Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یکجہتی

***جاوید اقبال***
برطانوی عجائب گھر میں تاریخ کی حشر سامانیاں انسان کی طلب جاہ و حشم کا مذاق اڑاتی ہیں۔ فراعنۂ مصر کی حنوط شدہ لاشیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اپنے ہم نفسوں پر ستمگری کرنیو الوں کا بالاخر انجام وہی ہوتا ہے جو خالق کائنات نے اس کیلئے لکھ رکھا ہوتا ہے۔ 
ہر دور میں اپنے آپ کو خدا سمجھنے والے اٹھتے رہے ہیں، ہر عہد میں کرۂ ارض پر حاکم ہونے کو اپنا حق سمجھنے والے آتے رہے ہیں لیکن بالاخر رزق گرد بن کر اپنی بے بسی کا ثبوت ہی دیتے رہے ہیں۔
برصغیر کے مسلمانوں کیلئے آزادی کے خواب کی تعبیر انتہائی دلکش تھی۔ ہم جہاں اکثریت میں ہیں وہاں کی زمین ہماری ہوگی۔ جہاں تم زیادہ ہو وہ تم رکھ لو۔ خوبصورت اور قابل قبول اصول تھا لیکن پھر 3 جون 1947ء سے 14 اگست تک اور پھر 27 اکتوبر تک کے فیصلے تاریخ اور جغرافیہ تینوں کو مسخ کرگئے ۔ میں آج تک یہ جان نہیں سکا کہ 1950ء میں کشمیر سے نکالے اور ممبئی ارسال کئے جانے کے وقت سے لے کر 1962ء میں اپنی موت تک کے 12 برسوں میں سابق مہا راجہ کشمیر ہری سنگھ کیا کرتا رہا تھا؟ اسے کیوں گوشۂ تنہائی میں پھینک دیا گیا۔ اسے کیوں صحافیوں کیلئے ناقابل رسائی بنادیا گیا تھا اور جب اس کا ’’دیہانت‘‘ ہوا تو کیوں اسکی میت پر پکار کر رونے کو کوئی نہ تھا۔ اس سب کاایک سبب تھا اور ہندوستانی حکومت اس سبب پر مہاراجہ کی زندگی میں اور پھر اس کی مو ت کے بعد بھی پردہ ڈالتی رہی اور وہ تاریکی کی چادر آج تک اس سبب پر تنی ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں کررہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کو کشمیر سے نکال کر ممبئی کے ہجوم میں کیوں گم کردیا گیا؟ اسکے لبوں پر کیوں چپ کی مہر لگادی گئی؟ بہت عرصہ سب راز رہا لیکن بالآخر تاریخ کے محقق نے سوال اٹھادیا ہے۔ میں اپنی بات کو واضح کرتا ہوں۔ ہندوستانی بیان کے مطابق جب اکتوبر 1947ء کے اواخر میں مجاہدین کے قدم کشمیر کے دارالخلافہ سرینگر کی طرف بڑھے تو مہاراجہ نے اپنی سلامتی کو خطرے میں محسوس کیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ سرینگر سے جموں چلا جائے چنانچہ 26 اکتوبر کی صبح کو اس نے سرینگر چھوڑ دیا اور اپنے قافلے کے ساتھ جموں کی طرف چل دیا۔ اسی سہ پہر کو اس سے جموں میں ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے نمائندے اور وزیر برائے ریاستی امور وی پی مینن نے ملاقات کی اور پہلے سے طے شدہ دستاویز الحاق پر دستخط کرالئے۔ یہ ہندوستانی حکومت کا دعویٰ ہے لیکن 26 اکتوبر کے دن اور اسکے اردگرد کے واقعات پر شکوک کی دھند ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ 26 اکتوبر کو موسم خراب تھا اس لئے سہ پہر تک مہاراجہ جموں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ دوسری بات قدرت اللہ شہاب کی تصنیف ’شہاب نامہ‘‘ سے واضح ہوتی ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ پرلے درجے کا عیاش تھا۔ شب بیداری اسکی گھٹی میں تھی۔ اس کی آنکھ دوپہر سے پہلے نہیں کھلتی تھی اس لئے یہ کہنا کہ وہ 26 اکتوبر کو صبح سویرے بیدار ہوکر بقائمیٔ ہوش و حواسِ خمسہ اپنے قافلے کو لے کر چل پڑا تھا، حقیقت سے بعید ہے۔
تیسری بات ناقدین نے یہ کہی ہے کہ وی پی مینن کو بعض لوگوں نے 26 اکتوبر کے دن دہلی میں دیکھا تھا اس لئے یہ دعویٰ کہ وہ 26 کی سہ پہر جموں میں تھا سچا نہیں۔ معروف مورخہ وکٹوریا شو فیلڈنے بڑی مہارت سے ان دونوں کے حالات کا تجزیہ کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ 565 ریاستیں اپنے الحاق کا خود فیصلہ کریں گی تو مہاراجہ ہری سنگھ مخمصے کا شکار ہوگیا۔ 9 کروڑ 90 لاکھ آبادی والی ریاستوں اور راجواڑوں میں سے اکثر نے پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کرلیا تھا تاہم کشمیر کا ایک مسئلہ تھا ۔مہاراجہ ہندو تھا جبکہ اس کی رعایا میں 84 فیصد مسلمان تھے۔پھر مہاراجہ نے پاکستان سے سمجھوتہ کر رکھا تھا کہ ریاست کو تجارت ، سفر اور مواصلات کی سہولیات بدستور پاکستان کے توسط سے حاصل رہیں گی۔ وکٹوریا شو فیلڈ لکھتی ہیں کہ اس سمجھوتے کی موجودگی میں مہاراجہ کا ہندوستان سے کسی بھی طرح کے معاہدے پر رضامند ہونا نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی قابل اعتراض تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ درحقیقت الحاق کی دستاویز تو وی پی مینن نے تیار کرلی تھی اور اسے اٹھائے پھرتا تھا لیکن اس پر مہاراجہ کے دستخط ثبت نہ ہوسکے تھے۔ ایک اور معروف برطانوی صحافی بیورلے نکلز جنہوں ے قائداعظم محمد علی جناح کا شہرہ آفاق انٹرویو کیا تھا، نے بھی دستاویز الحاق کی موجودگی پر شبہات کا اظہار کیاہے۔ انہوں نے یہ بڑا جائز سوال اٹھایا ہے کہ جب تحریک آزادی کے دوران تحریر کئے جانے والے کاغذ کے پرزے تک عجائب گھر میں محفوظ ہیں تو الحاق کی دستاویز کدھر گئی؟ اس کی ٹائپ شدہ شکل تو ہندوستان ہر ایک کو دکھاتا ہے لیکن اس پر مہاراجہ کشمیر کے کہیں دستخط نہیں ۔ بیورلے نکلز یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ الحاق کی دستاویز کہیں ہے ہی نہیں۔ تو یہ تو 26 اکتوبر کا غچہ ہوگیا جو ہندوستان دنیا بھر کو دیتا آرہا ہے۔
اب آتے ہیں 27 اکتوبر کے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے خط کی طرف جس میں یہ تحریر ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے الحاق کی منظوری دیدی ہے تاہم یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ جونہی جموں و کشمیر میں امن و قانون کی عملداری قائم ہو ریاست کے لوگوں میں استصواب رائے کرایا جائے اور وہی فیصلہ کریںگے کہ ہندوستان سے الحاق کریں گے یا پاکستان سے۔ اگر بقول ہندوستان الحاق کی دستاویز کو اس وقت کے گورنر جنرل نے قبول کرلیا تھا اور اس کی قبولیت کو ہندوستان نے بخوشی سند قبولیت عطا کردی تھی تو پھر ماؤنٹ بیٹن کے بیان کے اس نصف حصے کو کیوں ردی کی ٹوکری میں ڈالا جارہا ہے جس میں اس نے رائے شماری کرانے پر زور دیا تھا۔ اگر ہندوستان کے حیلے ، بہانے اور بیانات کو درست بھی مان لیا جائے تو ماؤنٹ بیٹن نے تو الحاق کی منظوری 27 اکتوبر کی سہ پہر کو دی تھی پھر 27 اکتوبر کو علی الصباح دستاویزکی حکومتی منظوری سے پہلے ہی ہندوستانی فوج کیا کرنے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتری تھی؟ ان 2 دنوں کا کسی بھی زاویے سے جائزہ لیا جائے  دستاویز مشکوک ہوتی ہے اور ہندوستان کی جموں و کشمیر پر جارحیت کا ثبوت ملتا ہے۔
عجائب گھروں میں حنوط شدہ لاشیں ، صدیوں قدیم کرم خوردہ اوراق اور زنگ کا مارا اسلحہ انسان کے انسان پر ستم کی داستانیںکہتے ہیں۔ ویت نام ، کانگو ، انگولا ، میانمار ، فلسطین ، کشمیر ، سب اشکوںکی داستانیں ہیں۔ زعفران زاروں میں آنسو بنی ابھری ہزاروں قبریں ، بندوق کے چھروں سے بے نور ہوتی آنکھیں ، گولیوں سے شکستگی کا شکار معصوم بدن ، خون ٹپک کر جم رہا ہے۔ ایک دن ، بہت جلد اسی لہو کی سرخی آزادی کی طلوع آفتاب کو شفق عطا کرے گی۔
ہم سب یکجہت ہیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں