Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز مشرف قومی لیڈر بن سکیں گے؟

***سید شکیل احمد ۔پشاور***
الیکشن کے دن گنے جا چکے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات قریب تر ہو تے جارہے ہیں۔ ایسے میں پلس مائنس کا کھیل بھی جا ری وساری ہے۔ ایم کیو ایم میں ڈبل مائنس ہو گیا ۔کہنے کو تو کہا جار ہا ہے کہ ایم کیو ایم بکھر گئی ،کیسے بکھر ی اور کس نے یہ کام کیا یہ باتیں اس مو قع کی نہیں تاہم برقی اور ورقی ذرائع ابلا غ کا ڈھنڈور ا ہے کہ ایم کیو ایم پی آئی بی کا لو نی اور بہا در آبا د کے حلقو ں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ یہ بات تو اس حد تک ٹھیک ہے کہ آنکھ کی پتلی کو بظاہر ایسا ہی منظر دکھا یاجارہاہے مگر اصلی پلس مائنس گروپ دبئی میں ہے جس کے بار ے میں یقین ہے کہ بہادر آباد گروپ کو وہی بڑھا رہا ہے ۔ 
سابق صدر پرویز مشرف کی جب احمد رضا قصوری سے قربت تھی تو اس وقت وہ مشرف کی وکالت ہی نہیں کیا کر تے تھے بلکہ ان کی سیا سی ساکھ کی بڑھوتری بھی کر تے تھے ۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر فروغ نسیم نے احمد رضا خان کی کا وشو ں پر پر ویز مشرف کا مقدمہ اپنے ہا تھ میں لیا تھا۔ اس طرح پر ویز مشرف کو ایم کیو ایم میں براہ راست دخیل ہو نے کا مو قع ملا تھا۔سمجھا یہی  جاتا تھا کہ الطاف حسین کی حرکتو ں سے ایم کیو ایم پر جو داغ لگا ہو ا ہے وہ پر ویز مشرف کی قیاد ت کی وجہ سے دھل جا ئے گا ۔
جب الطاف حسین کو مائنس کیاگیا تو حالات کو سنبھالا دینے کی غر ض سے بہا در آبا د گر وپ نے ڈاکٹر فاروق ستا رکی قیا دت کو اسلئے قبول کیا کہ ان کے ذریعے دامن نچو ڑا جا سکتا تھا۔ اس وقت بھی یہ تجو یز دی گئی کہ پر ویز مشرف کو قیادت سونپ دی جا ئے مگر ملک بھر میں پر ویز مشرف کو جس نظر سے دیکھاجا تا ہے اس بنا ء پر بات آگے نہ بڑھ پائی 
پا کستان میں اب الیکشن کا موسم شروع ہے۔سیاسی میلہ زورو ں پر ہے ۔یہی مناسب سمجھا جا رہاہے کہ خوف زدہ پر ویز مشرف جو پا کستا ن آنے کی ہمت کر نہیں پار ہا اس کو بچاؤ کا راستہ کر اچی میں ہی مل سکتا ہے اور ایسا تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت میں ہو جو اسٹریٹ پا ور کی صلا حیت سے بھر پو ر ہو ۔یہا ں یہ سوال ہے کہ کیا پر ویز مشرف ایم کیو ایم کی قیا دت سنبھا ل کر قومی لیڈر بن پائینگے؟ ایم کیو ایم میں انکے چہیتو ں کا گما ن ہے کہ پرویز مشرف کے آنے سے ایم کیو ایم پر جو یہ داغ لگایا جا تا ہے کہ وہ ہند کی ایجنٹ ہے دھل جا ئیگا ۔ جو بھی صور تحال ہو یہ حقیقت ہے کہ الطا ف حسین کو مائنس کر نے کے بعد بھی ایم کیو ایم کا بینک آف ووٹ الطا ف حسین کی مٹھی میں ہی ہے ۔
دبئی گر وپ نے مصطفیٰ کما ل کے ذریعے کما ل کر نے کی سعی لا حاصل کر کے بھی دیکھ لیا ،کوئی نتیجہ بر آمد نہیںہو ا۔فاروق ستا ر بہت بڑے محب وطن بن کر ابھر ے مگر وہ بھی الطا ف حسین کے خلا ء کو پر نہیں کر سکے۔ ایم کیو ایم میں تو ڑ پھوڑ کا عمل جو دبئی سے کیا جا رہا ہے، وہ اپنی جگہ لیکن ایک اور کھیل بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ یہ ہے کہ عام انتخابات کے متو قع ہو نے سے پہلے سیا سی جماعتو ں میں پارلیمانی سطح پر جو شکست وریخت کا عمل شروع ہو ا ہے یا کیا گیا ہے اسکے بہت دور رس نتائج نکل رہے ہیں۔
واضح ہو رہا ہے کہ کچھ پس پر دہ سینیٹ کے انتخابات میںمسلم لیگ(ن) کی اکثریت کو بلا ک کرنے کی غرض سے جو پا رلیما ن میں انجینیئرنگ کر رہی ہیں، اس میں ایک سیا سی جما عت کو فائد ہ پہنچا یا جا رہا ہے ۔بلو چستان اسمبلی میں پی پی کا ایک رکن اسمبلی نہیں لیکن وہا ں جو حکومت کی تبدیلی کا کھیل ہو ا اسکے نتیجے میں اب پی پی کو وہاں سے کم از کم ایک سینیٹ کی نشست حاصل ہو جا ئیگی۔ گویا پی پی کا مقتدر قو ت کے ساتھ این آر او ہو گیا ۔ ایم کیو ایم کے بکھر نے کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ بھی اس امر کے غماز ہیں کہ ایم کیو ایم کے نئے بحران سے پی پی کو سینیٹ میں بھی فائد ہ مل جا ئیگا ۔ عام انتخا با ت کا انعقاد اپنے وقت پر ہو گیا تو پی ٹی آئی کی بھی سند ھ خا ص طور پر کراچی سے نشستیں حاصل ہو نے میں ایک حدتک کا میا بی مل جا ئیگی ۔
پی پی کے رہنما جب غیر سیا سی بیا ن دیتے ہیںتو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ان کو پو را حساب کتاب مل گیا ہے۔ وہ حساب کتا ب ہی کی روشنی میں اعدا د وشما ر گنو اتے ہیں ۔خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کو عینک لگا کر دیکھنا ہوگا ۔گویا کسی بینا کو تا ریخ دکھ نہیں رہی۔ سینیٹ کے الیکشن کے مو قع پر تو ڑپھو ڑ جاری ہے۔ مثلا ًکے پی کے میں بھی اسکے آثار نظر آرہے ہیں۔ قومی وطن پارٹی کی کے پی کے اسمبلی میں 10 نشستیں تھی اب وہ 7 رہ گئی ہیں۔ظاہر ہے کہ ما ضیٔ بعید اور قریب میں پی ٹی آئی نے قومی وطن پا رٹی کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اس میں اِن دونو ں جما عتو ں کا یکجا ہو نا مشکل ہی نہیںنہ ممکن بھی ہے اور اگر ہا تھ ملا ئی رسم کوئی ہو سکتی ہے تو وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے یا پھر جے یو آئی کے ساتھ۔ جو 3 ارکان قومی وطن پارٹی سے ٹوٹے ہیں اسکا فائد ہ پی ٹی آئی اور پی پی کے کھاتے میں جا رہا ہے ۔ 
حا لا ت و واقعا ت کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ تو ڑ پھوڑ جا ری رہی تو اس سوچ کو دھچکا لگے جن کا خیال ہے کہ سینیٹ کے انتخابا ت کے بعد مسلم لیگ (ن) کو یہ حیثیت حاصل ہو جا ئیگی کہ وہ آئین میں اپنی خواہش کے مطابق ترمیم لا سکے گی ۔ اس بات کا مکا ن بڑھ جائیگا کہ نواز شریف کو چوتھی مر تبہ وزیر اعظم منتخب کیا جا سکے گا لیکن نو از شریف پر اہلیت کی مد ت کی تلو ا ر لٹکی نظر آرہی ہے۔ بہر حال اگر جو ڑ تو ڑ کا یہ تانا بانا چلتا رہا تو سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کو خسار ے کا سامنا کر نا پڑ جائیگا۔ اب پی پی کے سربراہ آصف زرداری بھی فرما رہے ہیں کہ آئند ہ پا رلیمنٹ لٹکتی جھٹکتی آئیگی جس کو انگریز میںہنگ پا رلیمنٹ کہاجا تا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مخلو ط حکو مت بنے گی اورپی پی اس پوزیشن میں ہو گی کہ وہ کسی جما عت کے ساتھ مخلو ط حکومت بنا لے۔ اسے بلی کے خواب میں چھیچھڑے تو نہیںکہا جا سکتا مگر حالا ت و واقعات دوسرے حقائق کے حامل ہیں جس کی ایک واضح تصویر لو دھراں کے ضمنی انتخاب نے کھینچ دی ہے جہا ں یہ کہنا کہ تحریک انصاف کو شکست ہوئی ہے اتنا درست نہیں بلکہ نتیجہ یہ کہہ رہا ہے کہ ایسے میں نو از شریف کے ووٹو ں میں اضافہ ہی ہو تا جارہا ہے۔ جہا نگیرترین تقریباً 40 ہزار ووٹو ں کی اکثریت سے کا میا ب ہو ئے تھے۔ مسلم لیگ کا امید وار علی ترین سے تقریباً 30 ہزارووٹو ںکی اکثریت سے کا میا ب ہو ا ہے ۔یہ اعداد وشما ر کا کھیل ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جہا نگیر تر ین کی 40 ہز ار کی برتری کم ہوئی اور اسکے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے امید وار کو 30 ہزار کی مزید برتری حاصل ہوئی گویا نو از شریف کے ووٹوں میں70 ہز ار ووٹو ں کا اضافہ ہوا ۔یہ پی ٹی آئی کیلئے ایک بڑی چو ٹ ہے ۔ اگر یہی صورت حال رہی تو مقتدر قوتو ں کے باؤنسر سلپ پر پھسلتے رہیں گے ۔ مسلم لیگ (ن) کے چوکے چھکے بڑھتے رہیں گے ۔
 

شیئر: