Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملت اسلامیہ کے زوال کے اسباب

  آج ہم قرآن و سنت کی بعض باتوں پر تو عمل کرتے ہیں اور بعض سے اختلاف کرتے ہیں ، اگر آج ہم نے اپنے آپ کی اصلاح نہ کی توہمارا حشر یہود سے بھی بدتر ہو گا
 

* * * *

* * * اللہ بخش فریدی ۔ فیصل آباد  * * *
    یہ اس دنیاکی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے ،ا س کے تقاضوںاور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول کیلئے مسلسل ایثار و قربانی اور جد وجہد کرنے کیلئے کمر بستہ نہیں رہتی اس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح یقینی ہوتا ہے جس طرح تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کاگل ہوجانا یقینی ہوتا ہے ۔
    حدیث مبارکہ ہے :
    ’’مسلمان اور اس کے ایمان کی مثال ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی سی ہے جو خواہ کتنا ہی اِدھر اُدھر گھومے پھرے لیکن اپنی رسی کی حد کے اندر رہتا ہے۔‘‘
    لیکن ہم تو اپنی رسی کی حد سے باہر چلے گئے ہیں ۔ ہم اپنے دین کی رسی کو توڑ کر اللہ عزوجل اور اسکے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر گئے ہیں ۔ دنیا میں اس وقت ڈیڑھ ارب مسلمان موجود ہیں مگر اس کے باوجود وہ اسلامی نظام ِ زندگی جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ آج دنیا میں مسلمانوں کی پستی و ناکامی،ذلت و رسوائی، خواری و ناداری اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین اورمقصد ِ زندگی سے ہٹ گئے ہیں اور قرآن و سنت سے بے بہرہ دور ِگمراہی و جہالت کی تارکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔
    ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظام ِ حیات اس کے بنیادی عقائد و نظریات ، اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور نظریۂ حیات کا آئینہ دار ہوتاہے اس لئے اگر آج مسلمانوں میں اسلامی نظام ِ حیات رائج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے اسلام کو محض زبانی دعوؤں اور ایمان کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ اسے ایک دین اورایک مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا۔ اسے ایک کامل دین اور ایک مکمل نظام  ہائے زندگی کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں دی ۔ اس کی بجائے جو ضابطۂ حیات ہم نے اختیار کیا وہ ہمارے اجتماعی نظام (معاشرت، معیشت، عدل و انصاف، قانون وسیاست) وغیرہ سے صاف ظاہرہے۔اِسے جو چاہے نام دیں مگر یہ ایک اسلامی نظام ِ حیات ہرگز نہیں ۔ کیا قرآن و سنت ( اللہ عزوجل اور اسکے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاتعین کردہ نظام حق نہیں ؟ اگر حق ہے تو آپ خود ہی بتائیں کہ حق کو چھوڑ دینے کے بعد ضلالت و گمراہی اور جہالت کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے؟اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    ’نظام حق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے، تو تم کہاں بہکے جاتے ہو۔‘‘(یونس32 )۔
    ’’بیشک قرآن ہی وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے، نیک اور صالح کام کریں  بیشک ان کیلئے بڑا اجروثواب ہے۔‘‘(بنی اسرائیل9)۔
    بیشک قرآن ہی سیدھا راستہ ہے لیکن آپ دیکھیں کہ ہمارا کیا حال ہے؟ ہم قرآن و سنت سے بے بہرہ دور گمراہی و جہالت کی اندھیریوں میں بھٹک رہے ہیں ۔کوئی راہ دکھانے والا نہیں ، سب اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں اور برائیوں پر برائیاں کیے جارہے ہیں۔ کسی کو ذرا احساس نہیں کہ ایک دن اسے اپنے رب کے ہاں جوابدہی کیلئے حاضر ہونا ہے اور اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔
     اللہ تعالیٰ سے بار بار عہد اور اقرارکو استوار کرکے اسے پس پشت ڈال دینے اور دن میں کئی کئی مرتبہ یاد دہانی ( یعنی ’’اذان‘‘ جو دن میں 5 مرتبہ آدمی کو یاد دہانی کراتی ہے کہ اے لوگو! اللہ سب سے بڑا ہے، اے لوگو! اللہ کے سوا کوئی اطاعت و بندگی کے لائق نہیں ، اے لوگو! حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ؐہیں( اللہ نے انہیں تمہاری اصلاح و ہدایت اور رہنمائی کیلئے بھیجا ہے اس لیے آپ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرو اور آپ کی پیروی کرو)، اے لوگو! اللہ کی بندگی (نماز) کی طرف آئو، اے لوگو! (بھٹکتے نہ پھرو) آؤ فلاح کی طرف، آئو نجات کی طرف، اے لوگو! (پھر سن لوکہ) بڑائی اور بزرگی صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے اور اسکے سوا کوئی دوسرا اطاعت و بندگی کے لائق نہیں۔ یہ یاددہانی دن میں5 مرتبہ کرائے جانے کے باوجود اپنے حلف و فاداری کو بھول جانے والوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ عنقریب ان کے کانوں میں یہ صدا گونجے گی۔ فرمایا جائے گا:
    ’’ فرمایا جائے گا! آج ہم تمہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح تم نے ہمیں اور ہماری آج کے دن کی اس ملاقات کو بھلا رکھا تھا، اب تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ( جو تمہیں اس درد ناک عذاب سے نجات دے ) ،اس لیے کہ دنیا کی زندگی کی عیش و عشرت میں تم نے ہماری آیتوں کو مذاق بنا رکھا تھا،اب نہ ہی تمہیں اس آگ سے نکالا جائے گا اور نہ ہی کوئی عذر قبول کیا جائے گا۔‘‘  (الجاثیہ35,34)۔
    اگر ہمیں خود کو اللہ واحد القوی القہار کے غضب سے بچانا ہے تو ہمیں قرآن و سنت کی پیروی کرنا ہوگی۔ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ دینی ہو گی اور اسے اپنی روزمرہ زندگی میں عملی طور پر اپنانا ہو گااور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ اختیار کرنا ہوگی ۔
    ایک مقولہ مشہور ہے کہ اگر دشمن پتھر ماریں تو اس کی تکلیف نہیں ہوتی لیکن اگر اپنے ایک پھول مار دیں تو وہ بہت تکلیف دیتا ہے۔ یہی معاملہ اللہ عزوجل اور ہمارے درمیان ہے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کے ماننے والے ہیں ۔ اگر ہم بھی گمراہی و ضلالت میں پڑ کر کفروشرک جیسی غلط حرکتیں کرنا شروع کر دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کیلئے بہت تکلیف دہ ہے اور وہ اس پر ہمیں اہل کفر (جنہوں نے سرے سے اس کی وحدانیت کو تسلیم ہی نہیں کیا) سے بھی زیاد ہ ہم سے غضب ناک ہوں گے اور زیادہ ذلت کی سزا دیں گے۔
    ذرا سنجیدگی سے سوچئے کہ آخر بنی اسرائیل ( یہود) کا کیا قصور تھا جن پر قرآن مجید میں جگہ جگہ پر لعنت کی گئی ہے اور انہیں کافروں اور مشرکوں سے بھی زیادہ سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہیں دنیامیں ہی بندر اور سور بنا دیا گیا، قیامت تک کیلئے ان پر ذلت و رسوائی مسلط کی گئی اور آخرت میں بھی ان کیلئے ذلت کے درد ناک عذاب کی وعید ہے۔ حالانکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو ماننے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و حاکمیت پر پختہ یقین رکھتے تھے، حکم خداوندی کے مطابق عبادت بھی کرتے تھے، نماز ، روزہ کے پابند تھے مگر ان کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ دین کی کچھ باتوں کو چھوڑ کر کفر سے مصالحت کر بیٹھے اور اہل باطل کی چند باتوںکو اپنے دین میں شامل کر لیا تھا۔ اس پر اللہ رب العزت نے انہیں سخت تنبیہ دی اور ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا:
    ’’کیا تم کتاب الٰہی کی کچھ باتوں پر تو عمل کرتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ؟ یاد رکھو! اللہ کے دین کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں کیلئے دنیا میں ذلت ورسوائی اورآخرت میں بد ترین عذاب کے سوا اورکچھ نہیں۔‘‘  (البقرۃ  85)۔
    آج ہمارا حال بھی بالکل یہی ہے کہ ہم قرآن و سنت کی بعض باتوں پر تو عمل کرتے ہیں اور بعض سے اختلاف کرتے ہیں یا ان پر عمل نہیں کرتے۔ اس کا انجام ’’دنیا میں ذلت و رسوائی ‘‘ تو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور انجام ِآخرت بھی بہت جلد ہمارے سامنے آ جائے گا۔
    اگر ہمارا یہی حال رہا، اگر آج ہم نے اپنے آپ کی اصلاح نہ کی تو اللہ کی قسم ! ہمارا حشر یہود سے بھی بدتر ہو گا۔ مسلمان اگر اللہ کے دین ( ایک مکمل ضابطہ حیات ) کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقہ ہائے زندگی کی پیروی کرنا شروع کر دیں ، احکام الٰہی کو دنیا کی متاعِ قلیل اورذلیل ترین دنیوی فوائد کی خاطر قربان کرنا شروع کردیں، نظام حق کو نظام باطل کی ہر آلائش سے پاک و منزہ رکھنے کی کوشش کرنے کی بجائے الٹا ان کا باہم جوڑ ملانے کی کوشش کریں ، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ، وحدانیت کا زبانی اقرار کرنے کے باوجود اسکے سامنے عملاً سر تسلیم خم کرنے کو عار سمجھیں ، دنیا بھر میں اسلام اور اسکے فیوض و برکات کے وعظ کہتے پھریں لیکن خود اپنی ذات کو اس کے تابع کرنے کیلئے تیار نہ ہوں ، اقامت الصلوٰۃ پوری توجہ سے ادا کرنا تو درکنار ، نماز کو محض رسماً پڑھ لینا بھی اپنے لیے بار سمجھیں، آخر کس بنا پرہم لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمارا انجام اللہ تعالیٰ کے دین سے منحرف دوسری قوموں کے انجام سے بہتر ہوگا؟ مغضوب اورضالین لوگوں کی راہ پر چلتے ہوئے ہمیں وہ عزت ، سربلندی اوروقار کیسے حاصل ہوگا جس کا اللہ رب العزت نے ایک سچی مومن ومسلم امت سے وعدہ فرمایا ہے ؟
    اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ ہے۔ اگر نبی کا بیٹا سرکشی کرے تو ڈبو دیا جاتاہے، اگر نبی کی بیوی گمراہ ہو تو اسے غرق کر دیا جاتا ہے، اگر نبی کے عزیز و اقارب گستاخ ہوں تو ان پر لعنت کی جاتی ہے۔ ’’تبت یدا ابی لھب و تب‘‘ اے ابو لہب! تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں ، اپنی آل اولاد سمیت تباہ ہوجائے۔‘‘  وہاں صرف اور صرف اعمال کی بنا پر فیصلہ ہو گا نہ کہ نسل، نسب یا تعلق کی بنا پر۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق کسی نسل، نسب ، قوم یا خاندان کی بنا پر تو نہیں بلکہ صرف اس کی بندگی اور اس کے پیارے رسول کی اتباع کی صورت میں ہے جس کے ہم پہلے سے باغی ہیں ۔
    دین اسلام اور مسلمان ہونے کاصرف زبانی اقرار جس کی تائید اعمال و افعال سے نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں بلکہ یہ اس کی سخت ناراضگی، غصے اور غضب کا باعث ہے۔ صحیح اور سچا مسلمان بننے کیلئے ضروری ہے کہ دینِ حق کوصرف نظری اور اعتقادی حد تک ہی نہیں بلکہ اسے اپنے نظام ِحیات اور طرز زندگی کے طور پر اختیار کیا جائے۔اللہ تعالیٰ اکا دین پوری کی پوری انسانی زندگی پر محیط ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے کا پورا واجب الاطاعت ہے۔اس کاکوئی حصہ اختیاری نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ اتنا تو مانوں گا ، اتنے پر تو عمل کروں گا اور اتنے پر نہیں کروں گا۔ ان معاملات کی حد تک تو اس کی پیروی کروں گا اور ان کے سو اباقی معاملات میں اپنی یا کسی اورکی مرضی پر چلوں گا۔
     اللہ تعالیٰ کے دین میں سودے بازی اور کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ تو زندگی بسر کرنے کا ایک متعین طریقہ ہے اور ہر شعبۂ زندگی کیلئے واضح احکام و ہدایات جاری کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یا اس پر چلا جائے یا اس کو چھوڑ کر کسی اور طریقے پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات کسی درجے بھی قابل قبول تو درکنار قابل برداشت بھی نہیں کہ اسکے ساتھ ذات و صفات میں ، اس کے احکامات و ہدایات میں، اس کے طریق دین میں ، اسکے حقوق و اختیارات میں یا امر و نہی میں کسی جگہ بھی کسی دوسرے کو شریک کیا جائے۔اللہ رب العزت نے تو پوری انسانیت کو یہ دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا ہے :
    ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرمائے گا کہ کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا جائے ، اس گناہ کے مرتکب کے سوا وہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا اور جس نے کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا تو وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘(النساء116)۔
    اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ نظام میں غیر اللہ کے نظام کی کسی ادنیٰ سی بات کو شامل کر لینا بھی شرک ہے۔ آئو ! ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ ہم نے اللہ بزرگ و برتر کے دین میں غیر اللہ کے دین ( نظام ) کی کتنی باتوں کو شامل کر لیا ہے۔
    1۔  ہمارا اقتدار ِ اعلیٰ (حکومت بنانے کا ) پورے کا پورا نظام غیراللہ کا ہے۔
    2۔  ہمارا نظام ِمعاشرت ( رہن سہن کا طریقہ) غیراللہ کا ہے۔
    3۔  ہمارا نظام ِتعلیم غیر اللہ کا تعین کردہ ہے۔
    4۔  ہمارا نظام ِمعیشت غیراللہ کا ہے۔
     5۔  ہمارا عدالتی نظام غیراللہ کا ہے۔
     6۔  ہمارے ہاں جرائم کی سزا و جزا کا قانون غیراللہ کا تعین کردہ ہے۔
     7۔  ہمارا امن و عامہ ( پولیس ) کا نظام غیراللہ کا تعین کردہ ہے۔
     8۔  ہمارا کاروباری و دفتری نظام غیر اللہ کا ہے۔
     9۔  ہمارا نظام ِ بنکاری غیراللہ کا متعین کردہ ہے۔
    10۔  ہمارا عسکری و دفاعی نظام غیراللہ کا ہے، جہاد فی سبیل اللہ کا نام تک لینا گوارا نہیں۔
      11۔  ہماری خارجہ پالیسی غیراللہ کی متعین کردہ ہے، قرآن و سنت کوپس پشت پھینک کر مفاد پرستی، خود غرضی اور لالچ کو اہمیت دی گئی ہے۔
    12۔  ہماری شکل و صورت غیر اللہ کی ہے کہ ہمارے چہروں پر انبیائے کرام کی محبوب ترین سنت ، مسلمانوں کی پہچان ( داڑھی مبارک) کی توہین آمیز سوچ موجود ہے۔
    الغرض ہمارا کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہیں جس میں غیراللہ کا ہاتھ نہ ہو۔   
    اللہ کریم نے قرآن میں مسلمانوں کو واشگاف الفاظ میں نوٹس دیاکہ:
     ’’جس نے میری ہدایت (قرآن مجید) کی پیروی کی وہ نہ بہکے گا، نہ بھٹکے گااور نہ بد نصیب و بد بخت ہو گا، اور جس نے میرے ذکر (متعین کردہ ضابطۂ حیات) سے انحراف کیااس کے لئے اس کی معیشت، زندگانی تنگ ہو گی۔ ‘‘(طٰہٰ 124,123)۔
    یہ حقیقت آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔آپ دیکھیں اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی معیشت گر رہی ہے، روز بروز مسلمانوں پر زندگانی تنگ ہوتی جا رہی ہے تما م تر وسائل و ذرائع اور افرادی قوت ہونے کے باوجود۔ اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائیں، مغرب میں یورپ وامریکہ کی معیشت کو دیکھیں، مشرق میں جاپان، چین، آسٹریلیا کی معیشت، شمال میں روس کو دیکھیں، جنوب میں لاطینی امریکہ کے ممالک و جنوبی افریقہ کی معیشتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔
     درست ہے کہ فی زمانہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے، دنیا کا ایک چوتھائی ہے یعنی دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ ایسے ہی یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں کے پاس60کے قریب باقاعدہ آزاد اسلامی ریاستیں ہیں، جن میں سے بعض ممالک اقتصادی لحاظ سے کافی مضبوط ہیں اور وہاں قدرتی وسائل کی بھی فراوانی ہے۔ اس کے علاوہ جن ممالک میں حکومت مسلمانوں کی نہیں ، وہاں بھی مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ ہندوستان ، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور ایشیا و افریقہ کے ملکوں میں مسلمان بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ وہ اتنی کثیر تعداد میں ہونے اور بے پناہ قدرتی وسائل و ذرائع سے لیس ہونے کے باوجود پسماندگی و زبوں حالی سے اس درجہ دوچار ہیں کہ پسماندگی وپستی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
    ملت اسلامیہ کو پستی کی تہوں سے نکالنے میں نہ ہی ڈیڑھ ارب افراد پر مبنی آبادی متاثر کن ثابت ہورہی ہے ، نہ درجنوں مسلم حکومتیں مسلمانوں کو بحران سے نجات دینے میں معاون ثابت ہورہی ہیں اور نہ ہی تیل، پٹرول اور گیس اور دیگر معدنی وسائل ملت اسلامیہ کو ترقی دینے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ماضی میں صورتحال اسکے برعکس تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس افرادی قوت نہ تھی ، نہ ان کے پاس حربی سازو سامان تھا اور نہ ہی ان کے پاس قدرتی وسائل تھے، پھر بھی انہوں نے ترقی کے اعلیٰ مدارج کو طے کیا تھا اور عالمی سطح پر اپنا مقام بنا یا تھا۔دنیا بھر میں وہ شجاعت و بہادری میں تو مشہور تھے ہی ، لیکن سائنس، ٹیکنالوجی اور مختلف علوم میں بھی انہوں نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی تھی۔ ان کی تہذیب کے دنیا بھر میں چرچے تھے۔ ان کے عدل و انصاف کے اپنے وغیر سب قائل تھے۔ وہ ایک زندہ قوم تھے ، جو دنیا کی قیادت و امامت کرنے کیلئے پیدا ہوئے تھے۔
(جاری ہے)

 

شیئر: