Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حرم مکی شریف کی حد ، اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ

 عام آدمی کے لئے حدود حرم جاننے کے لئے علامتی نشان ہی کافی ہے، ہر سمت میں حدود حرم کی مسافت یکساں نہیں، اس میں کچھ فرق ہے
* * * *مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ* * *
حرم کی حرمت و عظمت ، خصوصیت اور اس سے متعلق بعض خاص شرعی احکام کے لحاظ سے اس بات کی زیادہ اہمیت ہے کہ حرم کی حدود کو جانا جائے چنانچہ اہل علم نے خاص طورپر اس کی نشاندہی کی اور ہر سمت میں اس کی مسافت میلوں اور بعض نے گز کی پیمائش سے بھی متعین کی ہے۔ ان مسافتوں کی تحدید میں گرچہ مورخین کے درمیان کچھ اختلاف بھی پایا جاتا ہے تاہم جمہور کی رائے اس سلسلے میں کچھ اس طرح ہے :
    *  مدینہ منورہ کے راستہ سے حرم کی حد مکہ سے 3 میل ہے جہاں مسجد عائشہؓ ہے ، جو تنعیم سے معروف ہے ۔
    *  یمن کے راستہ سے حرم کی حد مکہ سے7 میل پر ہے ۔
    *  عراق کے راستہ سے بھی حرم کی حد مکہ سے 7 میل پر ہے ۔
    *  طائف کے راستہ سے بھی حرم کی حد مکہ سے7 میل پر ہے ۔
    *  جعرانہ کے راستہ سے حرم کی حد مکہ سے9 میل پر ہے ۔
    *  جدہ کے راستہ سے حرم کی حد مکہ سے10 میل پر ہے ۔
    یہ بات ذہن میں رہے کہ حدود حرم کی تحدید و تعیین توقیفی ہے ، یعنی وحی کے ذریعہ اﷲ کی طرف سے کی گئی ہے ۔کسی انسان کی طرف سے یہ حد بندی نہیں۔ روایت ہے کہ سب سے پہلے حرم کی حدود پر علامتی پتھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی رہنمائی میں نصب کئے ، پھر ان کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام ، پھر قصی بن کلاب نے ان کی تجدید کی ۔ زمانۂ جاہلیت میں یعنی اسلام سے پہلے بھی قریش ان حدود کو جانتے تھے۔ علامتی پتھر یا نشانات مٹنے لگتے تو اس کی تجدید کرلیا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ دورِ رسالت میں ہجرت سے قبل کسی نے ان علامتی پتھروں کو اکھاڑ پھینکا۔ رسول اﷲ کو خبر ہوئی تو آپ رنجیدہ ہوئے۔ جبرئیل امین ؑ نے تسلی دی کہ یہ خود ہی دوبارہ اسے نصب کردیں گے  چنانچہ قریش کے بعض قبائل کو اس کی خبر لگی تو وہ اپنی مجلسوں میں باہم کہنے لگے کہ یہ حرم جس کے ذریعہ اﷲ نے تمہیں عزت دی اور تمہاری حفاظت کی ، تم نے اس کے نشانات اور علامتی پتھروں کو نکال دیا؟ اب عرب تمہیں اُچک لیں گے۔ اس طرح سب مل کر پھر متفق ہوگئے اور انہوں نے ان پتھروں کو دوبارہ ان کی جگہوں پر نصب کردیا۔ جبریل علیہ السلام نے آکر رسول اﷲ   کو اس کی خبر دی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ اے جبرئیل ؑ ! کیا انہوں درست جگہ اسے نصب کیا ہے ؟۔ جبریل ؑنے عرض کیاکہ انہوں نے کوئی پتھر بھی نصب نہیں کیا مگر فرشتہ کے ہاتھ کے ذریعہ ۔
    فتح مکہ کے بعد اسی سال رسول اﷲ نے تمیم بن اسد خزاعیؓ  کو بھیج کر ان نشانات کی تجدید کروائی اور ایک روایت ہے کہ حضرت اسود بن خلف ؓ  کو ان علامات کی تجدید کا حکم فرمایا تھا۔ ممکن ہے ان دونوں اصحاب کو یہ خدمت سونپی گئی ہو۔ رسول اﷲ کے بعد حصرت عمرؓ نے ، پھر حضرت عثمان بن عفانؓ نے ، پھر حضرت معاویہؓ نے اپنے دور خلافت میں نشاناتِ حرم کی تجدید کا اہتمام فرمایا۔ اس کے بعد ہر دور میں یہ اہتمام جاری رہا ۔ ماضیٔ قریب میں خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیزؒ کے دور حکومت میں مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بنیادی راستوں پر علامتی مینار نصب کئے گئے ۔
    یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حرم کے گرد ان نشانات کے محفوظ و متعین ہونے کے بارے میں تقریباً اہل علم کا اتفاق ہے۔ اختلاف جو ہے وہ مسجد حرام سے ان نشانات تک کی مسافت کے سلسلے میں ہے چنانچہ اس کی بہتر توجیہ یہ کی گئی کہ اس اختلاف کی وجہ ہر دور میں ’’ میل ‘‘ کی تعیین میں اختلاف ہوسکتا ہے یا جس سے مسافت ناپی گئی، اسے کھینچنے اورڈھیلا چھوڑنے یا زمین کی بلندی اور نشیب یا مسجد حرام کے پاس جس جگہ سے ابتداء کی گئی، اس کا اختلاف یا نشانات حرم تک جو راستہ اختیار کیا گیا ، اس کا اختلاف ہوسکتا ہے ۔
    اوپر حدود حرم کی جو مسافتیں بیان کی گئیں ، وہ مکہ مکرمہ میں داخلے کے قدیم بنیادی راستوں کے اعتبار سے ہیں۔ موجودہ نئے راستوں کے اعتبار سے اس میں کچھ فرق ہوسکتا ہے۔ عام آدمی کے لئے حدود حرم جاننے کے لئے علامتی بنیاد یا نشان ہی کافی ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ ہر سمت میں حدود حرم کی مسافت یکساں نہیں، اس میں کچھ فرق بھی ہے ، کہیں یہ کم تو کہیں کچھ زیادہ ، ایسا کیوں ہے ؟ یا کعبۃ اﷲ کے گرد ہر سمت میں حرم کی ایک ہی مسافت کیوں نہیں ؟ اس سلسلے میں صحیح بات تو یہ ہے کہ اس فرق کی حکمت اور مصلحت کو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے اور حرم کی یہ تحدید اسی طرف سے ہے ۔ اس سلسلے میں بعض کمزور اور اسرائیلی روایتیں اور بعض تابعین سے آثار بھی منقول ہیں جو سندی اعتبار سے کلام سے خالی نہیں ، مثلاً یہ کہ حجر اسود جب جنت سے نیچے اُترا اور حضرت جبریل علیہ السلام اسے لے کر آئے تو اس سے چاروں سمت کا علاقہ روشن ہوگیا ، جتنی دور روشنی گئی، وہ علاقہ حرم ٹھہرا ،یا یہ کہ آدم علیہ السلام کو شیاطین سے خوف ہوا ، اﷲ سے پناہ مانگی تو اس نے فرشتے بھیجے جنہوں نے مکہ کو ہر سمت سے گھیر لیا ، جہاں ملائکہ ٹھہرے وہی جگہ حرم کی حد ٹھہری ۔
     یہ اہم بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ حرم شریف کی حدیں متعین ہیں اور وہ تعیین بھی من اﷲ وحی کے ذریعہ جبریل امین ؑ کی رہنمائی میں ہوئی ہے۔ حرم سے یہی متعین مسافت تک کا علاقہ مراد ہوتا ہے ، جبکہ ’’ مکہ مکرمہ ‘‘ پورے شہر کا نام ہے جو کہ آجکل پھیل کر حرم سے باہر تک وسیع ہوچکا ہے ، خصوصاً شمالی سمت اور مشرقی سمت کا بھی بعض حصہ یعنی تنعیم کی طرف مسجد عائشہ سے آگے کا حصہ یا کسی بھی سمت حد حرم سے آگے کا حصہ چاہے عرفاً مکہ مکرمہ میں شامل ہو لیکن وہ حرم میں شامل نہیں اسلئے یہ فرق ذہن میں رہنا چاہئے کہ اصل حرمت و عظمت یا حرم شریف کے خصوصی احکام و مسائل کا تعلق صرف حدود حرم تک کے علاقہ سے ہے ، اس کے باہر سے نہیں۔ آج کل عرف عام میں بعض لوگ پورے مکہ مکرمہ شہر کو حرم سمجھتے ہیں جبکہ ایسی بات نہیں۔
    حرم شریف کی اہمیت و فضیلت اور اس کے غیر حرم کے مقابلے میں بعض خصوصی احکام ہی کی وجہ سے نہ صرف ان کے حدود کی تعیین کی گئی بلکہ ان کی حفاظت اور نشانات حرم کو برقرار رکھنے کا اہتمام ہر دور میں رہا ۔
مزید پڑھیں:- - - - -ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے

شیئر: