Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میں نے یوں حُسن کی تشہیر نہ دیکھی تھی کبھی

شہزاد اعظم۔۔گزشتہ سے پیوستہ
غزل نے منظوم سوال کر کے اپنے شاعرکو ہی حیران کر دیا۔ اسے جواب دینے کے لئے میرے لفظوں کے تانے بانے ابھی اَدھر میں ہی تھے کہ اس نے اپنا ادھورا سوال یوں مکمل کر دیاکہ :
جوکیا تم نے تصو ر وہ ادھورا ہی رہا
کیا کسی خواب کی تکمیل نہ دیکھی تم نے
غزل کو منظوم جواب دینے کے لئے میں نے اپنی سچائی کو یوں نظم کیا:
بس رہی تھی پسِ تخئیل تمہاری صورت
میری ہر سوچ کی تشکیل، تمہاری صورت
ہوگئی حُسن کی تجمیل، تمہاری صورت
تھی میرے خواب کی تکمیل ،تمہاری صورت
میں نے غزل کو یہ حقیقت باور کرائی کہ خواب تو وہ دیکھتے ہیں جن کی ادھوری خواہشیں حسرت بن کر نہاں خانہ¿ دل میںسسک رہی ہوں۔تصورِ جاناں کے لئے آنکھیں تو میں نے بھی بند کی تھیں مگرہوا یوں کہ:
کھل گئی آنکھ اچانک تو غزل کو دیکھا
میں نے ایسی کوئی تحریر نہ دیکھی تھی کبھی
اس کا ہر حرف حقیقت تھا گہر کی صورت
میں نے یوں حُسن کی تشہیر نہ دیکھی تھی کبھی
خواب ناکام تمناﺅں کے دیکھے تھے بہت
میں نے اس طرح کی تعبیر نہ دیکھی تھی کبھی
یہ سن کر غزل نے کہا کہ آج تک شاعرکوغزل پر داد ملتی رہی ہے مگر آج اک غزل اپنے شاعر کو داد دے رہی ہے۔میں نے کہا کہ میں وہ خوش قسمت ہوں کہ جس نے ایک حَسین خواب دیکھا اور وہ حقیقت بن گیا۔ غزل نے کہا کہ اگر خواب حقیقت بن جائے تو انسان اپنے آپ کو خوش قسمت قرار دیتا ہے اوراگر حقیقت خواب بن جائے تووہ خود کو بد قسمت سمجھنے لگتا ہے۔اپنے شاعر سے میری التجا ہے کہ آپ کی غزل ایک حقیقت ہے، اسے کبھی ”خواب“ نہ ہونے دینا،یہ کہتے ہی اس کی دونوں آنکھوں سے ایک ایک آنسو گالوں پر بہہ نکلا، ایسا لگاجیسے گلاب کی پنکھڑی پرحروف کی طرح ٹھہرے شبنم کے ننھے ننھے قطرے، بامعنی لفظ بن کر بوندوں کی شکل میں زمیں بوسی کے سفر پر نکل پڑے ہوں۔یہ منظر دیکھ کر میں بھی آبدیدہ ہو گیا، مجھے ایسا احساس ہوا جیسے غزل کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو، زمیں پر گرنے سے پہلے ہی میری آنکھوں نے چُن لئے۔
آج غزل کی آنکھوں میں شرارتی چمک تھی، جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا، وہ تنک کر میرے سامنے آکھڑی ہوئی اورکسی سپہ سالار کی چھڑی کی طرح طویل پنسل ہاتھ میں لے کر اس کا ایک سِرا انتباہی انداز میں میرے شانے میں چبھوتے ہوئے حکم صادر کیا کہ کل آپ اس گھر میں قدم نہیں رکھیں گے۔ میں نے اس ”سزا“کا موجب بننے والے جرم کے بارے میں استفسار کیا توجواب ملا کہ آج 20اپریل ہے ،22کو ہمارے نکاح کی پہلی سالگرہ ہے اور نکاح سے پہلے کسی دولہا کواپنی ہونے والی دلہن دیکھنے کی اجازت نہیںدی جاتی اور آپ تو ویسے بھی اپنی دلہن کو ”بِن جھپکی “ آنکھوں سے دیکھنے کی علت کا شکار ہیں،اس لئے مابدولت شاعر کو حکم دیتے ہیں کہ وہ 21اپریل کو” سلطنتِ غزل“ میںدکھائی نہ دیں۔“
21اپریل میرے لئے عجیب دن تھا،اس روزمیں نے 24گھنٹے کے لئے اپنے آپ کو”بے غزل شاعر“سمجھ لیا۔بس پھر کیا تھا ایسا محسوس ہوا جیسے کائناتِ ہستی رنگوں سے تہی ہے، بات بات پر توتکار کوجی چاہ رہا تھا۔راہ چلتے زن و شو کو ہمقدم دیکھ کر دل سے آہ اور زبان سے کراہ نکل رہی تھی۔دل کی عدالت میں جذبات کا وکیل جرح کر رہا تھا کہ آخر نکاح کی سالگرہ منانے کی ضرورت کیا تھی اور اگر منانی ہی تھی تویہ خواہ مخواہ کی پابندیاں لگانے کی ضرورت کیا تھی۔دوسری جانب عقل کا وکیل یہ دلیل دے رہا تھا کہ تشفی پر شکر اور عدم تشفی پر صبر کرنا چاہئے کہ یہی بُردباروں کا شیوہ ہے۔ان غیر مرئی وکلاءکی یہ جرح سارا دن اور رات بھر جاری رہی۔22اپریل کا سورج طلوع ہوا، میرے ذہن و دل میں شادیانے بج رہے تھے ۔ یوںلگ رہا تھا جیسے ایک صدی کے بعد شاعر اپنی غزل سے ملے گا۔ آج مجھے ہر ”بے غزل شاعر“ پر رحم آ رہا تھا۔اسی اثناءمیں فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور”مسماع الصوت“ کان سے لگایا ، دوسری جانب سے غزل کی مترنم آواز آئی کہ اے مرے شاعر:
”چلے آﺅ مری آنکھیں تمہیں بس دیکھنا چاہیں“ 
(باقی آئندہ)
 
 

شیئر: