Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاہد مسعود اپنے ہی جال میں پھنس گئے؟

کراچی (صلاح الدین حیدر ۔ بیورو چیف) پاکستان کے معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے ہی جال میں پھنس گئے ۔ زرد صحافت تو بہت پرانا مسئلہ ہے۔ کم و بیش ہر ملک میں یہ بیماری پائی جاتی ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے اس میں ایک اور باب کا اضافہ ہوگیا جسے لفافہ جرنلزم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ آج سے چند دن پہلے شاہد مسعود نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ بیان دیا کہ 8سالہ زینب کا گرفتار ہونے والا قاتل بین الاقوامی شرپسندوں کے گروہ کا حصہ ہے اسکے 37بینک اکاﺅنٹس ہیں۔ پورے ملک میں جہاں سے لاکھوں ڈالر، یورو اور دوسری بیرونی کرنسیوں میں کاروبار ہوتا ہے انکے اس انکشاف نے پورے پاکستان میں جیسے آگ لگادی ہو۔ پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے اسے زینب قتل کیس کو نیا رخ دینے کی سازش گردانا ۔تمام کے تمام دوسرے ٹی وی اینکروں نے شاہد مسعود پر پروگرام کرکے ا نہیں جھوٹا اور مکار انسان قرار دے ڈالا۔قصہ جب ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا تو ملک کی عدالت عظمیٰ نے اسکا نوٹس لے لیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کرکے ان سے ثبوت مانگے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ بات ان پر واضح کردی کہ اگر انکا بیان غلط ثابت ہوا یا وہ ثبوت دینے میں ناکام رہے تو انہیں اسکی سزا بھگتنا ہوگی۔ شاہد مسعود ٹی وی پروگرام کی بوچھاڑ میں ایک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا بیان بدلتے رہے کبھی کہتے انہوں نے صرف اطلاع دی خبر نہیں۔ اب عدالت کا کام ہے کہ اسکی تفتیش کرے لیکن پیر 28جنوری کو جب وہ سپریم کورٹ کے بلانے پر پیش ہوئے تو انکے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کی عدالتی کمیشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دیدی اوراینکر کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ظاہر ہے بات بہت سنگین تھی عدالت کی برہمی بجا تھی۔ چیف جسٹس نے یہ بھی حکم دیاکہ صوبائی یا وفاق حکومتیں اس سلسلے میں کوئی عدالتی کمیشن کی درخواست کرینگی نہ ہی کوئی ایسا کمیشن بنائیں گی۔ آئندہ کسی بھی معاملے میں عدالتی کمیشن بنانے سے انتظامیہ کو منع کردیا یہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ میڈیا اور زینب کے والدین کو اس کیس میں بیان بازی سے روکدیا گیا تاکہ تفتیش پر اثر نہ پڑے۔ شاہد مسعود ڈاکٹر ہیں۔ علاج معالجہ کی بجائے صحافت کو ترجیح دی۔ اسے پیشہ تو بنالیا لیکن اکثر انکی موشگافیوں سے نالاں تھے وہ ایسی باتیں کرتے تھے اپنے پروگرام میں جیسے وہ ہر خفیہ بات چیت اور حکومتی فیصلوں سے واقف ہوں۔ انکا کیس پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا ہے اور اسکے نتائج ہوسکتا ہےصحافی برادری کیلئے مشعل راہ ہو ۔ چیف جسٹس کا یہ کہناہے کہ اگر رپورٹ آپ کے خلاف آئی تو سزا کیلئے تیار رہیں۔

شیئر: