Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صف بندیاں

***محمد مبشر انوار***
پاکستان کے حالیہ ایوان بالا کے انتخابات نے لٹیا ڈبودی ہے۔بالواسطہ طرز انتخاب نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم رکھا ہے کہ الامان الحفیظ۔یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کسی جمہوری معاشرے میں جمہوریت کی اس قدر تذلیل بھی ممکن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایک طرف بے شمار سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کا وجود ہے،جنہوں نے قوم کو تقسیم کر رکھا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت رکھنے سے قاصر ہے  تودوسری طرف ان جماعتوں میں منشور کا نہ ہونا ہے،جس کے باعث حلقہ انتخاب میں شامل ووٹرز کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو جیسے چاہیں ، جہاں چاہیں اور جس کے حق میں چاہیںاستعمال کریں۔اس کا نتیجہ اس وقت یہ نکلا ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ایوان بالا میں واضح اکثریت نہیں رکھتی۔ نو منتخب اراکین سینیٹرز کی حالت دیدنی ہے کہ وہ جو کروڑوں خرچ کر کے منتخب ہوئے ہیں، وصولی کی پہلی قسط دروازے پر دستک دے رہی ہے،باقیماندہ  ٹرم میں کیا کچھ  اور کیسے کیسے مواقع انہیں حاصل نہیں ہو ں گے؟پی ٹی آئی کی جلدبازیاں سامنے ہیں کہ ایک دن خان کچھ کہتا ہے اور اگلے ہی دن اس کے الٹ کوئی بیان یا لائحہ عمل کا اعلان کر دیتا ہے۔پی پی پی ،انفرادی حیثیت میں 20 نشستوں کے ساتھ واحد اکثریتی جماعت کے طور پر سینیٹ میں موجود ہے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے بیشتر نو منتخب ارکان ’’آزاد‘‘ حیثیت میں ہاؤس میں موجود ہیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنی مرضی کا چیئر مین منتخب کر سکیں۔ ہر صورت ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہونا لازمی ہے،جس سے غالب امکان یہی ہے کہ کسی بھی قسم کی عوامی فلاحی قانون سازی آسانی سے ممکن نہیں ہو سکے گی جبکہ اشرافیہ سے متعلقہ قوانین ’’اتفاق رائے‘‘ سے منظور ہوتے نظر آئیں گے۔  بات اگر اشرافیہ کے حوالے سے  قوانین کی منظوری تک ہی محدود  رہے ،  تب بھی غنیمت ہے مگر شنید یہ ہے کہ معاملات اس سے کہیں زیادہ ہیں اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسے قوانین تشکیل دئیے جائیں جو مقتدرہ اور عدلیہ کے پر کاٹ کر ان اداروں کو  حکمرانوں کا  تابع مہمل بنا دیں۔ یہ  وہ صورت حال ہے جو عام پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسی صورت میں اشرافیہ تمام تر حدود قیود سے آزاد ہو جائیگی،اس کے کسی بھی اقدام پر کوئی چیک باقی نہیں رہے گا،مراد اشرافیہ شتر بے مہار کی مانند،اختیار کے گھوڑے پر سوار ایسی پگڈنڈی پر بگٹٹ بھاگتی چلی جائیگی جہاںصرف اور صرف ان کے مفادات کا ہی تحفظ ممکن ہو گا جبکہ پاکستان اور عوام کے مفادات ٹکے ٹوکری ہو ں گے۔ ملکی اثاثے پہلے ہی "گروی "رکھوائے جا چکے ہیں،جو باقی بچے ہیںان کی حالت کیا ہو گی،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںاور اس کا انجام ماسوائے ریاست کی ناکامی کے اور کیا ہو گا؟
متوقع عام انتخابات کے اپنے وقت پر ہونے کا امکان غالب ہے کہ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی درفنطنی (انتخابات ایک سال کے لئے مؤخر کرنے کی تجویز)اپنی موت آپ مر چکی ہے کہ ملک میں ایسے سنگین حالات کا وجود نہیں جن کی بنیاد پر عام انتخابات کو ایک سال کے لئے مؤخر کیا جائے۔ اس پس منظر میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں۔مسلم لیگ ن کے لئے انتخابی سیاست کرنے میں جو دشواریاں تھی، وہ اس نے جارحانہ حکمت عملی سے کسی حد تک دور کر لی ہیں۔ مسلم لیگ ن ہمیشہ کی طرح مظلومیت کا لبادہ اوڑھے عوام کو یہ سبق پڑھانے میں مشغول ہے کہ ادارے مسلم لیگ ن کی قیادت سے مخاصمت رکھتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن ہی واحد سیاسی جماعت ہے جو کسی کی ڈکٹیٹشن قبول نہیں کرتی،حالانکہ حقیقت اس کے الٹ ہے کہ مسلم لیگ ن قیادت دہرے معیار رکھتے ہوئے دن کی روشنی میں شدید تنقید کرتی ہے تو رات کی تاریکی میں مقتدرہ کے ساتھ ملاقاتیں بھی اس کا معمول ہیں،تیسری طرف افسر شاہی کے کندھے استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔2018مگر مختلف نظر آ رہا ہے کہ سپریم کورٹ  افسر شاہی کی بے ضابطگیوں پر جس طرح متحرک ہے،اس سے یہ گمان پختہ تر ہو رہا ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں عوامی رائے پر ڈاکہ زنی ممکن نہیں رہے گی ماسوائے اس کے کہ مسلم لیگ ن کی جارحیت میں  مزید تیزی آئے اور جس طرح  وہ افسر شاہی کو انگیخت کرنے کے  علاوہ " باغی" رویہ  اپنائے ہوئے ہیں۔  اگر آئندہ انتخابات میں  افسر شاہی کا قبلہ درست ہو گیا (کسی   خاندان یا خاندانوں کی بجائے افسر شاہی ریاست کی تابعدار ہو گئی)تو ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب سے  وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے جس کے بل بوتے پر وہ وفاق میں حکومت بناتی رہی ہے(اس پر مفصل گفتگو اپنی سابقہ تحریر ’’ہنگ پارلیمنٹ‘‘ میں کر چکا ہوں)۔ ایسی صورت میں جب پنجاب کا ووٹ بھی تقسیم ہو جائے گا تب کوئی ایک سیاسی جماعت بھی اس پوزیشن میں نہیں ہو گی کہ  وفاقی حکومت تشکیل دے سکے  اور یقینی طور پر مختلف  سیاسی جماعتوں کو مل کر وفاقی حکومت بنانی پڑے گی، جو کسی حد تک ’’قومی حکومت‘‘ کے متشابہ  تو ہو گی مگر اس حکومت کی کارکردگی قطعی طور پر قومی امنگوں کے مطابق نہیں ہو گی۔ دوسری مشکل یہ ہو گی کہ جو گرہیں آج ہاتھوں سے لگائی جا رہی ہیںانہیں دانتوں سے کھولنے کا وقت ہو گا، کیا سیاسی جماعتیں یہ مشکل کام کر سکیں گی گو کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کیلئے یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت یہی کام سینیٹ چیئر مین کے لئے براستہ "بٹھنڈہ" کر رہی ہے ۔ اس پس منظر کے باوجود ایک اہم فیکٹر کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ مقتدرہ کا مفاد کس صورت میں ہے،بظاہر مقتدرہ اقتدار کے کھیل سے باہر ہے (جو رہنا بھی چاہئے )مگر کیا واقعی مقتدرہ اس کھیل سے باہر ہے؟اس سوال کا جواب فی الفور دینا انتہائی مشکل ہے کہ باہر ہوتے ہوئے بھی جو سیاسی منظر کشی بن رہی ہے، اس کا فائدہ یقینی طور پر مقتدرہ کو ہونا ہے کہ آج بھی پاکستان کی کئی پالیسیوں میں مقتدرہ براہ راست ایک فریق کے طور پر موجود ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے اس کردار کو کلی طور پر موجودہ سیاسی قیادت کے سپرد کر دے۔ لاکھ کہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے  اور جمہوری اساس کے  مطابق تمام فیصلے منتخب اراکین کا حق ہے لیکن منتخب اراکین نے اپنی استعداد کا جو مظاہرہ  گزشتہ چند ماہ میں کیا ہے  اس کے بعد یہ کسی طور ممکن ہی نہیں کہ مقتدرہ یا عدلیہ انہیں فری ہینڈ دے ۔ بہر حال سیاسی کھیل  عروج پر ہے اور مجوزہ انتخابات میں تقریباً سب سیاسی جماعتوں میں منشور نام کی دستاویز نا پید ہے جبکہ سب سیاسی جماعتیںغیر اعلانیہ طور پر ’’اقتدار کی سیاست‘‘ کے منشور پر عمل پیرا ہیںاور اس منشور کے مطابق کسی بھی قسم کی بے ضابطگی،بے اصولی اور جوڑ توڑ میں پوری طرح مشغول ہیں اور اسی کی صف بندیاں جاری ہیں۔ مسلم لیگ ن کی اکثریتی 30  نشستوں کے باوجود  سینیٹ کی چیئرمین شپ  اپوزیشن کے نامزد کردہ محمد صادق سنجرانی کے حصے میں آگئی ہے جبکہ ڈپٹی چیئرمین کیلئے پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا جیت گئے ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں