Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ نہیں سگریٹ آپ کو پیتا ہے !

*** وسعت اللہ خان***
  بڑا عجیب سا لگتا ہے جب تمباکو نوشی کے مضر اثرات پر سب سے زیادہ تنقید انہیں کرتے دیکھتا ہوں جنہوں نے کبھی سگریٹ کا کش تک نہیں لیا۔ ایسوں کو سمجھایا بھی نہیں جا سکتا کہ عشق اور اسموکنگ بس لاحق ہوجاتے ہیں۔عشق کا بھوت تو دیر سویر اتر ہی جاتا ہے ( سب سے آسان طریقہ شادی ہے ) لیکن ا سموکنگ ایک جان لیوا محبوبہ ہے۔آدمی کو معلوم  ہے کہ وہ کس راستے پے چل رہا ہے پھر بھی زہر میں بجھی حسینہ  کا ہاتھ تھامے رکھتا ہے۔ اپنے خرچے پر بیمار ہوتا ہے اور دوسروں کے خرچے پر مر بھی جاتا ہے۔
سچا عاشق ہے ا سموکر اُسے نہ کوئی سمجھا سکتا ہے نہ ڈرا سکتا ہے جب تک وہ خود نہ سمجھنا یا ڈرنا چاہے۔
آپ بھلے اینٹی ا سموکنگ سیمینار ، ورکشاپس ، واکس کرتے رہیں۔سگریٹ کی اشتہار بازی بند کردیں۔سگریٹ کے ہر پیکٹ پر کینسر سے کٹے جبڑوں کی رنگین تصاویر چھاپتے رہیں اور یہ وارننگ بھی موٹے موٹے لفظوں میں لکھتے رہیں کہ خبردار تمباکو نوشی مضرِ صحت ہے۔عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کو قابلِ سزا قرار دے ڈالیں۔ہر سال اس پے ٹیکس اور ڈیوٹی بڑھاتے چلے جائیں۔سگریٹ نہ پینے والوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے رہیں کہ سالانہ 60 لاکھ افراد دنیا بھر میں ا سموکنگ کے نتیجے میں کینسر اور دل کی بیماریوں سے مرجاتے ہیں اور ان میں وہ 6 لاکھ بھی شامل ہیں جوا سموکرز نہیں لیکن ا سموکرز کے دھوئیں کے سبب بیماریاں گلے لگا کر بے موت مارے جاتے ہیں۔یا پاکستان میں گزشتہ16 برس میں اگر60 ہزار افراد خودکش حملوں ، بم دھماکوں ، فرقہ وارانہ حملوں یا کراچی میں رہنے کے سبب مرے ہیں تو انہی 15برس میں 25 لاکھ پاکستانی تمباکو سے مرے ہیں۔ دہشت گردی کیلئے تو نیشنل ایکشن پلان بن گیا  پرا سموکنگ اسلئے قومی سلامتی کیلئے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سگریٹ پھٹتی نہیں ہے۔
کچھ بھی کرلیں۔جس نے کرنی ہے وہ کرکے رہے گا۔بڑھیا برانڈ خریدنے کی استطاعت نہیں ہوگی تو گھٹیا  پر اتر آئے گا۔20 سگریٹ کا پیکٹ خریدنے کی اوقات نہیں ہوگی تو 10 خرید لے گا مگر آپ اسے ڈرا  دھمکا کر یا پیار محبت سے پچکار  کے ترک نہیں کروا سکتے۔کیا آپ بھول گئے کہ سگریٹ نہ پینے والوں نے سگریٹ نوشوں کے ساتھ ویسا ہی دھوکہ کیا جیسے امریکہ نے افغان مجاہدین کے ساتھ کیا۔پہلے انہیں کہا گیا کہ بندوق اٹھا لو اور جہاد کرو۔جب انہوں نے بندوق اٹھالی اور وہ اس کے استعمال کے عادی ہوگئے تو پھر ان سے کہا کہ بندوق رکھ دو کیونکہ اب اس کا استعمال جہاد نہیں دھشت گردی ہے
برِ صغیر کا انسان100 برس پہلے تک  بیڑی پیتا تھا یا پھر حقہ۔پھر برطانوی سگریٹ ساز کمپنیاں ہمیں فتح کرنے آ گئیں۔پہلی عالمگیر جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کو بتایا گیا کہ سگریٹ بے چینی کو کم کرتی ہے۔انہیں بیڑی کے بجائے سگریٹ کا کوٹہ ملنے لگا۔مختلف کمپنیوں نے مارکیٹ پر قبضہ کرنے کے لئے عوام الناس کو مفت سگریٹ پیش کرنا شروع کی۔یہ سینہ گزٹ بھی جاری ہوا کہ کش لگانا پیٹ کے اپھارے کے لئے مفید ہے۔روسا نے جب سونے چاندی کے خوشنما سگریٹ کیس رکھنے شروع کئے تو  ہر کش و نا کش میں اشرافی رومان پیدا ہوتا چلا گیا۔تب تک یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ سگریٹ کے تمباکو سے زیادہ مضر تو وہ کاغذ ہے جس میں تمباکو لپیٹا جاتا ہے۔
کیا تمباکو نوشی کو ہالی وڈ کی 40 تا 70 کے عشرے کی فلموں  نے ہیرو پنتی کی نشانی نہیں بتایا تھا ؟ کیا کھیلوں کی کروڑوں روپے کی اسپانسر شپ کش لگانے والوں نے سگریٹ ساز کمپنیوں کے حوالے  کی تھی ؟ کیا سگریٹ نوش خواتین کو جدت ، آزادی اور فیشن کی نشانی غفور بیڑی فروش نے قرار دیا تھا ؟ کیا سگریٹ کی صنعت سے حاصل کردہ اربوں ڈالر کے ٹیکسوں سے حکومتوں نے اپنی تجوریاں بھریں یا ان میں سے کچھ رقم تمباکو نوشوں کی فلاح پر بھی خرچ کی ؟  پاکستان کے طول و عرض میں ایسا کون سا سگریٹ فروش کھوکھا ہے جہاں اسمگل شدہ بین الاقوامی برانڈ دھڑلے سے نہ ملتے ہوں۔ان میں سے کچھ برانڈ تو مقامی برانڈز سے بھی سستے ہیں۔سگریٹ اسمگلنگ اربوں روپے کا دھندا ہے۔اور اربوں کا دھندا کوئی ایسا شخص نہیں کر سکتا جس کی پشت پر طاقت اور قانون کی لاقانونیت کا ہاتھ نہ ہو۔کھوکھے والا غریب تو محض انتہائی نچلی سطح کا  معمولی کل پرزہ ہے۔تو کیا ہر سال پاکستان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پردے میں کروڑوں ڈالر کی سگریٹیں مشتاق چرسی ا سمگل کرواتا ہے ؟ 
اور اب وہی لوگ ، وہی حکومتیں ، وہی میڈیا  کہہ رہے ہیں کہ تمباکو نوشی مت کرو یہ تو خود کشی ہے۔اچھا تو اگر خودکشی ہے تو پھر یہ آلہِ خودکشی جگہ جگہ کیوں دستیاب ہے ؟ کیا خنجر پر یہ لیبل چپکانے سے  دھار کند ہوجاتی ہے کہ خبردار اسے اپنے یا کسی کے پیٹ میں گھونپنا منع ہے۔یا تو بھوٹان کی طرح سگریٹ پر ہی پابندی لگا دیں یا پھر بک بک سے پرہیز کریں۔اگر آپ ریونیو کے لالچ میں سگریٹ سازی بند نہیں کروا سکتے تو پینے والوں کو کس لئے لعن طعن اور خوفزدگی  کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
میں نے28 برس سگریٹ پی اور 6 سال پہلے چھوڑ دی۔اس لئے نہیں کہ میں یہ سن کر لرز گیا تھا کہ ہر سال ایک لاکھ80 ہزار پاکستانی تمباکو نوشی سے مرجاتے ہیں بلکہ اس لئے چھوڑی کہ میرے سال بھر کے بچے نے منہ سے آنے والی تمباکو کی تیز بو سے گھبرا  کے میری گود میں آنا چھوڑ دیا تھا۔اس لئے چھوڑی کہ ہر سردیوں میں میرا سینہ شدید کھانسی سے کھوکھلا ہوجاتا تھا۔سگریٹ کے دھوئیں نے میری زبان پر موجود زائقہ محسوس کرنے کے ہزاروں مسام بند کردئیے تھے۔
مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر10 برس بعد بھی میں نے خود سے یا کسی کے اصرار پر ایک سگریٹ پی لی تو  اگلے دن پورا پیکٹ میری جیب میں ہوگا۔سگریٹ نوش حالتِ ترک میں بھی مرتے دم تک ریڈ زون میں رہتا ہے۔اور یہ وہ ریڈ زون ہے کہ اس میں سے کسی کا شاہد خاقان عباسی بھی باہر نہیں نکال سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شیئر: