Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسان کام کچھ بھی کرے، اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے

اُم مزمل۔جدہ
وہ چینل پر آنے والی رپورٹ دیکھتے ہوئے بے اختیاری کیفیت میں امنڈ آنے والے آنسوﺅ ں کواپنی ہتھیلی کی پشت سے صاف کر رہی تھی۔ سامنے نگاہ گئی تو دیکھا ،وہ مسکرا رہا تھا اور اسکی نگاہ اسکرین پر ٹکی تھی۔ وہ دہشت زدہ ہوکر پوچھنے لگی،کوئی اس جیسے شدید اذیت دیتے شخص کو دیکھتے ہوئے کیسے مسکرا سکتا ہے؟
وہ اس کی آنکھوں کی طغیانی کو اپنا راستہ بناتے تھوڑی تک پہنچتے دیکھ چکا تھا۔ اسی لئے کہاکہ مالک حقیقی نے ہر انسان کو ایک جیسا ہی بنایا ہے لیکن پھر بھی ہر ایک انسان دوسرے سے مختلف ہو تا ہے اوراسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک واقعے یا ایک منظر کو دیکھ کر ہر ایک کا ردعمل کتنامختلف ہو سکتا ہے۔ 
وہ حیرت سے پوچھنے لگی کہ تکلیف پہنچانے والی چیز تو ہر انسان کو ایک دکھ کا ہی احساس دلائے گی۔وہ کہنے لگا،ہاں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہر ایک کاردعمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔روزانہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں، راستے میںکبھی کسی کے ساتھ حادثہ بھی ہوجاتا ہے۔ صرف ایک لمحے کی بات ہوتی ہے اور وہاں موجود ہر فرد کا امتحان اس وقت ہو جاتا ہے۔امتحانی پرچہ تو سب کو ملتا ہے لیکن کوئی اس کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کوئی اس ناگہانی حادثے پر خود اتنا دہشت میںآجاتا ہے کہ اپنی گاڑی پر کنٹرول بھی نہیںرکھ نہیں پاتا۔کچھ
زخمیوں کی حالت زار اور انکی تکلیف میں ڈوبی چیخ وپکار میں اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ وہ اتنی ہمت بھی خود میںمجتمع نہیں کر پاتا کہ ان کی مدد کو آگے بڑھ سکے اور ایسی حالت میں وہ جواپنے خالق کو پکارتے ان زخمیوں کی مددکو دوڑتے ہیں ،انہیں اسپتال پہنچاتے ہیں اور اس بات کایقین رکھتے ہیں کہ انکی پکار سنی جاتی ہے اورایک کوآگے بڑھتے دیکھ کر وہاں موجوددوسرے لوگ بھی مدد کو پہنچ جاتے ہیں ۔کچھ لوگ حادثے کی جگہ پر خون دیکھ کر خود بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیںاور کچھ لوگ ان زخمیوں کی فوری طبی امداد کے تحت پٹی باندھتے ہیں کہ ان کے
جسم سے زیادہ خون نہ بہہ جائے اور متاثرین میں سے جوہمت سے کام لے انکی حوصلہ افزائی کے لئے مسکرا کر تسلی کے بول بولتے ہیں کہ آپ ہمت والے ہیں۔ یہ معمولی چیزیں آپ کا حوصلہ نہیں توڑسکتیںاور دراصل اس خبر کی وڈیو دیکھ کر آپ کی آنکھیںبھر آئیں کیونکہ آپ نے دیکھا وہ قیدی کو کتنی بے دردری سے مارنے کے بعد اس بے ہوش قیدی کو ہوش میں لانے کے لئے اس پر پانی ڈال رہے تھے اور یہ کون نہیں جانتا کہ کھلے زخم پر پانی کتنی تکلیف کا باعث ہوتا ہے لیکن میری نظر وہاں موجود ان لوگوں پر تھی جو دنیا کا ہر حربہ آزمانے کے بعد بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرپائے تھے۔ان پر ایک ایسا ہی انجانا خوف ہر ہر لمحہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتاہے کہ آج بھی ان میں ٹیپو سلطان اور اسی کی طرح اورلوگ جو گزرے ہیں کہ ایک اپنی ذات میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند تھے۔ شہادت کے تین دن بعد جب ٹیپو سلطان کے لاشے کے اوپر سے کئی جانبازوںکے بے جان اجسام ہٹائے گئے تو ٹیپو سلطان کے پررونق چہرے پر نظر پڑتے ہی آفیسر اپنے خوف پر قابو نہ پاسکا اور اس نے سمجھا کہ اب اس کے ہاتھ میں جو ٹوٹی تلوار ہے، اس سے وہ اس کا کام لمحوں میں تمام کر دے گااور اس بے اختیاری کیفیت میں اپنا بچاﺅ کرنے کی کوشش میں اس کا ہاتھ اپنی کمرکے گرد موجود تلوار پر پہنچ گیا۔یہ تھا ٹیپو سلطان کا ان پر رعب و دبدبہ ۔
دنیا بظاہر مادی اشیا ءمیں ترقی کرتی نظر آتی ہے اور یہ سب کچھ ممنوع بھی نہیں ہے لیکن بحیثیت انسان یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ انسان اس دنیا کی ہر شے سے افضل ہے اور اسکی تذلیل کسی طور مناسب نہیں اور اس بات کا اندازہ لوگوںکو اس وقت ہو پاتا ہے جب انسان اپنے خالق کی دی ہوئی باطنی طاقت سے ہرمصیبت کا سامنا کرتا نظر آتا ہے اور اس کو یہ بات بھی یادرہتی ہے کہ مالک حقیقی کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا اوریہ بات بھی ہمت دیتی ہے کہ ہر کلمہ گو کو اپنی صداقت پر اجرملے گا۔
پہلے زمانے کی طرح لوگ آج بھی آزمائے جارہے ہیں اور ایک دنیا کو ان کا غیرمتزلزل ایمان خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔مفید علم آدمی کا ہتھیار ہے ۔علم وہی جو عمل میںلایا جائے ۔اپنی مٹی میں اپنے لئے اناج اگانا چاہئے،محنت و مزدوری سے جی نہیں چرانا چاہئے۔ہر انسان اپنی جگہ ایک اہم حیثیت رکھتا ہے چاہے وہ کسی تعلیمی ادارے میں طالبعلموں کو پڑھاتا ہو،چاہے کوئی طبیب اللہ کریم کے حکم سے لوگوںکا بہترین علاج کرتا ہو، چاہے کوئی زراعت کے شعبے میں اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ترقی کرتا ہو،چاہے کوئی سب مسافروں اور ان کے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے کا کام وغیرہ کچھ بھی کرتا ہو، سب اپنے خالق کے سامنے جوابدہ ہیں۔
٭٭جاننا چاہئے ،ایمان دنیا کی سب سے عظیم دولت ہے۔ یہ جسے نصیب ہوجائے ،وہ مادی دنیا سے مرعوب نہیں ہوتا۔
 

شیئر: