Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی میں سکون و آرام کیلئے خواہشات کو بے لگام نہ ہونے دیں، ثنا ء درانی

والدین کی دانشمندی اور کامیاب زندگی کے سائے تلے پروان چڑھنے والی اولاد کی شخصیت بے مثال ہوتی ہے، ماحول کا انسان کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے، برطانیہ کی تیز اور منظم زندگی کے اثرات آج تک زندگی کا حصہ ہیں، سمیع اللہ درانی
 تسنیم امجد ۔ریا ض
ہمارے بز رگ ہمیشہ یہی نصیحت کرتے رہے کہ ’’میل جول قائم رکھو ورنہ رشتو ں کو زنگ لگ جا ئے گا‘‘۔ جغرافیائی قر بتیں اور فا صلے انسان کی شخصیت پر گہرا ا ثر رکھتے ہیں ۔فا صلو ں کو قر بتو ں میں بد لنے کے لئے  ’’اردو نیوز،، اپنے حصے کا دیا بخو بی جلا رہا ہے ۔پر دیس میں گز رنیوالے ہر لمحے کے ساتھ اپنو ں کی یاد ستاتی ہے ۔یہا ں پروان چڑھنے والے بچو ں کے اکثرروا یتی والدین فکر مند ہیں کہ ان کی اولادیں خا ندا نی زندگی سے دور رہ کر اپنی پہچان بھول ہی نہ جا ئیں ۔اسی لئے سا لا نہ تعطیلات پر جانا ضروری سمجھتے ہیں۔اس میں ایک ما ں کے ا حساساتکا د خل زیادہ ہے کیو نکہ ما ں اور وطن کے او صاف میں مما ثلت ہے ۔دو نو ں ہی ایثار و قر بانی کی بے لوث تصویر ہیںاسی لئے وطن کی  سر زمین اور  ماں کی گود کی گر ما ئش میں کو ئی فر ق نہیں ۔دو نو ں کی پناہ ،چا ہ اور نباہ مشترک ہے ۔اسی لئے اہلِ ریختہ کے لئے یہ جریدہ دیس و پر دیس کی سر زمین سے غو ظہ زن ہو کر سیپ اور موتی چن کر اپنو ں سے متعارف کرا تا ہے ۔ان کے تجربات و مشا ہدات کی قیمت کا اندازہ  قا ر ئین کو بخوبی ہے ۔اس نے ریختہ دا نو ں کو ایک فیملی کی طر ح مالا میں پرو دیا ہے ۔ہر مو تی دوسرے مو تی سے محبتو ں کے بندھن سے بندھا ہے ۔یہی تحریک در ا صل زندگی ہے ۔اسی لئے کہا گیا ہے ’’ شرر کے بعد ستارہ ملے،ستا رے کے بعد آ فتاب،یہی آ ر زو حسنِ حیات ہے ،،
ان کی تکمیل کے لئے سعی شر طِ اول ہے ۔
آج کے اس سلسلے کی مہمان ہیںمحتر مہ ثناء درا نی،ان سے مل کر ہم ایک بار پھر قا ئل ہو گئے کہ ،
اگر بز م ہستی میں عورت نہ ہو تی 
خیا لو ں کی رنگین جنت نہ ہو تی
فقیروں کو عرفان ہستی نہ ہو تا
عطا زا ہدوں کو عبادت نہ ہو تی
ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا
نسیم بہا راں میں نکہت نہ ہو تی 
زندگی  کے ہر روپ میں عورت ایک مقدس مقام اور اہم کردار ادا کرتی نظر آ تی ہے ۔اسی کی بدو لت اللہ تعا لی نے ما ں کے قد مو ں تلے جنت رکھی ہے یو ں کہ ،
خو دی جلوہ بد ست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بو ند پا نی میں بند
ثناء درانی سے ہماری ہوائی مڈ بھیڑ شہرِ ریا ض میں دو دن ہو نے والی رم جھم کے دوران ہو ئی ۔مو سم کا اثر ہماری گفتگو پر بھی رہا ۔دونوں طرفگر ما گرم کافی سے لطف اندوز ہوا جا رہا تھا ۔کہنے لگیں مملکت میںآ ئے ہمیں دس برس ہی ہو ئے ہیں لیکن یو ں لگتا ہے یہاں برسوں سے ہیں کیو نکہ یہا ں کے دوست ا حباب بہت مخلص ہیں ۔میری جائے پیدا ئش پشاور ہے ۔بچپن کا زیادہ وقت اس کے خو بصورت باغات کی سیر و ںمیں گزرا۔یہا ں کی مسجدیں اور تا ریخی عما رتیں بہت خو بصو رت ہیں۔یہ گند ھا را سلطنت کا مر کز تھا ۔اس کا پرانا نام بر ش پو ر تھا ۔با د شا ہ اکبر  اعظم نے بعد میں یہ نام دیا ۔درہ خیبر اس کا اہم درہ ہے ۔یہا ں کی دستکا ری ،سو تی و اونی کپڑ و ں کا جواب نہیں  ۔یہا ں کے کچھ روا ئتی مقا مات کو دیکھنے دور دور سے لوگ آ تے ہیں۔آپ کو بھی بتاتی چلو ں کہ وہا ں کا  ’’ قصہ خوانی  و قہوہ  ، با زار اپنے روا یتی انداز ،تہذیب و ثقا فت اور رو نق کی و جہ سے آج بھی دلچسپی کا با عث ہے ۔یہا ں کا خان قہوہ ،تکہ ،چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی و سیع دکا نیں بہت مشہور ہیں۔ سیا ح انہیں اپنے ملکو ں میں لے کر جا نا پسند کرتے ہیں ۔یہا ں کا ریل کا نظام پرانا ہو نے کے با و جود بہت خوب ہے ۔ریلو ے لا ئن لنڈی کو تل کو جا تی ہے اس پر سفر شو ق سے کیا جا تا ہے ۔ میرے والد ظفر اللہ درانی کا تعلق زراعت سے ہے۔ انہو ں نے اپنے فارم ہا ئوس میں ا علی نسل کے گھو ڑے رکھے ہیں۔خود بھی گھو ڑ سواری کے شو قین ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ میرے دو ست ہیں۔ان کی رفا قت میں دن کاکچھ حصہ ضرور گزار تا ہو ں۔یو ں لگتا ہے یہ میری با تو ں کو سمجھتے ہیں ۔میری محبت و پیار کا جواب سر کو میرے گلے سے لگا کر دیتے ہیں۔گھو ڑ سواری صحت پر بہت اچھا اثر ڈا لتی ہے ۔
تعلیم میں بھی یہ پیچھے نہیں ۔ایڈورڈ کالج اور اسلامیہ کا لج تا ریخی حیثیت کے حا مل ہیں ۔میری ماما نا ہید درانی گر ہستن ہیں ۔انہو ں نے ہم چار بہنو ںکی پر ورش میں  کو ئی کسر نہیں چھو ڑی ۔یو ں لگتا تھا کسی کا لج کی پر نسپل ہیں۔گھر کا نظم و ضبط بھی لا جواب رہا ۔میرا بہنو ں میں تیسرا نمبر ہے ۔لا ڈ لی بھی خوب رہی اسی لئے شرارتی بھی تھی ۔میرے دادا افغا نستان سے پشا ور ہجرت کر کے آ ئے تھے ۔پٹھان ہو نے کے نا تے گھر میں بیٹیو ں پر پا بندیا ں بھی خوب تھیں ۔میں نے ابتدائی تعلیم مری کے سینٹ میری کا نونٹ ا سکول میں حا صل کی۔
یہ وہا ں ٹاپ کے  اسکو لو ں کی فہرست میں ہے ۔کافی شارپ طا لبہ تھی ۔اسی لئے شرا رتیں سب ہی بر دا شت کر لیتے تھے ۔اپنی روایات کے مطا بق مجھے سو لہ برس میں ہی ر خصت کر دیا گیا ۔تعلیم بھی مکمل ہو نے کا انتظار نہ کیا ۔سسر عطا ء اللہ درانی اور ساس فا طمہ درانی نے وعدہ کے مطا بق تعلیم مکمل کرائی۔شو ہر سمیع اللہ درانی  تا یا زادہو نے کے ناتے اپنے  اور میرے والدین کے درمیان محبت کے تعلق کا احترام بخو بی جا نتے تھے اس لئے میری کم عمری کے کم تجربے کو خو شی خو شی بر دا شت کیا ۔کبھی شکوہ نہ کیا ۔سسرال سے بے پناہ محبت ملی ۔سسر تو آ ج ہم میں نہیں لیکن ان کی محبتو ں کی چھا ئو ں ہر وقت سا یہ کئے رکھتی ہے ۔اللہ تعا لی سے ساس امی کی لمبی عمر کی دعا ہے ۔بز ر گو ں کا وجود ہی ر حمتیں لئے ہو تا ہے ۔
میرے بابا کا کہنا ہے کہ ہمارا معا شرہ رشتو ں سے گند ھا ہے ۔ہر رشتہ خاص وصف ،پہچان اور بر تا ئو کا حا مل ہے ۔یہ خو بیا ں کچھ تو قدرتی ودیعت ہو تی ہیں اور کچھ رشتوں کی نزاکت سے اپنانی پڑ تی ہے۔ باپ کے حوا لے سے سو چیں تو ایک ذمہ دار سر پر ست اور کفیل کا تصور ابھر تا ہے جبکہ ما ں کے حوا لے سے جو تصویر ا بھر تی ہے وہ محبت ،ایثار اور قر با نی کے رنگو ں سے سجی ہے ۔بز ر گو ں میں نا نا ،نا نی ،دادا، دادی ،کے رشتے کچھ لا ڈو پیار اور کچھ رعب داب کے حامل جبکہ بہن بھا ئیو ں کے الفا ظ سے اپنا ئیت اور ما ں کا احساس جا گتا ہے ۔غیر قدرتی رشتو ں میں نند ،دیورانی اور جٹھا نی خصو صی ہیں جنہیں نبھانے کے لئے خا ص حکمت عملی اختیار کر نا پڑ تی ہے ورنہ ان کا مسا بقتی ر حجا ن بے سکو ن کر ڈ ا لتا ہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ با با کے سا تھ سا تھ ما ما نے بھی ہر او نچ نیچ سے آ گا ہ کیا ۔ما ما تو یہ سب بتا تے ہو ئے کچن کے کام بھی کر تی تھیں۔ان کا مقصدیہ بھی تھا کہ اس طر ح کام بھی سیکھ لیںگی۔’’ایک پنتھ دو کاج ،،۔
ہماری گفتگو ہو رہی تھی کہ سمیع اللہ درا نی بھی تشریف لے آ ئے۔اس طرح ان کی شمو لیت نے گفتگو کو نیا رنگ دیا ۔وہ بھی ایک ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت کے حا مل ہیں ۔کہنے لگے آ نکھ تو رو شنیو ں کے شہر میں کھو لی لیکن با قی مرا حل یو کے میں مکمل کئے ۔یعنی تعلیم و غیرہ ۔ما حول کا انسان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ہو تا ہے ۔وہاں کی تیز اور ڈسپلن لا ئف کے اثرات آ ج تک زندگی کا حصہ ہیں ۔میرے والدین نے ایک آ ذاد ما حول میں ہمیں رکھا لیکن دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطا بق زندگی گزا رنے کا درس سختی سے دیا ۔اللہ کا شکر ہے میںنے مملکت میں آ کر اپنی محنت سے اچھا نا م کما یا۔بیگم کزن تو تھی ہی لیکن بہو کے روپ میں اس نے سب کی محبتیں و صول کیں ۔میرے والدین اس سے بہت خوش رہے۔اماں کا بھی کہنا ہے کہ زندگی کے کئی روپ ہیںجو مختلف دھا گو ں میں پرو ئے ہو ئے ہیں ۔ان کو مضبو طی سے تھام لینا چا ہئے تاکہ مو تی بکھر نے سے بچ جا ئیں۔ہمارے معا شرے میں مختلف جنم لینے وا لی کہا نیا ں اسی و جہ سے ہیں کہ رشتو ں پر گر فت ڈ ھیلی پڑ جا تی ہے۔
خا ندا نی زندگی ہی سے معا شرتی زندگی گزارنے کے درس ملتے ہیں ۔آج معا شرہ ما دیت کی لپیٹ میں ہے ۔رشتو ں کی قدرو منزلت معدوم ہو تی جا رہی ہے ۔جبکہ اولاد کی تر بیت میں یہ اہم کر دار ادا کر تے ہیں ۔اللہ تعا لی نے ہمیں دو پھو لو ں کی پر ورش کی ذمہ داری سو نپی ہے ۔سیف اللہ درانی اور آ دم درانی ہم دو نوں کی زندگی کا سر ما یہ ہیں ۔دو نو ں نے اے لیولز کر لئے اور اب  ہا ئر ا سٹڈیز کینیڈا سے مکمل کی جا رہی ہے ۔میں یقین رکھتا ہو ں کہ والدین کی دا نشمندی اور کا میاب زندگی کے سا ئے تلے پر وان چڑ ھنے والی اولاد کی شخصیت بے مثال ہو تی ہے۔
ثنا ء بو لیں ہر لڑ کی کے لئے سسرال کے نئے ما حول میں سما نا ایک وقت طلب مر حلہ ہے خواہ وہ اپنے ہی کیو ں نہ ہو ں۔والدین کی تر بیت اور نصیحتیںاسے ہر لمحہ ہر مو ڑ پر ثا بت قدم رہنے کا حو صلہ دیتی ہیں ۔میں شو ہر کی ممنون ہو ں کہ انہو ں نے مجھے تعلیم جا ری رکھنے کے موا قع فرا ہم کئے ۔انہی کی وجہ سے آج میں اس قابل ہو ں کہ اپنی پسند کے پرو فیشن پر کام کر رہی ہو ں ۔ٹیچنگ سے مجھے بہت لگا ئو ہے ۔خا صکر کنڈر گا ر ڈن کے بچو ں کو ۔کیو نکہ انہیں سکھا نا اچھا لگتا ہے ۔میں یہا ں سپر وا ئزر کی حیثیت سے کام کر رہی ہو ں۔ہم دو نو ں کو ہی تفر یحی سر گر میا ں بہت بھا تی ہیں۔سمیع اللہ درانی بو لے میں ا خبار ضرور پڑ ھتا ہو ںاور اس کے علاوہ ہا لی وڈ کی مو ویز دیکھ لیتا ہو ں ۔شا عری سننے سے لگا ئو ہے۔اسی لئے مشا عرو ں میں جا نا پسند کر تا ہو ں ۔مجھے اردو شا عروں میں فیض ا حمد فیض پسند ہیں ۔ان کے چند اشعار پیش کرتا ہوں،
رات یو ں دل میں تری کھو ئی ہو ئی یاد آ ئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جا ئے 
جیسے صحرا ئو ں میں ہو لے سے چلے با د نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جا ئے
ثنا ء بو لیں مجھے شا عری پسند ہے کسی کی بھی ہو ۔لیکن امجد اسلام امجد کی اکثر زیا دہ بھا تی ہے ۔کچھ پیش کر تی ہو ں ،
گر کبھی میری یاد آ ئے
گریز کرتی ہوا کی لہرو ں پہ ہاتھ رکھنا
میں خو شبو ئو ں میں تمہیں ملو ں گا 
مجھے گلا بو ں کی پتیو ں میں تلا ش کر نا 
میں اوس قطرو ں کے آ ئینو ں میں تمہیں ملو ں گا 
اگر ستا رو ں میں ،اوس قطرو ں میں ،خو شبو ئو ں میں نہ پا ئو  تجھ کو 
تو اپنے قد مو ں میں دیکھ لینا
میں گرد ہو ں مسا فتو ں میں تمہیں ملوں گا 
ہماری گفتگو کچھ طویل ہو چلی تھی ۔ہمارے اصرار پر انہو ں نے خوا تین کے نام پیغام میں کہا ،
خواتین شا پنگ کی شو قین بلا شبہ ہیںلیکن مہنگا ئی کے اس دور میں شا پنگ کا جنو ن خود اپنے اوپر ظلم کے مترادف ہے ۔آ جکل بدلتے فیشنو ں کی بھی بھر مار ہے ۔شاپنگ کی شو قین خوا تین کا کہنا ہے کہ ہمیںاس طر ح کسی ٹینشن سے نجا ت ملتی ہے ۔امیر تو امیر غریب بھی اپنی اپنی بسا ط کے مطا بق اس شو ق کے ہا تھو ں مجبو ر ہیں ۔اس کے بد لے میں خواہ ذہنی طور پر پریشا نی ہی کیو ں نہ ملے کیو نکہ گھر کا بجٹ  جوفیل ہو جا تا ہے
اس سلسلے میں خوا تین سے گزا رش ہے کہ ان پر گھر کو سنبھا لنے کی بھا ری ذمہ داری ہے ۔اس لئے اپنے رہن سہن ،رسم و رواج ،دکھا وے اور نمو د و نما ئش سے اجتناب کریںکیو نکہ عام زندگی میں سا دگی اپنا نے اور دو سرو ں کی اندھی تقلید سے گریز کر کے ہی ہم مہنگا ئی کا مقا بلہ کر سکتے ہیں ۔دوسروں کی تقلید کرنا ہمیں بے شمار پریشا نیو ں میں مبتلا کر سکتا ہے ۔سادگی انسان کو بہت سے عذا بو ں سے بچا تی ہے ۔اسی لئے میا نہ روی کی تلقین کی جا تی ہے ۔دولت کی ہوس لو گو ں کو ا خلا قیات اور انسا نیت کے درجے سے نیچے گرا رہی ہے ۔اپنی زندگی میں سکون و آ رام پیدا کرنے کا ایک ہی آسان را ستہ ہے کہ خوا ہشات کو بے لگام نہ ہو نے دیں  ۔اپنے گرد رہنے والوں کی ضرو ریات کا خیال
رکھنا  ضروری ہے ۔کہتے ہیں نا کہ ، ’’ دل بدست آ ور کہ حج اکبر است ،،۔
ضرورت مندو ں کا حصہ نکا لنا دولت کو کم نہیں کرتا بلکہ اس میں ا ضا فہ کا سبب ہے ۔ہم سب یہ جا نتے ہیں ۔بس عمل نہیں کر تے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: