Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دین میں شدت پسندی کا نتیجہ بدی کے سوا کچھ نہیں

عبداللہ فدعق ۔ الوطن
اس میں کوئی شک نہیں کہ شدت پسندی دہشتگردی کو تخلیق دینے والی انتہا پسندی کی حلیف ہے۔ مغربی دنیا میں اسے دین اسلام کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے مگر مسلمانوں کی کمزوری نے مغربی دنیا کے ذہنوں میں اس اصطلاح کو مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالدیا ہے۔ ہم لوگ اس ظالمانہ الزام کو تبدیل بھی کرسکتے ہیں اور الٹنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ہم لوگ شدت پسندی سے پیدا ہونے والی خرابی کو جان کر اس بھول بھلیوں سے نکل بھی سکتے ہیں۔شدت پسندی کے یہ اسباب بہت سارے ہیں۔ فکری تشدد اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بغیر اسکی اطاعت اور سخت ماحول اس کے اہم اسباب ہیں۔نصاب تعلیم میں خرابی خصوصاً فرقہ وارانہ تصنیفات میں اس کا رواج شدت پسندی کے بنیادی محرکات میں شامل ہے۔ افکار میں شفاف توازن اور معقول پیغام استعمال کرکے ہم اپنی آرزوئیں پوری کرسکتے ہیں۔ انتہا پسندی اور شدت پسندی سے آزاد ماحول میں زندگی گزار سکتے ہیں۔ خون خرابے اور لڑائی جھگڑے سے دور ماحول میں رہ سکتے ہیں۔ خوبصورت مذہب اسلام صاف ستھرے دل اور روشن ذہن کے مالک مسلمانوں کے خلاف خارجی یلغار کی آگ شدت پسندی اور انتہا پسندی ہی سے بھڑک رہی ہے۔ انسانوں کے درمیان تفرقہ و امتیاز اور نفرت پیدا ہورہی ہے۔ یہ آرزو کہ ہم لوگ شدت پسندی اور انتہا پسندی کے بغیر زندگی گزاریں اسکا حصول ناممکن نہیں۔ ہم لوگ شدت پسندی کے رواج سے ہمیشہ دستبردار ہوکر رہ سکتے ہیں۔ اس کے اقتصادی حل بھی ہیں۔ امن و امان والے حل بھی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اصول پسندی اور معقولیت پسندی سے کام لیا جائے۔ سماجی انصاف کو فروغ دیا جائے۔ فکری آزادیوں کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ کوئی بھی کسی بھی سمجھدار انسان کو اس بات میں رتی برابر شبہ نہیں کہ دین اسلام کو اچھی طرح سمجھ کر زندگی کے مختلف شعبوں کے عملی اور دقیق ترین حل نکالے جاسکتے ہیں۔ جو لوگ اختلاف کرتے ہوئے اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جو لوگ دیندار ی، انتہا پسندی اور سخت گیری کے دعویدار ہیں وہ ایسا کوئی حل پیش نہیں کرسکتے۔ 
خوبصورت اسلام پیارا ہے۔ اس نے فرد اور معاشرے دونوں کے حقوق و فرائض متعین کئے ہیں۔ اجتہاد میں جمود اندھی تقلید پر ضد او ردینی امو رمیں ناحق الزام تراشی نے بحران کھڑے کررکھے ہیں۔ مسلمہ قاعدہ ہے کہ اختلافی امور پر نکیر نہیں کی جاسکتی۔ نکیر صرف اس صورت میں ہوگی جبکہ کسی بات پر سب کا اتفاق ہو۔عصر حاضر کے مسائل کا اسلامی حل جدید فکر اور قدیم فکر کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرکے نکالے جاسکتے ہیں۔ یہ اصول بھی مسلم ہے کہ ماحول عادات اور رواج کی بنیاد پر تبدیل ہونے والے شرعی احکام پر کسی کو کسی کے خلاف زبان چلانے کی اجازت نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: