Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ ’’کام تمام‘‘ کر کے جوتے کھاتے ہیں،ہم جوتے کھا کر ’’کام تمام‘’ کر تے ہیں

شہزاد اعظم
ہم اپنے معاشرے میں جدھر بھی نظر ڈالیں بہت سے لوگ، صرف دنیاوی معاملات میں، مغرب کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں اس کے باوجود تقلیدِ مغرب کو ’’عیب‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔ہم نے مان لیا کہ مشرقی اقدار کے امین ہونے کے ناتے ہمیں مغرب کی تقلید ہرگز نہیں کرنی چاہئے لیکن اس کے لئے ہمیں آپنے آپ کو قابل تقلید بنانا ہوگا۔آئیے ذرا اپنے اور مغرب کے معاشرے کا تقابلی جائزہ لیں:
مغربی ممالک میں اگر کوئی شخص موت کے منہ میں چلا جائے تو اس کی ’’نئی نویلی بیوہ‘‘میت کے سرہانے کرسی بچھا کر بیٹھ جاتی ہے اور دودھ کے دھلے چہرے پر آنکھوں سے انتہائی سلیقے کیساتھ بہہ نکلنے والے آنسوؤں کو صاف ستھرے رومال میں جذب کرتی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی مستقبل کو ’’حسین تر‘‘ بنانے کی منصوبہ بندی کرتی جاتی ہے کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ ’’سرسلامت ہونا چاہئے، تاج بہت مل جاتے ہیں‘‘۔جب ہم جیسا کوئی شخص اس بیوہ کے آنسو دیکھتا ہے تو اس کا دل بلیوں اچھل اچھل کر بلوُں بلوُںکرتا ہے اور وہ غیر ارادی طور پر دھاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ بیوہ ہی اسے چپ کرانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ادھر ہمارے ہاں اگر کوئی شخص دار فانی کو خیرباد کہہ جائے تو اس کی بیوہ میت کے سرہانے زمین پر بیٹھی منہ پھاڑ پھاڑ کر اس طرح روتی ہے، آنکھ اور ناک سے انتہائی بے ڈھنگے انداز میںبہنے والے آنسوؤںکوپونچھ پونچھ کر وہ دوپٹے کے پلوتر کر لیتی ہے۔اس قسم کی ’’انتہاء پسندانہ‘‘ چیخ پکارسننے والے کو غیر ارادی طور پر غصہ آ جاتا ہے۔وہ بڑبڑاتا اورپیر پٹکتاہوا کمرے سے نکل جاتا ہے۔بیوہ کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ تاج  نہ رہے تو سرکی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
مغربی ممالک میں مرد کی شادی نوجوانی میں ہی ہو جاتی ہے ۔وہ بہت خوش ہوتا ہے ۔اسے اپنی زندگی حسین لگنے لگتی ہے۔وہ کہتا ہے کہ کاش میں شادی بہت پہلے کر لیتا، میں نے کنوارہ رہ کر خواہ مخواہ ہی وقت برباد کیا۔پھر ان کے ہاں جب بچہ ہوتا ہے تو وہ آنکھ کھول کر اپنی ماں کو دیکھتا ہے، کلکاری مارتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ میں گورے چٹے اور حسین والدین کے ہاں پیدا ہوا ہوں۔ہمارے ہاںمرد کی شادی نوجوانی تو کیا جوانی کی آخری منازل میں ہوتی ہے کیونکہ وہ روزگار کی تلاش اور پھر شادی کے لئے پیسے جمع کرنے کی کوششوں میں30،35کا ہو جاتا ہے اور لوگ اسے ’’انکل‘‘ کہنے لگتے ہیں۔بڑے ارمانوں کے بعد جب اس کی شادی ہوتی ہے تو اسے زندگی ’’بوجھ‘‘ لگنے لگتی ہے۔وہ بجھا بجھا رہنے لگتا ہے اور سوچتا ہے کہ کنوار پن کا دور کتنا اچھا تھا۔کاش میں دس بارہ سال اور شادی نہ کرتا۔پھر جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ آنکھ کھول کر اپنی ماں اور باپ کو دیکھتا ہے اور کلکلاتا ہے اور سوچتا ہے کہ ’’میں کتھے پھنس گیا واں؟‘‘
مغرب میں لوگ اپنی قومی زبان بولتے ہیں اور اغیار کی زبان سیکھتے سیکھتے مر جاتے ہیں۔ہمارے ہاںکے لوگ اغیار کی زبان بولتے ہیں اور قومی زبان قبر میں پہنچنے تک بھی نہیں سیکھ پاتے۔وہ لوگ دوسروں کے گلے کاٹتے ہیں اور اپنوں کو گلے لگاتے ہیں۔ہم اپنوں کے گلے کاٹتے ہیں اور دوسروں کو گلے لگاتے ہیں۔اُدھر وہ ہیں جو عوام کی خدمت کے لئے سیاست کرتے ہیں اوراِدھر ہم ہیں جو سیاست کے لئے عوام کی ’’خدمت‘‘ کرتے ہیں۔اُن ممالک میں جو لیڈر بن جاتا ہے اسے عوام منتخب کر لیتے ہیں۔ہمارے ہاں جو منتخب ہوجا تا ہے اسے عوام لیڈر بنا لیتے ہیں۔وہ لوگ ’’کام تمام‘‘ کر کے جوتے کھاتے ہیں اور ہم جوتے کھا کر ’’کام تمام‘’ کر دیتے ہیں۔وہ سوچ کر بولتے ہیں اور ہم بول کر سوچتے ہیں۔وہ جاہل ہو کر بھی پڑھے لکھوں جیسی باتیں کرتے ہیں اور ہم پڑھے لکھے ہو کر بھی جاہلوں کی سی باتیں کر لیتے ہیں۔وہ لوگ منفی باتوں میں مثبت پہلو نکالتے ہیں اور ہم مثبت امور میں منفی پہلو تلاش کرتے ہیں۔
یہ فہرست بہت طویل ہے۔آئیے اب ذرا افراد کی بجائے قوم کی سطح پر دیکھیں ۔گزشتہ صدی میں ایک جنگ کے دوران پاکستان نے 17روز کے اندر ہی دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔جب دشمن نے محسوس کیاکہ اس کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے تو اس نے ’’بڑوں‘‘ سے رابطہ کیاجنہوں نے فوری طور پر جنگ بند کرنے کا انتباہ کیا۔ہم نے انتہائی فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا اور حکم بجا لاتے ہوئے ایک تیسرے ملک میں جا کر معاہدہ کر کے چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔یہ ہمارا کردار تھا اب دیکھئے ’’سپر پاور‘‘ کا کردار کہ اس نے مسلم ملک پر دھاوا بولا، اسے منع کیا گیا،عالمی، علاقائی، ذاتی اورانسانی معاہدے یاد دلائے گئے مگر اس نے ایک نہ مانی ۔لاکھوں بے گناہوں کا خون بہا یا اور یہی نہیں بلکہ اس ’’قتل عام‘‘ کو دیگر ممالک تک پھیلا دیا۔اس کی دیکھا دیکھی بہت سی ’’مینڈکیوں‘‘ کو بھی زکام ہو نے لگا۔
کتنا فرق ہے مشرق کی اقدار کے امین لوگوں اور مغرب کے رویوں میں۔افسوس یہ ہے کہ ہم افراد کی سطح پر مغرب کی تقلید کرتے ہیں، اگر ہم نے افراد کی بجائے قومی سطح پر مغرب کی تقلید کی ہوتی تویقین کیجئے، کسی مینڈکی کو زکام نہ ہوتا۔
 

شیئر: