Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پروین توگڑیا کے آنسو

***معصوم مرادآبادی***
وشوہندوپریشد کے بین الاقوامی صدر ڈاکٹر پروین توگڑیا بھگوا بریگیڈ کے انتہائی طاقتور اور چرب زبان لوگوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور منافرت پھیلانے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنے اشتعال انگیز اور مسلم دشمن بیانات کی وجہ سے وہ فرقہ وارانہ عناصر کے دلوں کی دھڑکن تصور کئے جاتے رہے ہیں۔ ان کی تقریریں اور بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی مضبوط اور طاقتور اعصاب کے مالک ہوں گے لیکن گزشتہ ہفتے رونما ہونے والے ایک ڈرامے نے یہ ثابت کردیا کہ پروین توگڑیا ایک انتہائی بزدل انسان ہیں اور محض قانون کا سامنا کرنے سے بھی ڈرجاتے ہیں۔ 15برس پرانے ایک مقدمے میں اپنے خلاف جاری غیر ضمانتی وارنٹ کی تعمیل سے بچنے کیلئے انہوں نے ایسا زبردست ڈرامہ رچایا کہ سب حیرت زدہ رہ گئے۔ لوگوں کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوا کہ ہندوراشٹر کے قیام کی باتیں کرنے والا ایک لیڈر ہندتووادیوں کی سرکار میں ہی اپنا انکاؤنٹر کئے جانے کے خوف سے لرزہ براندام ہے اور وہ زاروقطار روکر اپنی بپتا سنارہا ہے۔ ایسا محسوس ہواکہ بی جے پی کے اقتدار میں پروین توگڑیا شدید عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں اور اپنی جان پر منڈلارہے فرضی خطرے نے انہیں شدید احساس کمتری میں مبتلا کردیا ہے۔ بھگوا بریگیڈ کے فائربرانڈ لیڈر پروین توگڑیا کی حالت دیکھ کر ہمیں شیوسینا کے کاغذی شیر آنجہانی بال ٹھاکرے بہت یاد آئے جو پروین توگڑیا کی ہی طرح مسلم دشمن بیانات دینے کیلئے بدنام تھے لیکن جب ایک مقدمے کے سلسلے میں انہیں حراست میں لے کر ممبئی کے باندرہ پولیس اسٹیشن لایاگیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہے تھے۔ یہی حالت ڈاکٹر پروین توگڑیا کی بھی نظرآئی کہ ان کو گرفتارکرنے آئے راجستھان پولیس کے جوانوں کو دیکھ کر وہ اتنے خوف زدہ ہوئے کہ انہیں اپنی موت نظرآنے لگی حالانکہ پروین توگڑیا کو سرکار کی طرف سے زیڈپلس سیکیورٹی ملی ہوئی ہے لیکن انہیں اپنے محافظوں پر بھی یقین نہیں تھا اور وہ سب کو چکما دے کر آٹو رکشا سے کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئے اور انہوں نے اپنا موبائل فون بند کردیا۔ 
گزشتہ پیر کو ڈاکٹر پروین توگڑیا کے اچانک پراسرار طریقے سے لاپتہ ہونے کی خبرجب میڈیا میں گردش کرنے لگی تو وشو ہندو پریشد کے کارکنوں میں افراتفری پھیل گئی۔ ان کارکنوں نے احمدآباد کی سڑکوں پر احتجاج کیا تو پروین توگڑیا 12گھنٹے بعد بے ہوشی کی حالت میں سڑک کے کنارے پڑے ہوئے ملے۔ کسی اجنبی نے ایمبولینس بلائی اور انہیں اسپتال پہنچایا۔ دراصل توگڑیا کیخلاف راجستھان کے گنگا پور میں 2002میں ایک مقدمہ درج ہوا تھا۔وہاں شرپسندوں نے محرم کے موقع پر تعزیہ کے ایک جلوس کی راہ میں رخنہ اندازی کی تھی جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگئی اور پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی جس کے نتیجے میں 3لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ پروین توگڑیا کرفیو کے باوجود مہلوکین کو خراج عقیدت پیش کرنے وہاں پہنچے تھے ۔ وہاں پولیس نے جلسہ کرنے پر روک لگادی تھی لیکن اس کے باوجود پروین توگڑیا نے وہاں اشتعال انگیز تقریر کی جس کے نتیجے میں حالات مزید خراب ہوگئے۔ پولیس نے ان کیخلاف مقدمہ درج کرلیا۔ تب سے اب تک توگڑیا قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ وہ کسی بھی سمن پر حاضر نہیں ہوئے یہاں تک کہ گزشتہ سال اگست سے اکتوبر کے درمیان انہیں 5 بار عدالت میں طلب کیاگیا لیکن وہ ہر مرتبہ غیر حاضررہے۔ عدالت نے آخرکار گزشتہ سال نومبر میں ان کے خلاف2ناقابل ضمانتی وارنٹ جاری کردیئے لیکن یہ وارنٹ میں تعمیل نہیں ہوئے۔ 8جنوری کو عدالت نے ایک اور ناقابل ضمانتی وارنٹ جاری کیا جس کی تعمیل کرانے راجستھان پولیس گجرات پہنچی تھی لیکن جیسے ہی پروین توگڑیا کو پولیس کی آمد کا علم ہوا وہ فوراً اپنے گھر سے غائب ہوگئے اور پورے 12گھنٹے بعد بے ہوشی کی حالت میں یہ کہتے ہوئے عوام کے درمیان نمودار ہوئے کہ ان کا انکاؤنٹر کرنے کی سازش رچی گئی ہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے اپنی گرفتاری سے بچنے کیلئے ہندتو کی پناہ تلاش کی اور بیماروں جیسا حلیہ بناکر ایک پریس کانفرنس میں یہ الزام عائد کیا کہ’’کچھ لوگ انہیں ہندتو وادی موضوعات پر بولنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہیں رام مندر ، گئو کشی اور کسانوں کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر بولنے نہیں دیا جارہا لیکن وہ چپ نہیں رہیں گے اور ہندوؤں کیلئے آواز اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ 
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ توگڑیا جس گجرات میں رہتے ہیں وہ ملک میں ہندتو کی لیباریٹری کے نام سے مشہور ہے اور یہاں تمام بھگوا لیڈروں کو غیر معمولی تحفظ حاصل ہے۔ پھر وہاں انہیں رام مندر اور گئو کشی جیسے موضوعات پر بولنے سے کون روک سکتا ہے؟ یہ موضوعات تو مرکز سے لے کر گجرات تک ہر بی جے پی حکومت کے ایجنڈے میں سب سے اوپر ہیں۔ اسکے باوجود جب پروین توگڑیااپنے انکاؤنٹر کے خوف سے روپوش ہوجاتے ہیں تو صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ اخبارنویسوں کے باربار پوچھنے پر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آخر ان کا انکاؤنٹر کون کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب سے گجرات کے سابق وزیراعلیٰ نریندرمودی وزیراعظم بنے ہیں تب سے پروین توگڑیا بجھے بجھے نظرآتے ہیں۔ ان کے لب ولہجے میں وہ جوش نظر نہیں آتا جس کیلئے وہ پورے ملک میں بدنام ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی سے ان کے رشتے اچھے نہیں جبکہ ماضی میں دونوں ایک ہی اسکوٹر پر بیٹھ کر احمد آباد کی سڑکوں پر گھوما کرتے تھے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ بھگوابریگیڈ کے لیڈران ملک میں بے خوف ہوکر مذہبی منافرت پھیلاتے رہتے ہیں اور ہر قسم کی غیرقانونی سرگرمیوں کا یہ سوچ کر ارتکاب کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے دیش میں ان کا کوئی کیا بگاڑلے گا لیکن جب کبھی غلطی سے قانونی مشینری ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو وہ اسے ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی کام ڈاکٹر پروین توگڑیا نے گرفتاری سے بچنے کیلئے کیا ہے۔ بابری مسجد انہدام کیس کے ملزمان ہوں یا پھر بال ٹھاکرے اور پروین توگڑیا جیسے لوگ، قانون کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کیلئے طرح طرح ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندتووادی بریگیڈ بنیادی طورپر بزدلوں کا ایک گروہ ہے جو سخت حفاظتی بندوبست کے درمیان اپنا خوف دور کرنے کیلئے دوسروں کو ڈراتا اور دھمکاتا ہے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں