Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تفریحی مواقع

محمد مبشر انوار
سعودی عرب میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیںکہ یہاں طرز زندگی ایک مخصوص ڈگر پر گزرتی ہے،زندگی کا یہ طرز گزشتہ کئی دہائیوں(تقریباً ساڑھے 3 دہائیوں)سے یکساں ہے اور یہاں پر تفریح کے مواقع انتہائی محدود ہیں۔ وسائل کے حوالے سے بات کی جائے تو سعودی عرب میں بے پناہ وسائل موجود ہیں مگر اپنے مخصوص طرز معاشرت کی بنا پر یہاں ان وسائل کے باوجود زندگی کی رنگینیاں محدود دائرے میں ،انفرادی طور پر ،چادر اور چار دیواری کی حدود میں تو موجود ہیں مگر جدید دنیا میں ہونے والی اجتماعی خوشیاں کشید کرنے کے مواقع انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سعودی معاشرہ زیادہ سے زیادہ اپنے قومی دن،عیدین یا پھر عالمی فٹ بال کے مقابلوں میں خوشی کا اجتماعی اظہار کرتے ہیں۔ثقافت یا آرٹ کے حوالے سے سعودی عرب جدید دور کے تقاضوں سے تقریباً 35 برس تک دور رہاکہ یہاں پر رنگینیاں بکھیرنے والی بڑی سکرین پر بابندی عائد رہی لیکن ولی عہد امیر محمد بن سلمان نے (جو جدید دور کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں)انقلابی اور دور حاضر سے ہم آہنگ فوری فیصلے کرنے کی شہرت رکھتے ہیں ، حال ہی میں سینما ہالز پر پابندی اٹھا لی ہے اور اس ضمن میں عالمی شہرت یافتہ اداکار جان ٹراووللٹا نے پہلے سینما کاافتتاح بھی کردیاہے۔ باقاعدہ طور پر سینما ہالز میں عالمی فلموں کی نمائش رواں مارچ سے شروع ہو جائیگی اور سعودی شہریوں کیلئے تفریح کا ایک اور ذریعہ میسر ہو گا جو نہ صرف تفریح فراہم کرے گا بلکہ اس میڈیم کے ذریعے بہت مفید اور کارآمد معلومات کے علاوہ معاشرتی ،تہذیب و تمدن کا موازنہ کرتے ہوئے ،اپنے دائرہ کار کے اندر ترقی و مثبت تبدیلی بھی وقت کے ساتھ ساتھ دیکھنے کو ملے گی۔
سعودی عرب میں اس اجازت کے بعد،دنیا بھر کی فلم انڈسٹری کو ایک اور مارکیٹ میسر ہو گئی ہے اور ساری دنیا کی یہ کوشش تھی کہ بدلتے ہوئے ان تاریخی لمحات کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے،تاریخ میں اپنا نام رقم کیا جائے۔ ان تاریخی لمحات میں امر ہونا پاکستان کے مقدر ٹھہرا گو کہ لالی ووڈ فلم انڈسٹری حجم کے اعتبار سے کسی صورت بھی ہالی ووڈ اور بالی ووڈانڈسٹری کا مقابلہ نہیں کرتی اور نہ ہی یہاں وہ سہولیات میسر ہیں کہ وہ تکنیکی اعتبار سے دوسری فلم انڈسٹریز کا مقابلہ کر سکے ۔ لالی ووڈ انڈسٹری ایک عرصے تک زبوں حالی کا شکار رہی ،حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہاں معیاری فلمیں بھی نہ بن سکی بلکہ لالی ووڈ کی پہچان مخصوص فلموں تک محدود رہی اور گھٹن زدہ شائقین بھی اسی طرز کی فلموں کو پسند کرتے رہے۔مذکورہ فلموں میں فقط اینگری ینگ مین کا رول ہی شائقین کا پسندیدہ رہا ،جو اس بات کا غماض تھا کہ معاشرے میں نہ صرف گھٹن ہے بلکہ عوام کو کسی ایسے مسیحا کی تلاش ہے جو نظام سے ہٹ کر ان کی دادرسی کر سکے،اکیلا ہی استحصالی نظام کے پرخچے اڑا کر رکھ دے اور عوام کو لوٹنے والوں کی ایسی کی تیسی کر دے۔ تخلیقی کام نہ صرف نہ ہونے برابر بلکہ اس کی ستائش بھی معاشرے میں ناپید تھی،اس پس منظر میں یہ نعمت غیرمترقبہ تھی کہ سعودی تاریخ میں ہونے والی تبدیلی کا سہرا پاکستان کے سر پر سجا۔ اس سہرے کو سجانے میں جہاں پاکستان کی نئی ریلیز ہونے والی فلم ‘‘پرچی‘‘ کا مقدر ٹھہرا وہیں پرچی کی سعودی عرب میں ریلیز کی کاوشیں کرنے والے ’’ٹاپ ایونٹس‘‘ کے ڈائریکٹر عمران اسمعیل اور عامر شہزاد کی بھرپور معاونت بھی شامل ہے،علاوہ ازیں سفارتخانہ پاکستان کا تعاون بھی شامل ہے۔ یوں پاکستان کی فلم انڈسٹری نے یہ انوکھا سنگ میل عبور کیا اور یقیناً جب بھی سعودی تاریخ کی بات ہو گی،پاکستان اور اس کی فلم انڈسٹری کا نام سرفہرست ہو گاکہ ان تاریخی لمحات میں پاکستانی فلم وہ پہلی فلم تھی جس کی نمائش سعودی عرب میں کی گئی۔فلم پرچی کا موضوع در حقیقت کراچی کا پس منظر ہی ہے ،جو ایک عرصہ سے بھتہ ،تاوان جیسی لعنت کا شکار ہے اور کسی بھی ایسی صورتحال کو فلمبند کرنے کیلئے یقینی طور پر تشدد کا سہارا لینا پڑتا ہے بعینہ یہی صورتحال پرچی میں بھی ہے۔ معاشرتی نا انصافی پر بننے والی اس فلم میں بھی راتوں رات امیر بننے کی جدوجہد کو فلمبند کیا گیا ہے،جس میں وہ تمام لوازمات موجود ہیں ،جو معاشرے کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔ لالی ووڈ انڈسٹری کا ماضی انتہائی درخشاں رہا ہے اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب لالی ووڈ اور بالی ووڈ انڈسٹری کے درمیان انتہائی مثبت مقابلے کا رجحان تھا ،یہ وہ وقت تھاجب تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر تھی اور دونوں ممالک کی فلم انڈسٹری میں نہ صرف بڑے نام موجود تھے بلکہ ان کا مشاہدہ بھی قابل ستائش تھا۔ فلمبندی میں شامل چھوٹی سے چھوٹی چیزبھی نظر انداز نہ کی جاتی اور تکنیک کار تک اپنے پیشہ میں نہ صرف مخلص ہوتے بلکہ مہارت کا بھرپور ثبوت دیتے۔ فلم کے پریمیر میں نشستیں محدود ہونے کے باوجود،تارکین وطن کا بڑی تعداد میں آنا،اس امر کا غماض تھا کہ سعودی عرب میں رہنے والے بڑی سکرین کے کس قدر شائق ہیں۔
ضیا ء دور آمریت میں ،تخلیقی صلاحیتیوں پر بے جا پابندیوں نے ،تخلیق کاروں کو ایک مخصوص سوچ کا پابند کر دیا اور ان کی تخلیقی صلاحیتیوں پر بند باندھ کر رکھ دیا، یہ وہ دور تھا جب فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہو گئی اور بتدریج ایک مخصوص ٹولے کا اس پر راج ہو گیا۔ فلم سے متعلقہ کہنہ مشق افراداس ماحول سے دل برداشتہ ہو کر ،اس انڈسٹری سے الگ ہو گئے اور شائقین معیاری تفریح سے محروم کر دئیے گئے۔ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں،وقت کا دھارا بدلا اور اب لالی ووڈ انڈسٹری دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو رہی ہے،گم گشتہ قلم کار ،تکنیک کار فلم انڈسٹری کے احیاء کے بعد پھر اس شعبہ میں واپس آ رہے ہیں۔ پرچی فلم کے نوجوان پروڈیوسر عمران رضا کاظمی نے، فلم کے پریمیئر اور بعد ازاںاپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان میں سینما کلچر جو تقریباً ختم ہو چکا تھا،دوبارہ احیاء پذیر ہے اور اعدادو شمار کے مطابق بہت سے نئے سینما گھر بن رہے ہیںجو فلم انڈسٹری کے حوالے سے انتہائی مثبت پیش رفت ہے۔ ماضی کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ معتبر ناموں کی انڈسٹری میں واپسی کے بعد پاکستانی فلم انڈسٹری ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گی لیکن اس کیلئے ہمیں سخت محنت کرنا ہو گی کہ اس وقت مقابلہ انتہائی سخت ہے گو کہ ہمارے فنکار تکنیکی اعتبار سے انتہائی مضبوط ہیں لیکن ان کیلئے مواقع کم ہونے کی وجہ سے انہیں ہمسایہ ممالک میں جا کر کام کرنا پڑتا ہے۔ ہمسایہ ممالک میں ،مختلف پراجیکٹس پر کام کرتے ہوئے ،پاکستانی فنکاروں کو بعض اوقات نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے انتہائی نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چند مواقع پرتو انہیں جان کے لالے بھی پڑ گئے تھے،یہ تو وہ انتہائی رویہ ہے جس کا سامنا پاکستانی فنکاروں کو کرنا پڑتا ہے،علاوہ ازیں ان کے پرفارم کئے ہوئے کردار پر ایڈیٹنگ کی جو قینچی چلتی ہے وہ بھی کسی طور جان کنی سے کم نہیں کہ ایک فنکار کی جان اس کی پرفارمنس میں ہی ہوتی ہے۔ 
ان تمام معاملات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ،سعودی عرب میں اجازت ملنا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ،کہ اس ملک میں دونوں ممالک کے فنکار مل کر کسی بھی بڑے پراجیکٹ میں پورے اعتماد کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ٹاپ ایونٹس کی انتظامیہ کو اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایسے منصوبوں کا اعلان کرنا چاہئے جو سعودی ثقافت کو اپنے فنکاروں پر فلمبند کر کے اپنے ممالک میں نمائش کے لئے پیش کر سکتے ہیں اور حقیقی سعودی ثقافت کو روشناس کروا سکتے ہیں کہ ابھی تک سعودی عرب سے متعلق سینہ گزٹ اور محدود نقطہ نظر ہی بیرون ممالک نظر آتاہے۔ ولی عہد امیر محمد بن سلمان عہد حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے جس طرح اقدامات کر رہے ہیں،تفریحی مواقعوں سے پابندی ہٹانا ان میں سے ایک ہے ،جو یقینی طور پر اقوام عالم میں سعودی عرب کے تاثر کو مزیدبہتر بنائے گا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں