Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوگی کی شکست

***معصوم مرادآبادی***
اترپردیش کے بڑبولے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو خود اپنے گھر گورکھپور میں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد انہوں نے اپنی جو روایتی لوک سبھا سیٹ چھوڑی تھی، وہاں کے ضمنی چناؤ میں سماجوادی پارٹی نے پرچم لہرایا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ گزشتہ 25برس سے لوک سبھا میں گورکھپور کی نمائندگی کررہے تھے اور یہ حلقہ ان کا مضبوط ترین گڑھ سمجھاجاتا تھا۔  11 مارچ کو برپا ہوئے ضمنی چناؤ میں نہ صرف وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے پارلیمانی حلقے میں بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے بلکہ نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریا کی پھول پور نشست پر بھی سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو کامیابی ملی ہے،یعنی اترپردیش کا اقتدار سنبھالنے کے ایک سال کے اندر وزیراعلیٰ اور نائب وزیراعلیٰ عوام میں اتنے نامقبول ہوگئے کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود خود اپنی روایتی سیٹوں کو بھی بچا نے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ وزیراعلیٰ اور نائب وزیراعلیٰ کی شکست فاش میں ان سیکڑوں معصوم بچوں کی آہوں کا اثر شامل ہے جو گورکھپور کے اسپتال میں آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے تھے لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ اترپردیش میں اس وقت لاقانونیت کا جو راج ہے، وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ریاست میں پولیس کو اتنے اختیارات دے دیئے گئے ہیں کہ وہ غنڈہ گردی ختم کرنے کے نام پر بے قصور لوگوں کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کررہی ہے۔ 
یوں تو گورکھپور اور پھول پور میں 2پارلیمانی سیٹوں کا ضمنی چناؤ تھا اور اسکے اثرات یہیں تک محدود رہنے چاہئیں تھے لیکن حیرت انگیز طورپر ان ضمنی انتخابات کی بازگشت بہت دور تک سنائی دی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین کھسکنا شروع ہوگئی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بی جے پی کو لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے ،اگر آپ غور سے دیکھیں تو گزشتہ4 سال کے عرصہ میں جہاں جہاں لوک سبھا کی نشستوں پر ضمنی چناؤ ہوئے ہیں، وہاں وہاں بی جے پی کو شکست ہی ملی ہے۔ بی جے پی اب تک 11لوک سبھا سیٹوں کے ضمنی چناؤ ہار چکی ہے۔ ان میں گورداس پور ، اجمیر، الور، گورکھپور اور پھول پور کے چناؤ تو گزشتہ دنوں ہی برپا ہوئے ہیں جہاں یکے بعد دیگرے بی جے پی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ یہ وہی بی جے پی ہے جس نے 2014کے عام انتخابات میں قطعی اکثریت کے ساتھ سرکار بنائی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ اس کے خلاف لوک سبھا میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے لگی ہے۔ 
2014 کے عام انتخابات میں اترپردیش کی 80لوک سبھا سیٹوں میں سے 71سیٹوں پر قبضہ کرنے اور 2017کے اسمبلی انتخابات میں 400رکنی یوپی اسمبلی کی 325سیٹوں پر قبضہ جمانے والے بی جے پی لیڈروں کا غرور آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لارہے تھے اور ہر سطح پر من مانی چل رہی تھی۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب بی جے پی ہی اس ملک کے سیاہ وسفید کی مالک بن بیٹھی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلنے والالیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین بہت تیزی سے نکل رہی ہے۔ بی جے پی کیلئے تشویش کی بات محض اتنی نہیں کہ وہ گورکھپور اور پھول پور کی 2اہم لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہار گئی ہے بلکہ تشویش کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ اسے ایک ایسے سیاسی اتحاد نے شکست فاش سے دوچار کیا ہے جو اگر آئندہ عام انتخابات تک ایک باقاعدہ شکل میں نمودار ہوا تو بی جے پی اترپردیش میں لوک سبھا کی چند سیٹوں تک ہی سمٹ کر رہ جائیگی۔
گورکھپور اور پھول پور میں سماجوادی پارٹی کے جو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں انہیں بہوجن سماج پارٹی کی حمایت حاصل تھی اور ان دونوں ہی نشستوں پر بی ایس پی نے اپنے امیدوار میدان میں نہیں اتارے تھے۔ یوں تو بی ایس پی ضمنی چناؤمیں حصہ نہیں لیتی لیکن گورکھپور اور پھول پور کے ضمنی چناؤ میں اس نے اپنا ووٹ باقاعدہ سماجوادی امیداروں کے حق میں ٹرانسفر کرایا اور یہ کام ببانگ دہل بی جے پی کو سبق سکھانے کیلئے کیاگیا۔
آپ کو یادہو گا کہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان 1995میں اس وقت شدید رقابت پیدا ہوگئی تھی جب سماجوادی کے بعض اراکین اسمبلی نے مایاوتی کو سرکاری گیسٹ ہاؤس میں یرغمال بنالیا تھا۔ دونوں کے رشتے تبھی سے اتنے خراب تھے کہ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے لیکن اب حالات کافی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں اور دونوں ہی پارٹیاں اترپردیش میں اپنے وجود کی لڑائی لڑرہی ہیں۔ پہلے لوک سبھا اور پھر اسمبلی انتخابات میں دونوں ہی پارٹیوں کی جو درگت بنی ہے اس نے ان دونوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کیلئے مجبور کیا ہے حالانکہ ابھی عام انتخابات میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے اور اس وقت تک حالات کیا کروٹ بدلتے ہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہے ۔
لیکن یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ اترپردیش ہی نہیں بلکہ دیگر ریاستوں میں بی جے پی امیدوار کے مقابلے میں سیکولر جماعتوں کا ایک مشترکہ امیدوار ہی میدان میں اترے تاکہ بی جے پی کو شکست دی جاسکے۔ دراصل بی جے پی چناؤ کے میدان میں سب سے زیادہ فائدہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا ہی اٹھاتی ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے کئی کئی امیدوار میدان میں اترتے ہیں جس کی بنا پر ان کا ووٹ منتشر ہوجاتا ہے اور بی جے پی آسانی کے ساتھ کامیاب ہوجاتی ہے لیکن اب جس طرح سیکولر پارٹیاں ایک پرچم کے تلے جمع ہورہی ہیں اور کانگریس بھی یوپی اے کو دوبارہ مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا ایک ہی پیغام ہے کہ بی جے پی کیخلاف سب کو متحد ہوجانا چاہئے۔ یوں بھی بی جے پی نے این ڈی اے کہ پرچم تلے جن علاقائی جماعتوں کا اکٹھا کیا تھا وہ بی جے پی کی وعدہ خلافیوں اور فریب دہی کی وجہ سے  ناتہ توڑرہی ہیں۔ اس کی تازہ مثال آندھراپردیش کی تلگودیشم پارٹی ہے جس نے پہلے مودی سرکار سے  ناتہ توڑا اور اب وہ این ڈی اے سے بھی باہر ہوگئی ہے۔ شیوسینا پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ وہ عام انتخابات میں بی جے پی سے مفاہمت نہیں کریگی۔ اس کا ایک ہی پیغام ہے کہ بی جے پی کا جہاز ڈوب رہا ہے اوراپوزیشن کا پرچم طلوع ہورہا ہے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں