Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ستریات‘‘

***شہزاد اعظم***
’’ستریات‘‘ یعنی ’’سیونٹیز‘‘کا دور تھا۔ اس وقت پاکستان ’’مشرقی اور مغربی‘‘کے نام سے 2حصوں میں منقسم نہیں تھابلکہ ’’ایک‘‘ ہو چکا تھا۔ ملک میں اُس وقت آج کے مقابلے میں بہت زیادہ امن اور سکون تھا۔ اس کا سب سے بڑا ،ناقابل تردیدبلکہ ’’عبرتناک‘‘ ثبوت یہ تھا کہ جب کسی گھر میں لڑکی کی شادی کا ارادہ پختہ ہو جاتا تو کم از کم 6ماہ پہلے سے ہی تیاریاں شروع کر دی جاتی تھیں۔ ہونے والی دلہن کی ڈھائی درجن سہیلیاں، ہم جولیاں ، ہم عمر، کم عمر اور ادھیڑ عمرلڑکیاں سب روزانہ شام کو 7بجکر10منٹ پر ایک کمرے میں اکٹھی ہو جاتیں۔ اب ذرا اس ’’خوش قسمت‘‘ کمرے کے ماحول کی لفظی منظر کشی ملاحظہ کیجئے اور اسے چشم تصور سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھئے:
10فٹ چوڑا اور 15فٹ لمبا کمرہ ہے ۔ اس کی دیواروں میں الماریاں بنی ہیں جس میں سینیاں، رکابیاں،پیالے پیالیاں، چمچے،چمچیاں، کانٹے اور چھریاں انتہائی سلیقے سے سجی ہوئی ہیں۔برتنوں کی اس الماری کے ایک جانب ’’سقف بوس‘‘یعنی چھت کو چومنے والے‘‘ انداز میں دیگچیاں اس طرح رکھی ہیں کہ سب سے نیچے 30کلوکی دیگ، اس کے اوپر 20کلو، پھر15کلو، پھر10کلوکے دیگچے، اس کے اوپر5کلوکی دیگچی، اس کے اوپر 2کلو، پھر ایک کلو، پھر ایک پائو اور پھر مٹھی بھر چاول پکانے کے لئے ننھی دیگچی رکھی ہے۔ اس کے بعد جست کا بہت بڑا بکس جسے عرف عام میں ’’پیٹی‘‘کہا جاتا ہے مگر ہم سے پوچھئے تو دل کی گہرائیوں سے اسے عرف حقیقت میں ’’جہیز دان‘‘ کہنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ یہ وہ دھاتی کوٹھڑی ہوتی ہے جس میں والدین بیٹی کی پیدائش کے بعد سے ہی ایک ایک کر کے قیمتی اشیاء ’’قید‘‘ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس جہیز داں پر دلہن کی سہیلیوں اور ہمجولیوں کے برقعے وغیرہ سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔ پاس ہی ایک کونے میں سنگھار میز ہے جس کے جسیم آئینے پر کروشیے سے بُنا میزپوش کی جسامت کا پردہ پڑا ہے ۔دیوار کے ساتھ چند کرسیاں بھی قطار میں رکھی ہیں جن کی پشت پر دوسوتی کا کڑھا ہوا غلاف اور نشست پرپٹ سن کا کشیدہ کاری والا کشن رکھا ہوا ہے جو دلہن کے فن دستکاری کا ایک معمولی نمونہ ہے ۔ فرش پر سفید چاندنی بچھی ہے۔ مرکز میں رنگین پائے والا خوبصورت پیڑھا رکھا ہے جس پر مستقبل قریب کی دلہن بیٹھی ہے۔ اس کے گرد گائو تکئے موجود ہیں ۔ اس کی دائیں جانب ایک سہیلی ڈھولکی لئے بیٹھی ہے جس پرمہندی میں رچی اس کی انگلیاں اور ہتھیلیاں ’’مچل مچل ‘‘کر تال بکھیر رہی ہیں اورکمرے میں موجود30لڑکیوں کی 60کلائیوں میں موجود 360چوڑیاں، بیک وقت 30تالیوں کی گونچ میں کھنک کھنک کر عجب نسوانی ترنگ فضائوں کے سپرد کر رہی ہیں اور اپنے جذبوں کوسُروں میں پِرو کر تشنہ سماعتوں کو یوں سیراب کر رہی ہیں کہ:
پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی
٭٭٭
چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر
آج جانا پڑا، ہو آج جانا پڑا
٭٭٭
آئے گا شہری بابو، ذرا دل پہ رکھو قابو
کرو انتظار آنکھیں بند کر کے
لے جائے گا اک لڑکی پسند کر کے
یہ غیر شادی شدہ نسوانی اجتماع رات 11بجکر 31منٹ پر ختم ہوجاتا۔ ہر کسی کے محرم وہاں آتے اور اپنی بہن، خالہ، پھوپھی، بیٹی وغیرہ کو لے کر چلے جاتے۔ اگلے روز اس کمرے کی باقاعدہ صفائی ہوتی اور 7بجکر 10منٹ پر’’بزم ِطربِ عروسی‘‘کا آغاز ہو جاتا۔ ہم رات کو جب گھوم پھر کر 11بجے کے قریب واپس آتے،محلے میں داخل ہوتے توہوا کے دوش پر 41گھروں کی دوری سے ہی ہمیں ڈھولک کی تھاپ، چوڑیوں کی کھنک، نسوانی چہک اور کلیوں کی مہک کا ادراک ہونے لگتا تھا۔کتنا مامون دور تھا مگر ..........
اس دور میں کالم نگار،صنعتکار، صاحبان اختیار، اداکار، بے روزگار، برسر روزگار، بے اختیار، جمعدار، ’’کاردار‘‘ اوربے کارسب لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو رہا۔ ہم قوم کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ رہے ۔ہمیں شاہراہ ترقی پر تیز گامی ، سبک خرامی کرنی چاہئے ۔ پھر یوں ہواکہ ہم نے عوام کو ترقی کے لئے بھاگتے دیکھا، جس میں جتنا دم تھا وہ اسی تیز رفتاری، منہ زوری اور سینہ زوری سے دوڑے چلا جا رہا تھا۔ اس ’’بھاگ دوڑ‘‘ میں کسی سے ’’الف‘‘ چھوٹ گیا اور کوئی ’’وائو‘‘ بھول گیا چنانچہ اس ’’بھاگ دوڑ‘‘ نے ’’بھگ دڑ‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔ترقی کے نام پر بدعنوانی نے سر اٹھانا شروع کر دیا، عوام کو آزادی کے نام پر کہنے کہلانے، سننے سنانے کی چھوٹ دے دی گئی۔ ’’کمزور‘‘ کے زیر عنوان صنف نازک کیلئے اتنا رونارویا گیا کہ اس کی ’’نزاکت‘‘ کو عیب شمار کیاجانے لگا۔ اسے ’’مساوی حقوق‘‘ کے بہانے مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا ’’جھانسہ‘‘ دیاگیا اور انہیں آنوں بہانوںیہ باور کرایاگیا کہ مردوں کے شانہ بشانہ چلنا اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب آپ کے اندر مخلوط ماحول میں ’’جرأتِ اظہار‘‘ کا حوصلہ موجود ہو۔ اگر اتنا حوصلہ نہیں تو آپ پسماندہ ہی رہیں گی، ترقی نہیں کر سکیں گی اورمعاشرے پر مردانہ تسلط ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ پھر یوں ہوا کہ زنانہ ملبوسات سے آستینیں غائب ہونا شروع ہوگئیں، برقع پہلے چادر بنا، چادر دوپٹے میں تبدیل ہوئی ، دوپٹہ ، اک پٹہ ہوا اور پھر غائب ہو گیا۔ اس ’’جرأت‘‘ کو خواتین کی ’’آزادی ، ترقی اور مردوں کے شانہ بشانہ ‘‘ ہونے کا نام دیا گیا۔ 
آج ہم اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ دلہنوں نے 6ماہ قبل سے ڈھولکی بجانے کو بے کار کی راگنی قرار دے ڈالا ہے۔ اب تو سارے مرحلے جھٹ پٹ طے ہوجاتے ہیں۔ہم اتنے ترقی یافتہ ہو چکے ہیں کہ اپنی نور عین کو اپنی پسند و ناپسند کی پوری اجازت دے دیتے ہیں۔ اس اجازت کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایاجاتا ہے، بیٹی اپنے والدین کو ٹویٹ یا ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر پیغام بھیج دیتی ہے یا چند سیکنڈ کا کلپ ارسال کر دیتی ہے کہ پاپا! میں نے اپنے کلاس فیلو’’جوجو‘‘ سے شادی کر لی ہے۔اس مرتبہ میں چھٹیوں میں اسے ساتھ لے کر آئوں گی۔ اس ترقی نے ایسے ناسوروں کو بھی جنم دیا ہے جو کلیوں کو گلشن کی رونق بننے سے پہلے ہی چمنستانِ حیات سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ ان درندوں کو نہ ڈھولک کی تھاپ بھاتی ہے نہ چوڑیوں کی کھنکاراور نہ دلہن کا سنگھار ۔آج کی اس نام نہاد ترقی سے وہ ’’پسماندگی‘‘ کتنی حسین تھی :
’’کوئی لوٹا دے مرے بیتے ہوئے دن‘‘
 

شیئر:

متعلقہ خبریں