Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کھانے پینے کی ملاوٹی اشیاءاور ویلیو ایڈڈ ٹیکس

محمود ابراہیم الدوعان ۔ المدینہ
ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ سے چند روز قبل بڑے تجارتی مراکز کی طرف صارفین کی یلغار دیدنی تھی۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ 5فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ سے قبل زیادہ سے زیادہ کھانے پینے کی اشیاءاور ضرورت کی مختلف چیزیں حاصل کرلی جائیں۔ 5فیصد ٹیکس بچانے کیلئے صارفین تجارتی مراکزغیر معمولی تعداد میں پہنچ گئے تھے۔ تاجروں نے اس صورتحال کا خوب سے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے انسانی استعمال کے ناقابل غذائی اشیاءکثیر تعداد میں صارفین کے ہاتھوں بیچ دیں۔ بڑھ چڑھ کر منافع کمایا۔ رویہ ایسا تھا گویا وہ نعمتوںسے معمور وطن میں نہیں بلکہ قحط سالی سے دوچار ریاست میں زندگی گزاررہے ہوں۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور ابو الانبیاءابراہیم علیہ السلام کی مبارک دعا کی بدولت ارض مقدس دنیا بھر کی نعمتوں سے مالا مال رہتی ہے۔
تجارتی مراکز کے ریک خالی ہوگئے۔ ایک مشہور کمپنی نے چاول کی 5کلو والی بوریاں بڑے پیمانے پر فروخت کر ڈالیں۔تجارتی مراکز کا منظر ایسا تھا کہ جیسے رمضان المبارک کی آمد اور حج ایام میں ہوا کرتا ہے۔
وزارت تجارت و سرمایہ کاری کی ذمہ داری ہے کہ وہ تجارتی بدعنوانی اور اشیائے صرف میں ملاوٹ کا سدباب کرے۔ جو تاجر بھی ملاوٹی یا ممنوعہ یا ناقابل استعمال یا مضر صحت سامان فروخت کرے اسکا احتساب کیا جائے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ وزارت تجارت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ 
عوام کو وزارت تجارت کے زیادہ موثر کردار کی اشد ضرورت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ استحصال پسند اور ناجائز کمائی میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں اور اداروں کو انسانی استعمال کے ناقابل اشیاءکی فروخت سے روکنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ ہم لوگ ان دنوں عزم اور فیصلہ کن ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کاش کہ وزارت تجارت تمام چھوٹے بڑے تجارتی مراکز کو اس امر کا پابند بنائے کہ وہ اپنی تمام اشیاءپر چسپاں کئے جانے والے ٹیگ میں قیمت ، سامان کی نوعیت کے ساتھ تجارتی مرکز کا نام بھی تحریر کرے تاکہ اگر کوئی صارف حقیقت حال منشکف ہونے کے بعد اس سے رجوع کرنا چاہے تو باآسانی ثبوت بھی پیش کرسکے۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: