Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت سے انجیل بھی انکاری

 انگریز لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ معمر کنواری رہنے پر دوسری بیوی بننے کو ترجیح دیگی، اسلام میں کئی شادیاں ضروری نہیں

* * *  *

* * *ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان۔ جدہ* * *

 انگریز خاتون قبول اسلام کا واقعہ اسطرح بتاتی ہیں کہ میں عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی۔ برطانوی گرجا گھر میں میرا بپتسمہ( غسلِ عیسائیت)ہوا۔ انجیلوں میں مذکور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ کم عمری میں ہی پڑھ لیا تھا۔ میرے ذہن پر اس کا بڑا گہرا اثر تھا۔ جب بھی گرجا گھر جاتی یہ احساس تازہ ہوجاتا تھا ۔ میں دیوہیکل شمع دان دیکھتی، اس میں روشن شمعیں، اس سے پھوٹنے والی خوشبو، پادریوں کی زرق برق روایتی پوشاک اور عبادت کے عجیب و غریب نغمے بہت بھلے لگتے تھے۔
    میرا خیال ہے کہ میں زندگی کے اِس دور میں پرجوش عیسائی تھی ۔پھر جوں جوںدینی مطالعہ بڑھا، انجیل اور عیسائیت کی کتابوں سے دلچسپی میں اضافہ ہوا، ویسے ویسے مطالعہ اور مشاہدہ کے بارے میں تفکیر کے مواقع پھیلتے چلے گئے۔ ایسی بہت ساری چیزیں میرے سامنے آئیں جو ناقابل فہم تھیں۔ رفتہ رفتہ میں لادین ہوگئی۔ کسی بھی دین پر میرا عقیدہ نہ رہا۔ آگے چل کر میں نے اہم مذاہب کا مطالعہ شروع کردیا(بودھ مت) سے اس سلسلے کا آغاز کیا۔ اس کے مثبت پہلوؤںکا مطالعہ کیا، میں اس نتیجے پر پہنچی کہ بدھ مت خیر پسند مذہب ہے تاہم اس کی کوئی واضح شناخت نہیں۔
    ہندومت کے سیکڑوں دیوتاؤں اور دیویوں کے تصور نے حیران کردیا۔ یہ دیوتا کا فرضی قصہ ہے۔ پھر میں نے یہودیت کا رخ کیا۔ اس کا اچھا خاصہ حصہ میں پہلے پڑھ چکی تھی۔ اس سے متعلق حاصلِ مطالعہ یہ ہے کہ یہ دین کے اساسی عناصر سے محروم ہے۔
    میرے ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ روحانیات کا مطالعہ کروں، اس کی مجلسوں میں شرکت کروں، جہاں انسانوں پر روحوں کا اقتدار ہوتا ہے ۔میں نے یہ کام زیادہ عرصے نہیں کیا۔
    میرا احساس یہ تھا کہ اگر میں اس راستے پر چلتی رہی تو خطرات سے دوچار ہوجاؤنگی۔ جنگ ختم ہوئی تو مجھے لندن کے ایک دفتر میں کام مل گیا۔ دفتری مشغولیات ، دینی تفکر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں۔
    ایک روز ، مقامی اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا۔ اس میں حضرت عیسیٰ ؑ کو ’’الٰہ‘‘ ثابت کیا گیاتھا۔ میں نے جوابی مضمون لکھ کر ثابت کیا کہ خود انجیل بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’الٰہ‘‘ نہیں مانتی۔ اس جواب کی اشاعت پر بہت سارے قارئین نے مجھ سے رابطے کئے،رابطہ کرنیوالوں میں ایک مسلمان بھی تھا۔
    یہ رابطہ اسلام کے از سرنو مطالعہ کا محرک بن گیا۔ رابطہ کرنیوالے مسلمان سے سلام دعا ہوگئی، ہم دونوں مذہبی امور پر بحث کرتے۔میں جب بھی بحث کرتی، میرااندرون مجھے بحث سے باز رکھنے پر آمادہ کرتا۔میں اس مسلمان کا مقابلہ کرتی لیکن کب تک کرتی، بہر حال میں نے یہ مان لیا کہ ہدایت کا مکمل پیغام ایک عام انسان کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔میں عام انسان کا لفظ اس تناظر میں استعمال کررہی ہوں کہ 20ویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا ایسا نظام نہیں لاسکی جیسا معیاری نظام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو 1400برس قبل دیا۔
    اسلام جدید نظام سے بالا اور برترہے، بلکہ جدید ریاستیں مسلسل اسلامی قانون سے استفادہ کررہی ہیں۔ میں نے کئی مسلمانوں سے ملاقات کی، نومسلم انگریز لڑکیوں سے بھی ملنا ہوا، ان لڑکیوں نے میری مدد کی۔انہیں ادراک تھا کہ میںکس کیفیت اور الجھن سے دوچار ہوں کیونکہ ان کی اور میری نشوونما ایک جیسے ماحول میں ہوئی تھی۔ نہ جانے کیوں ان کی محنت بیکار ثابت ہوئی۔میں نے کتابوں کا مطالعہ کیا، ان میں سے ایک کتاب کا نام تھا:  The religion of islam(مذہب اسلام) ۔دوسری کتاب:  Mohammed & Crist(محمد اور عیسیٰؑ) ۔تیسری کتاب:  The source of Christianity(عیسائیت کے ماخذ) تھی۔
    اس آخری کتاب سے میں بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ یہ بڑی عجیب و غریب کتاب ہے۔قدیم بت پرستی اور افسانوی کہانیوں میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ میں نے جب قرآن پڑھا تو پہلے لمحے میں ایسا لگااس کا بیشتر حصہ تکرارہے۔ قرآنی مضامین کے احاطہ کے حوالے سے مجھے خود پر اعتماد نہ تھامگر دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن ،آہستہ آہستہ میرے دل میں جگہ کرنے لگا۔ میں خود کو اس کیفیت سے محروم کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک سوال اکثروبیشترمیری سو چ پر چھایا رہتا تھا کہ آخر انسانوں کے ذریعے جو ناتمام ہوتے ہیں۔ مکمل نہیں ہوتے۔ انسانیت کو مکمل ہدایت کیونکر مل سکتی ہے؟
    مسلمانوں نے تاریخ کے کسی بھی دورمیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ’’محمد‘‘کوئی مافوق الفطرت طاقت یا انسان سے بالا تر کوئی مخلوق ہیں۔
میں نے مطالعہ کیا تو اسلام کا یہ پہلومیرے سامنے آیا کہ پیغمبر کا دامن خطاؤں سے آلودہ نہیں ہوتا۔ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ وحی کوئی نئی بات نہیں، محمد سے قبل یہودیوں کے نبیوں پر نازل ہوتی رہی ہے۔یہاں تک بات میری سمجھ میں آئی تھی تاہم یہ بات میری سمجھ سے بالاتررہی کہ 20ویں صدی میں پیغمبر کیوں نہیں ! عصر حاضر میں وحی کیوں نہیں نازل ہوتی؟ یہ گتھی نہیںسلجھ رہی تھی۔ سورۃاحزاب کی آیت نمبر40کے مطالعہ سے میری گتھی سلجھی جس میں بتایا گیا ہے کہ محمد اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ، ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا۔ قرآن نے یہ بات صاف کردی ۔ قرآن جامع کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں ہر شئی کا بیان ہے۔ یہ پہلی آسمانی کتابوں پر مہرتصدیق ثبت کئے ہوئے ہے۔ قرآن قیامت تک کسی ردوبدل کے بغیر محفوظ رہیگا۔ سورۃ الحجرکی آیت نمبر9میں ہے کہ :
    ’’ ہم ہی نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
    یہ کتاب محمد پر نازل کی گئی۔ ایسے عالم میں محمد کے بعد کسی بھی پیغمبر اور نبی کی بعثت کی حاجت نہیں رہی۔
    میں نے قرآن کا مطالعہ کیا تو پتہ چلاکہ قرآن ، سوچنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ اللہ نے قرآن کے آسمانی کتاب ہونے میں شک و شبہ کرنیوالوں کو سورہ بقرہ آیت نمبر 23میں تاریخی چیلنج دیا کہ وہ اس جیسی کوئی ایک سورۃ پیش کردیں۔ ارشاد الٰہی ہے: 
     ’’اور اگر تم اس پر شک کئے ہوئے ہوجو ہم نے اپنے بندے پر ناز ل کیا ہے تو تم اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ اور اگر تم سچے ہوتو غیر اللہ میں سے اپنے حامیوں کو بھی بلا لاؤ۔‘‘
    ایک سوچ میرے ذہن میں یہ آئی کہ اگر قرآن کا بیان کردہ نظام ِحیات 570ء میں پیدا ہونیوالے ایک انسان کا کرشمہ ہے تو ہم 1954ء میں اس سے بہتر نظام کیوں نہیں تخلیق کرسکتے۔میں نے اس اساس پر بہتر نظام کی جستجو شروع کی لیکن مجھے ہر میدان میں ناکامی ہوئی۔
    میں تسلیم کرتی ہوں کہ میرے اوپر عیسائی مبلغین کی تقاریر کا اثر تھا۔ اسلام کیخلاف ان کی نکتہ چینی میرے لاشعور میں جاگزیں تھی۔ میرے سامنے ایک سے زیادہ شادیوں کے جواز کا اسلامی حکم آیا تو ایسا لگاکہ اب میرے ہاتھ اسلام کی ایک کمزوری آگئی ہے۔ میں مغربی تہذیب سے متاثر تھی جس میں یہ نظریہ مقبول اور رائج ہے کہ مردکو ایک شادی پر اکتفاء واجب ہے ، اسلام کے اس حکم پر برترنظر آیا کہ انسان، ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتا ہے۔ میں نے اس موضوع پر ایک مسلم دوست سے بحث کی۔ اس نے انتہائی مدلل انداز میں مجھے سمجھایاکہ اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے، اس کی ترغیب نہیں دی۔ اسلام نے اس کیلئے شرائط بھی مقرر کی ہیں۔ ایک سے زیادہ شادیاں ، مغربی دنیا میں مردوزن کے درمیان بڑھتے ہوئے خفیہ رشتوں کے مرض کا علاج ہے۔ مسلم دوست نے اخبارات میں چھپنے والی رپورٹوں سے ثابت کیا کہ انگلینڈ میں ایک بیوی پر اکتفاء کرنے والوں کی تعداد بیحد محدود ہے۔
    میں نے خود سوچاکہ خاص طور پر جنگوں کے بعد عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ جاتی ہے، اچھی خاصی تعداد ایسی خواتین کی ہوتی ہے جنہیں شادی کا موقع نہیں ملتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں محرومی کا درد جھیلنے کیلئے پیدا کیا ہے؟ میں ایک دن ایک ریڈیو پروگرام سن رہی تھی ۔ نام تھا ’’میرے پیارے سردار ‘‘۔ اس میں ایک انگریز لڑکی ایک سے زیادہ شادیوں کے جواز کا قانون بنانے کا مطالبہ کررہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ معمر کنواری رہنے پر دوسری بیوی بننے کو ترجیح دیگی۔ میں نے مطالعہ کیا تو واضح ہوا کہ اسلام میں کئی شادیاں ضروری نہیں ، مکمل دین کی علامت یہ ہے کہ وہ زندگی کی ضرورتوں کا اہتمام کرے۔
    رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات کی حقانیت اور صداقت سے میرا دل اور دماغ مطمئن ہوا۔ میں نے کلمہ توحید و رسالت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ میں نے اچانک اور جذبات سے متاثر ہوکر اسلام قبول نہیں کیا بلکہ مکمل آگہی ، انتھک سوچ اور گہرے وسیع مطالعہ کے بعد پوری طرح قلبی ذہنی اطمینان کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔ میں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب مجھے ایسا لگا کہ میرے سامنے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ بالآخر مخالف جذبات کو پس پشت ڈال کر حق اپنالیا۔

مزید پڑھیں:- - -  - -اخلاق سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں

شیئر: