Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاپاجی

***شہزاد اعظم***
صرف 2روز قبل ہم انتہائی قلبی مسرت کے جلو میں تھے۔ ہمارے برادرِ عظمیٰ جو پہلی دنیا کے باسی ہیں، چند روزہ چھٹیاں گزارنے کیلئے ایک ایسے وقت میں وطنِ عزیزتشریف لائے جب ہم بھی اپنے ’’آبائی گائوں‘‘پہنچ چکے تھے۔بس پھر کیاتھا، ہم دونوں’’معمرین‘‘ ایک دوسرے سے بغلگیرہوئے۔ہم سمجھ رہے تھے کہ کافی عرصہ پہلی دنیا میں صبح و شام کرنے کے بعد بھائی صاحب کے اطوار میں تبدیلی درآئی ہوگی مگر انہوں نے انتہائی ’’استقلال‘‘کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے افعال و اعمال سے یہ باورکرا دیا کہ ہم لاکھ معمر سہی مگر آج بھی بڑے بھائی کی ڈپٹ اور جھڑک کے اسی طرح مستحق ہیںجس طرح آج سے 50سال پہلے تھے۔ہم نے کراچی سے لاہور روانگی کا مصمم عزم کرنے کے بعد نجی گروپ کے تحت پٹڑیوںپر دوڑائی جانے والی ریل میں نشستیں محفوظ کرا لیں۔دوروز کراچی کو رونق بخشنے کے بعد ہم ریل گاڑی میں جا گھسے۔ ہمارے پاس کل 9نشستیں تھیں جن میں سے 6ایک جانب اور 3دوسری جانب تھیں۔ ان میں سے ایک ’’برتھ‘‘ پر سامان رکھ دیا گیا اور باقی دو برتھیں ہم دونوں برادران کے لئے تھیں۔ریل جانب منزل رواںدواں تھی، ہم ماضی کی باتیں کر کے اپنے اس دور کو یاد کر رہے تھے جب ہم والدین کے زیر تربیت تھے۔ جب ہم بیویوں کے ہاتھ کا پکایا نہیں بلکہ ماں کے ہاتھ کا پکایا کھاتے تھے اور والد کے ہاتھ کی کھاتے تھے۔ہماری گفتگو اس حقیقت کی عکاس تھی کہ ماضی کی ’’لاچاری‘‘، حال کی خود مختاری سے بدرجہا بہتر تھی۔ماضی میں ہم والدین کے سایۂ محبت و عاطفت میں پلتے تھے، ناک کی سیدھ میں چلتے تھے،ہم شرارت کرتے تو والدصاحب طمانچہ رسید کرتے جس کے بعد ہم اپنے گال ملتے تھے۔ ہر لمحہ والدین کی نگرانی کا انجام یہ تھا کہ رہِ حیات میں نہ ہم گرتے تھے اور نہ سنبھلتے تھے۔
ہم دونوں برادرانِ کہنہ تو اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اپنے ان والدین کا ذکرکر  رہے تھے جو اب ماضی ہو چکے ہیں مگر سامنے والی نشست پر متمکن ہمارے سفری ہمسائے لمحہ موجود کے باپ بیٹا تھے ۔یہاں رشتے کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ہمسایوں کی عمریں بیان کرنا بھی ناگزیر ہے ورنہ یہ تحریر اپنی افادیت کھو دے گی چنانچہ عرض ہے کہ باپ کی عمر 32سال اور  بیٹے کی عمر 4.5سال تھیں۔ یہ دونوں ہمارے بچپنی دور کے باپوں اور بیٹوں سے بالکل مختلف تھے۔ والد بذاتِ خودبیٹے سے گزارش کرتا کہ برائے مہربانی وضع وضع کے نخرہ کر، تاکہ میں تیرے نخرے اٹھائوںاور اپنی’’ باپتاکے جذبے‘‘ کو سکون پہنچا سکوں۔اس کے لئے وہ بیٹے کو یاد دلاتا کہ مجھ سے ریوڑیاں مانگ۔ وہ کہتا پاپا جی مجھے ریوڑی کھانی ہے ۔ وہ جواباً کہتا کہ ریوڑی والا آئے گا تو میں اپنے بیٹے کوریوڑی لے کر دوں گا۔ اتنی دیر میرا بیٹا موبائل پر گیم کھیلے گا۔ یہ کہہ کر وہ اسے ٹیبلٹ کی جسامت والا موبائل فون تھما دیتا۔ ہم دونوںبھائی اُس ’’جدید باپ بیٹا‘‘ کی محبت کے پرتودیکھ کر ششدر ہوتے رہے۔ 
رات بھیگ چکی تھی۔لوگ نیند سے مغلوب ہو کر آنکھیں بند کئے کسی نہ کسی طرح دنیا و مافیہا سے بے خبری کی کیفیات سے دوچار تھے ۔ بوگی کا اندرونی ماحول ریاضی کی ’’ایکویشن‘‘بن چکا تھا جس کے مطابق اگر ریل کی ہگڑدگڑ کوصوتیات سے منہا کر دیا جائے توسناٹا باقی بچے گا۔ایسی صورت حال میں اس بیٹے کا روئے سخن اچانک ہماری جانب ہوگیا۔اس ننھی جان کی گفتگو نے نہ صرف ہمارے ضمیر بلکہ خمیر کو بھی رگیدڈالا۔’’رگیدا رگیدی‘‘ کا سلسلہ کم ازکم 14گھنٹے بلا انقطاع  یا عرف عام میں یوں سمجھئے کہ کسی ’’لوڈشیڈنگ ‘‘ کے بغیر جاری رہا۔یقین جانئے ، زندگی کی تلخ حقیقتوں سے نبردآزما ہونے،نفس کی اصلاح کرنے ، غرور و تکبر سے خود کو محفوظ رکھنے اور اپنی ’’ٹائمنگ‘‘ یعنی ’’اوقات ‘‘ جاننے کے لئے ضروری ہے کہ زیر نظر تحریر کو آخری حرف تک پڑھا اور سمجھا جائے ۔ تو عرض ہے کہ اس خوش قسمت بچے اورجدید والد کے مابین ہونے والے سوال جواب یوں تھے:
*پاپا جی! بڑھاپے کی دہلیز پر بیٹھے یہ دونوںکون ہیں؟ ٭باپ نے کہا یہ دونوں کئی دہائیوں سے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ *پاپا جی ! یہ تو تعداد میں صرف دو ہیں مگر انہوںنے برتھیں 3لے رکھی ہیں۔٭جی بیٹا جی ان کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں ناں۔*آشنا ہونے کے لئے باقی  میری جان ’’نسیم عادل بھٹہ‘‘، ابھی ریوڑمگر پاپا جی! انہوں نے تو برتھ پربیگ رکھا ہوا ہے ، اس پر تو کوئی بندہ ہونا چاہئے تھا۔٭ جی بیٹا جی! ان کی مرضی ہے ۔ برتھ ان کی ہے ، وہ اس پر بیگ رکھیں یا بندہ، ان کی مرضی۔*مگر پاپاجی! کیا ان  انکلز کو یہ پتا نہیں کہ برتھ تو انسان کے لئے ہوتی ہے ، سامان کے لئے نہیں۔اگر انہوں نے خود نہیں بیٹھنا تو انہیں چاہئے کہ وہ یہاں موجود بغیر برتھ والے کسی بھی انسان سے کہیں کہ وہ اس پر آرام کر لے۔ پاپا جی! اگر ان انکلز نے برتھوں پر نہیںلیٹنا تھا تو انہوں نے برتھ لے کر پیسہ کیو ں ضائع کیا؟ انہیں چاہئے تھا کہ صرف سیٹ لیتے تاکہ پیسے بچ جاتے ۔٭بیٹا جی! ایسے لوگ فضول خرچ ہوتے ہیں۔*پاپاجی!یہ تو بے حسی کی علامت نہیں کہ آپ کے سامنے ایسے لوگ موجود ہوں کہ جنہیں کمر سیدھی کرنے کا موقع بھی نہ ملے اور آپ کا بیگ برتھ پر ’’آرام ‘‘فرما رہا ہو۔٭ بیٹا جی ! ایسے لوگ ہمارے ہاں بے شمار ہیں۔ ان کی اصلاح کون کر سکتا ہے ؟*پاپاجی!ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ جو شخص جہاں بھی کسی کو گمراہی میں مبتلا دیکھے، اس کی اصلاح کے اقدامات کرنا شروع کر دے ۔ ٭بیٹا جی! ایسا ہو توسکتا ہے۔*پاپاجی! پھر ہم اصلاح کی کوشش ان انکلز سے ہی کیوں نہ شروع کریں؟یہ کہہ کر اس نے ہم سے سوال کیا کہ ’’انکل آپ دو ہیں اور برتھیں3 ،آپ کو یہ فضول خرچی کرتے ہوئے خیال نہیں آیا کہ آپ کسی دوسرے کا حق  مار رہے ہیں؟ کیا آپ کے ضمیر نے آپ کو جھنجوڑا نہیں ؟ہم نے اسے بتایا کہ بیٹو جی! ہمارے ساتھ 9افراد ہیں، یہ برتھ ہماری ہے۔ اس نے کہا کہ جتنی دیر یہ برتھ خالی ہے،اتنی دیر کے لئے کسی کو کمر سیدھی کرنے کا موقع دینے سے آپ کا کیا بگڑ جائے گا؟ہم نے سوالوں  سے جان چھڑانے کے لئے ایک مسافر کو برتھ پر لیٹنے کی دعوت دے دی جسے فوری شرف قبولیت بھی حاصل ہو گیا۔
ہم نے اس بچے سے استفسار کیاکہ آپ کانام کیا ہے ؟ اس کے باپ نے ہمارا سوال اچٹ کر خود جواب دیا کہ یہ میرا بیٹا ہے، اسکا نام ’’نعیم ایاز بھٹہ‘‘ ہے ۔اس کے نام کا انگریزی مخفف ’’این اے بی‘‘ ہے چنانچہ میں اسے پیار میں ’’نیب‘‘ کہتا ہوں۔ہم نے کہا کہ اسی لئے یہ سوالات بہت کر رہا ہے اور بال کی کھال بھی نکال رہا ہے ، اس کے استفسارات نے تو ہمارے ہوش و حواس تتر بتر کر دیئے ہیں۔ یہ سن کر اس کے پاپاجی نے جواب دیا کہ ’’میرا بیٹا تو صرف نام کا ’’نیب‘‘ ہے، اس کے سامنے بیٹھ کر آپ کے ہوش اڑ گئے،ذراسوچئے کہ اگر  آپ ’’کام کے نیب‘‘ کے سامنے پیش ہوتے تو کیا ہوتا؟ذرا ان کی کیفیات کا ادراک بھی کیجئے کہ جو کام کے نیب کے سامنے حاضر  ہو رہے ہیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں