Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدائے کن فیکون

***جاوید اقبال***
اپنے دور کا عظیم ترین ماہر طبیعات پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ چل بسے۔ ابھی چونکہ اسکی وفات کو صرف 2 دن ہی ہوئے ہیں اس لیے عالمی سطح پر سوگ منایا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ اس کے تحقیقی کارناموں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ بہت بعد کا ناقد سائنس و علوم کی تاریخ میں اسٹیفن ہاکنگ کے مقام کا تعین کرے گا  تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جسمانی عوارض و نقائص پر قابو پاتے ہوئے اس نے اپنا سارا وقت تحقیقی سرگرمیوں کے لیے وقف کیا اور طبیعات کی پیشرفت میں قابل قدر حصہ ڈالا۔ ہاکنگ کی پیدائش 8 جنوری1942ء  کو انگلیڈکے شہرہ آفاق قصبے آکسفورڈ میں ہوئی تھی۔ بچپن لاپرواہ تھا۔ پھر 17 برس کی عمر میں 1959ء میں طبیعات کے مطالعے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ ہدف اسی مضمون میں ڈاکٹریٹ کرنا تھا۔ تاہم صرف 4 برس بعد المیہ گھر کی دہلیز پر آن پہنچا۔ ہاکنگ علیل ہوا اور اطباء نے معائنے کے بعد ایک ایسی بیماری کی تشخیص کردی جو لاکھوں میں کسی ایک کو ہوتی ہے۔ موٹر نیورون کے مرض کا شکار ہونے والا آہستہ آہستہ اپنے اعصاب کی قوت سے ہاتھ دھوتا ہے۔ پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب بدن میں صرف دماغ فعال رہ جاتا ہے یا ٓنکھیں جھپکتی ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کو اطباء نے زندگی کے صرف 2 برس دیے تھے تاہم اس نے مرض اور معذوری سے دوبدو جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2 برس گزرے، دہائی بھی گزری اور پھر دہائیاں بیت گئیں۔ وہیل چیئر پر پڑے ماہر طبیعات کے سب اعضاء بے حس ہوگئے، صرف دماغ اور آنکھوں کی پتلیاں اور پلکیں فعال رہے۔ ہاکنگ نے کائنات کے رموز پر سوچ و بچار کی۔ اس نے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت پر کام کا آغاز کیا۔ آئن اسٹائن نے تو توانائی ، کمیت اور روشنی کی رفتار کے مابین مساوات قائم کی تھی لیکن اسٹیفن ہاکنگ نے اضافت اور کوانٹم میکانکس کا باہم میلان کرکے اپنا نظریہ کائنات دیا اور یہ نئی سوچ دینے والا وہ دنیا کا پہلا سائنسدان تھا۔ پھر اس نے یہ بھی دریافت کیا کہ بلیک ہولز میں سے توانائی رستی رہتی ہے جو بالآخر ان کا وجود ختم کردیتی ہے۔ اس کے اس نظریے کو بعد میں ہاکنگ ڈاکٹرین کا نام دیا گیا۔ معذور سائنسدان نے ریاضی دان سر راجر پین روز کے ساتھ باہم تحقیقی کام کرکے ثابت کیا کہ بگ بینگ سے وقت اور خلاء کا آغاز ہوا تھا اور پھر اس مظہر کا اختتام بلیک ہولز پر ہوا تھا۔ 20 ویں صدی کے جینیئس نے آئن اسٹائن کے دیے گئے نظریے کو مزید آگے بڑھا کر سائنس کی دنیا میں کہرام برپا کردیا تھا۔ اس کی گویائی ختم ہوچکی تھی۔ اس کی سوچ کو الفاظ کا روپ دیا جاتا اور ہزاروں کا مجمع سکوت میں بیٹھا اسے سنتا رہتا۔ آکسفورڈیونیورسٹی نے اسے اپنا استاد مقرر کردیا تھا۔ یہ وہی اسامی تھی جس پر کبھی سر آئزک نیوٹن کا تقرر ہوا تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ اسے اپنے وقت کا جینیئس قرار دے رہے تھے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس کی وہیل چیئر کو سائنسی تحقیق کرنے والوں کے لیے مشعل راہ قرار دے دیا۔ جس طرف بھی وہ اپنی کرسی کا رخ کرتا ذرائع ابلاغ وہاں پہلے پہنچے ہوتے۔ تو 2 دن قبل اپنے دور کا ذہین ترین محقق چل بسا۔ ذرائع ابلاغ ابھی تک اسے خراج تحسین پیش کرکے نڈھال ہورہے ہیں۔ اب ہم اسٹیفن ہاکنگ کو تھوڑی دیر کے لیے 21ویں صدی میں چھوڑ کر ماضی کے اوراق الٹتے ہیں۔
دنیا کا سب سے پہلا کیمیا دان جابر بن حیان تھا۔ 731ء میں طوس یا خراسان میں پیدا ہوا۔ شیر خوار ہی تھا کہ باپ سے محروم ہوگیا۔ کوفہ میں ماں کے ساتھ رہائش پذیر ہوا اور تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ فلسفہ ، لسانیات ، کیمیا ، علم کائنات ، حساب ، نجوم ، ہندسہ اور موسیقی پر کم و بیش 27 کتب لکھیں۔ اس کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی سمیت یورپ کی تمام زبانوں میں ہوا۔ 9 سو برس تک علم کیمیا پر اس کی حکومت رہی۔ تیزاب جابر بن حیان کی ہی ایجاد ہے۔ 780ء میں خوارزم میں پیدا ہونے والے محمد بن موسی الخوار زمی کے تقریبا ہر تحقیقی میدان پر بیشمار احسانات ہیں۔ مقالہ لکھنے کا رواج سب سے پہلے الخو ارزمی نے ہی ڈالا۔ ایک مقتدر ماہر فلکیات ، ریاضی دان اور مورخ تھا۔ اسے الجبرا کا موجد تسلیم کیاجاتا ہے اور اس کے دریافت کردہ قاعدے اور قوانین آج بھی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ 860ء میں ایران کے’’ شہر رے‘‘ میں پیدا ہونے والا ابو محمد ذکریا الرازی طب کا باوا آدم جانا جاتا ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے ابتدائی طبی امداد کا طریقہ متعارف کرایا۔ چیچک پر اس کی تحقیق آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ ایک ماہر طبیعات ، ہئیت دان اور فلسفی رازی آج بھی اپنے وقتوں کا جینیئس مانا جاتا ہے۔ 870ء میں فاراب کے شہر ولیج میں پیدا ہونے والا ا بو نصر محمد بن عرفان فارابی کو ارسطو کے بعد دنیا کا بلند پایہ فلسفی تصور کیا جاتا ہے۔ معروف فلسفی ابن سینا ، ابن رشد اور ابن میمون الفارابی کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ 965ء میں عراقی شہر بصرہ میں پیدا ہونے والا ابن الہیثم اگر دنیا کو روشنی کے قوانین نہ دیتا تو آج بھی تحقیق کے سوتے تاریک ہوتے۔ دنیا کو مختلف موضوعات پر 92 کتب دینے والا ابن الہیثم کیمرے کا موجد بھی تھا۔ کس کس کا نام لیں؟ ان صدیوں میں جب یورپی شہروں میں طاعون اور تاریکی کا راج ہوتا تھا  غرناطہ ، بغداد اور دمشق کی گلیوں میں سرشام ہی قندیلوں کی روشنی اپنا دامن پھیلا دیتی تھی۔ ان محقیقین کی ایک ایک تصنیف نے بنی نوع انسان کے مستقبل کی راہوں کو منور کیا۔ لیکن سب تاریخ کے حواشی میں کنارہ کش کردیے گئے۔ کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ایک اسٹیفن ہاکنگ کی موت پر مغربی ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر نڈھال ہورہے ہیں لیکن کبھی کسی کو خیال نہیں آتاکہ قرون وسطیٰ میں ہونے والی تحقیق صرف مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ آئن اسٹائن ، اسٹیفن ہاکنگ اور دیگر مغربی محققین کام ادھورا چھوڑ گئے ہیں۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگلی نسلیں اسلام آباد و بصرہ و ریاض و بغداد و مدینہ و قاہرہ سے ہوں گی جو کارروان علوم کی رہنمائی کرتی آگے بڑھیں گی۔ مغرب کی بھی رہنمائی کریں گی۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
 
 

شیئر: