائے بغیر جمع کئے تھے ، وہ پہلے تو ناراض ہوئے کہ تم مجھے ابھی تک اپنا نہیں سمجھتیں ، پھر وہ مجھے بینک لے گئے اور تمام رقم جو بنتی تھی مجھے نکال کر دے دی۔ میں روز اخبار پڑھ رہی تھی کہ ڈالر مہنگا ہو رہا ہے۔ آئے دن 4،6 روپے بڑھ رہے ہیں۔ میں نے اپنی ایک جاننے والی سے پوچھا ۔میں نے بھی میاں کو بتائے بغیر ڈالر خرید لیا ۔ اب میں روزانہ اخبار دیکھتی ہوں کہ ڈالر کتنا بڑھ رہا ہے ، کہیں کم تو نہیں ہو رہا کیونکہ اگر ڈالر نیچے آگیا اور اب اگر میرے سرتاج کو معلوم ہوا کہ میں نے ان کو بتائے بغیر ڈالر لیا ہے تو وہ پھر کتنا ناراض ہونگے لہٰذا اس دن سے میں نے پابندی سے نماز شروع کر دی ہے اور روز دعائیں مانگتی ہوں کہ اﷲ میاں ڈالر 100روپے کا کر دے اور اللہ نے اُن کی دُعا قبول کرلی ہے اور آج ڈالر 112روپے تک پہنچ گیا ہے ۔
ہم نے جب یہ سنا تو اپنا سر پیٹ لیا ۔ یا اﷲ کیا ہو گیا ہے کہ صرف اور صرف اپنے مفاد کی خاطر ہم قوم کو مہنگائی کے عذاب میں ڈال رہے ہیں ۔ ایک طرف تو حکومت ہر چیز پر ٹیکس پر ٹیکس لگانے پر تلی ہوئی ہے تو دوسری طرف ہماری قوم بھی صرف اور صرف اپنے مفادات میں لگی ہوئی ہے ۔ کسی کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اس خود غرضی کا انجام کیا ہوگا، ہماری معیشت کیسے سدھرے گی ۔
سندھ میںہرہفتے  3دن کیلئے CNGبند کر دی جاتی ہے اور کبھی کبھی 4،4 دن بھی بند کردی جاتی ہیں ۔ پنجاب میں پہلے ہی ہفتے میں 3دن CNGبند ہوتی ہے ، بجلی کا تو کوئی حال ہی نہیں ۔
بجلی کیلئے بھی حکومت کہتی ہے کہ ہمارے پاس بجلی سرپلس ہوگئی ہے مگر ابھی تک ہر جگہ لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے جبکہ ابھی سردیاں ہیں اور پورا ملک سردی کی لپیٹ میں ہے ۔گرمیاں شروع ہوں گی تو پھر پتہ چلے گا کہ بجلی سرپلس ہے ۔
حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آئے دن پٹرول ، گیس اور ڈیزل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے مہنگائی میں روز بروز اضافہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ تنخواہوں میں حکومت کوئی اضافہ نہیں کرتی بلکہ اپنے اسمبلی ممبران کیلئے جو بھی سہولتیں نہیں ہوتیں ان کو بھی حاصل کرنے کا بل پاس کرلیتی ہے اورممبروں کی تنخواہوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اورپھر وہ ٹیکس بھی نہیں دیتے۔
حکومت کا ڈالر الگ داموں میں فروخت ہو رہا ہے تو منی چینجرز کا الگ داموں میں فروخت ہو رہا ہے ۔ اس ملک کے وزیرِ خزانہ آئے دن قیمتیں بڑھانے کے بعد یہ فرماتے ہیں کہ اس سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ غالباً ان کا اشارہ آم کی طرف ہے۔ عام کی طرف نہیں۔ کیونکہ اب آم کا سیزن بھی ختم ہوچکا ہے ۔ اﷲ ہی اس عوام پر اپنا خاص کرم فرمائے،آمین ۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں