Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”اباجان کی بہادر بیٹی“

 زینت شکیل۔جدہ
وہ اپنی کامیابی پر خوشی سے سرشار تھی۔ وہ اپنانام داخلہ فہرست میں شامل دیکھنا چاہتا تھا۔ سیڑھی اترتے ہوئے وہ اپنے فون کے ذریعے گھر پراطلاع دے رہی تھی کہ ایک زور دار دھکا لگا اور اس کے ہاتھ سے اسکا فون دور جاگرا۔ وہ خود بھی سیڑھی پر اپنا توازن برقرارنہ رکھ سکی اور چبوترے سے ٹکراگئی۔ پیشانی پر ایک تیز درد کا احساس ہوا اور پھر جلد ہی ختم بھی ہو گیا۔ وہ اسے پریشانی سے دیکھ رہا تھا۔ جلدی میں سامنے سے آتی طالبہ پر نظر ہی نہیں پڑی تھی اور اب اسکی وجہ سے وہ اپنے فون سے تو ہاتھ دھو بیٹھی تھی مگر ساتھ ساتھ اسکی پیشانی پر ضرب بھی لگی تھی لیکن چونکہ تازہ زخم کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، اس لئے اسے بھی زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
وہ اپنی گاڑی لیکر آیا اور کہا کہ آپ کو ڈاکٹر کے پاس چلنا چاہئے۔ وہ اتنی مہنگی گاڑی دیکھ کر کچھ حیران ہوئی اوراسے اپنا کھٹارا یاد آیا۔ پھراس نے اپنے ٹوٹے فون کی طرف دیکھا تو ساری غلطی سامنے والے کی ہی نظر آئی۔ وہ کہنے لگی، آپ مہربانی کریں اور یہ ہمدردی کا شو اب ختم ہونا چاہئے۔ وہ تیزی سے پلٹی اور واپسی کی جلدی میں کہ گھر والوں کو اب فون پر اپنے داخلے کی اطلاع نہیں دے سکتی تھی ، اس لئے مین گیٹ پر پہنچ کر لیموزین لی اور گھر روانہ ہو گئی ۔وہ جان نہیںسکاکہ اسے کس طرح کا برتاﺅ کرنا چاہئے تھا۔ یقینی بات ہے کہ اگر کسی کی غلطی سے کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کی داد رسی کرنی چاہئے ۔ اسی لئے اس نے اپنی طرف سے تو پوری ہمدردی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن ایسا لگا کہ اسے اپنی تکلیف سے زیادہ اس فون کے ٹوٹ جانے کا غم تھا کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے پیاروں کو اپنی خوشی کی خبربروقت نہیں دے سکی تھی۔ اسی لئے فوراًیہاں سے روانہ ہوگئی حالانکہ ابھی تو یہاں اسٹوڈنٹس اپنی خوشی منانے کا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ 
وہ انہی سوچوں میں مزید گم رہتا کہ اسکے چھوٹے بھائی کے اسکول کے نمبر سے فون آنے لگا۔ وہ بات کرتے ہوئے گاڑی مین گیٹ کی طرف موڑ رہاتھا۔ جیسے ہی اپنے باباجان کو خبر دینے کے لئے خوشی کے عالم میں ان کی ڈیوٹی کی جگہ پر پہنچی، وہ پریشانی کے عالم میں کہنے لگے ،’بیٹی تمہارے پاس اپارٹمنٹ کی مین چابی ہوتی ہے تو چیک کرو تیسری منزل کی جس طالبہ کو اسکے کالج کی طرف لے جانے کے لئے گاڑی آئی تو وہ اپنے دئیے ہوئے وقت پردروازہ کیوں نہیں کھول رہی جبکہ ہمارے سرچ روم میں اسکی کوئی وڈیو بھی نظر نہیں آئی کہ جس سے معلوم ہوسکے کہ وہ کہیں گئی ہے ۔
 وہ دوڑتی ہوئی اس جگہ پہنچی جہاںتمام اپارٹمنٹس کی زائد جابیاں موجود ہوتی تھیں۔ اس نے جب دروازہ کھولا تو وہ اکیلے گھر میں بےہوش ملی۔ اسکی اس مخدوش کیفیت کی بناءپر وہ خود اسکی گاڑی میں اسے لے کراسپتال پہنچی تو معلوم ہوا کہ اس اکلوتی اولاد نے اس ناراضی میں کہ جب میرا رزلٹ زیادہ اچھا نہیں آیا تو کسی اچھی جگہ داخلہ لینے کی بھی آسانی نہیں ملے گی تو کیاہوتا ہے اور کس جگہ کس یونیورسٹی میں داخلہ ہوتا ہے، اس لئے چاہتی تھی کہ میرے والد میرے ساتھ اس موقع پر موجود ہوں لیکن انہوںنے پہلے سے ہی اسکی نئی امی جان کے ساتھ سیرو سیاحت کا پروگرام بنا لیا تھا اس لئے منتظر تھے کہ وہ اپنے داخلے کے بارے میں فون پر بتا دے تو انہیں خوشی ہوگی لیکن اس کے لئے پروگرام ادھورا چھوڑکر واپس آنا ضروری نہیں سمجھا ۔
وہ رات گئے کچھ آرام کر کے آیا تھا اور اب اپنے چھوٹے بھائی سے کہہ رہا تھاکہ تم بہادر انسان کیسے بن سکتے ہو جب زیادہ دیر اپنے پسندیدہ کھیل کھیلنے کی وجہ سے تم کھیل کے دوران گرگئے اور اگر مجھے فون نہ کیا جاتا تومیں بھی مطمئن ہی رہتا ۔تمہیں اپنا خیال تو رکھنا چاہئے ناں۔“
 اسکی بات سن کر اسکے چھوٹے بھائی نے اسے بڑی بے بسی سے دیکھا اور کہا کہ کیا دنیا میں ہماری ماں دوبارہ آسکتی ہے؟وہ اپنے آبدیدہ بھائی کو گلے سے لگائے تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا کہ دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی امتحان میں مشغول ہے۔ یاد رکھو ہمیں اپنی ہر حالت میں خوش رہنا ہے۔
اس نے کہاکہ بھائی اب تومیں کئی دن میں ہاسٹل سے دور آپکے ساتھ گھر پر گزار سکتا ہوں۔وہ اپنے 10 سالہ بھائی کوگود میں اٹھاتے ہوئے کہنے لگا کہ اس کے لئے آپ کو بیمار پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ اسے اسپتال سے ڈسچارج کروا کر باہر آگیا ۔
وہ اس کے قریبی بینچ پر بیٹھی تھی، اس کے سر پر موجود اسکارف کے باوجودایک سفید پٹی کا سرا نظر آرہا تھا ۔وہ اسے دیکھ کر رک گیا ۔
اس کا بھائی دوڑتا ہوا اس لڑکی کے پاس گیا اور پوچھنے لگا، ہم اسپورٹس کلب میں ملے تھے اور آپ نے بتایا تھاکہ آپ اپنے بھائی کے ساتھ پریکٹس کرتی ہیں تو کیا آپ نے اس مرتبہ ٹورنا منٹ میں حصہ لیا ہے ؟وہ اس پہچانتے ہوئے مسکرائی اورکہنے لگی کہ ابھی میں اپنی پڑہائی میں مصروف ہو جاﺅں گی ۔اس لئے اس کے لئے وقت نہیں نکال پاﺅں گی۔
وہ ان دونوں کی گفتگو سے جان چکا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے کئی دفعہ مل چکے تھے۔ اس لئے اتنی بے تکلفی سے بات کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے بھائی کے اگلے جملے پر مسرت بھرے انداز میں دیکھنے لگا اور سوچ رہا تھا کہ اس کو صبح سے ایک مہم درپیش تھی کہ اس نے اپنے بھائی سے ایک اہم وعدہ کیا ہے کہ اگر اسے اس کی پسند کی ہوئی لڑکی پسند آئی تووہ اس سے ہی شادی کرے گا۔ اسکا چھوٹا بھائی پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ جب آپ ان سے ملیں گے تو آپ کا دل خود بخود انکو میری بھابھی بنانے کو چاہنے لگے گا۔ بھائی کا یہ کہنا صد فیصد درست ثابت ہو۔
جاننا چاہئے کہ کوئی گھر امیر یا غریب نہیں ہوتابلکہ جس گھر کے افراد ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، وہی امیر ہوتے ہیں ۔
 
 

شیئر: