Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اولاد کی تربیت ، سورۃ لقمان کے تناظر میں

حضرت لقمان کی نصیحتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں بچوں سے ان کی نفسیات اوران کی ذہنی اپروچ سامنے رکھ کر بات چیت کرنی چاہئے
* * *
عبدالمنان معاویہ ۔ لیاقت پور،پاکستان
* * *
    دین اسلام میں جس طرح والدین کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور ’’وبالوالدین احسانا ‘‘فر ماکر نوجوانوں کو والدین کی فرمانبرداری کی ترغیب دی گئی ہے ،اسی طرح دین اسلام نے والدین کو اولاد کی اچھی تربیت کا بھی حکم دیا ہے ۔ہمارے ہاں عام طور پر والدین کے حقوق کے حوالہ سے بات کی جاتی ہے لیکن اولاد کی حقوق کی بات عمومی طور نہیں کی جاتی اور اگر اولاد کا ذکر آبھی جائے تو موجودہ دور میں بچیوں کے حقوق وتربیت کے طور پر ہی بات کی جاتی ہے ۔یہ صحیح ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی بعض ایسے شقی القلب لوگ موجود ہیں جو بچیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے یا جانتے ہیں اس لئے اس موضوع پر لکھنا ،بولنا ضروری ہے لیکن اولاد میں صرف لڑکی ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں اور ماں باپ کو یکساں اولاد سے محبت کرنی چاہیے اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔اس ضمن میں ہم قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
    سورۂ لقمان میں حضرت لقمان نے جو وصیت اپنے بیٹے کو کی تھی،حق جل مجدہ  اُسے قرآن کریم میں بیان فرماتے ہیںکہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا :
    ’’ اور اُس وقت کا ذکر کیجئے جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا ،بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ‘‘۔
    آگے حضرت لقمان نے فرمایا کہ :
    ’’ اے میرے بیٹے!اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تو بھی اسے معمولی نہ سمجھنا،وہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ظاہر کردے گا،بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین وباخبر ہے ،اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو ،اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو ،اور برے کاموں سے منع کیا کرو،اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو،بے شک یہ(صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے ،اور لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ،اور زمین پر تکبر سے مت چلو(کیونکہ) بے شک اللہ تعالیٰ کسی متکبر کو پسند نہیں فرماتے ،اور اپنی چال میں میانہ روی اختیا رکرو،اور اپنی آواز کو پست رکھو ،بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے ۔‘‘ (سورۃ لقمان ،آیت نمبر12 اور 16 تا 19 )۔
    اس آیت کریمہ میں حق تعالیٰ نے حضرت حکیم لقمان کی دانائی وحکمت والی نصیحتیں جو انہوں نے اپنے فرزند سے کیں انہیں بیان فرماکر چند باتوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس کے نام سے نہیں پکارا ،بلکہ اے میرے بیٹے کہہ کر پکارا ہے ،جس سے پتہ چلا کہ نام لینے سے محبت کا وہ اظہار نہیں ہوتا ،جو’’ اے میرے بیٹے ‘‘کہنے سے محبت کا اظہارہوتا ہے ۔ جس طرح ماں لاشعوری عمر میں بچے کو محبت میں ’’میرالعل ،میراچاند ،میرامٹھو،میرا سوہنا‘‘ وغیرہ جیسے القاب سے پکارتی ہے اسی طرح جب بچہ شعوری عمر کو پہنچ جائے تو بھی اس سے اسی اندازِ محبت میں بات کریں گے تو ماں باپ کی بات بچے کے دل ودماغ پر اثر انداز ہوگی ۔
    اس کے بعد سب سے پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی ،وہ توحیدِ باری تعالیٰ سے متعلق تھی ،کہ’’ میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا‘‘ ۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو سب سے پہلی دینی عقائد وافکار کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ بڑا ہوکر وہ ایک اچھا مسلمان بنے ۔اُس کے عقائد جب صحیح ہوں گے تو اعمال بھی ان شاء اللہ صحیح ہوں ۔اگر عقائد قرآن وسنت سے متصادم ہوئے تو یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ راست اعمال کرے گا ،اس لئے سب سے پہلے بچے کو دینی تعلیم دی جائے۔ قرآن وسنت کی تعلیم ماہر ین قرآن وسنت سے دلوائی جائے۔ہمارے معاشرے کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جسمانی تکلیف مثلاً دانت میں درد ہوتو ہم دانت کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ،دل کا مسئلہ ہو تو ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں لیکن جب علم قرآن کریم واحادیث نبویہ ؐ  کا معاملہ پیش آتا ہے تو ہم ایک مستند عالم ِدین کو چھوڑ کر غیر عالم کے پاس جاتے ہیں ،جس سے اکثر بگاڑ پید اہو جاتا ہے ۔
    آگے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ’’ میرے بیٹے! عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو روزِ محشر اللہ تعالیٰ اسے تمہارے سامنے لے آئیں گے ۔‘‘
    یعنی کوئی عمل وہ اچھا ہویا برا ،اسے معمولی مت سمجھنا کہ روزِ محشر تمہیں اس کا سامنا کرنے پڑے گا ۔اگر عمل صالح ہے تو وہ تمہارے لئے روزِ محشر مفید ثابت ہو گا اور ہوسکتا ہے کہ جسے تم معمولی سمجھو روزِ محشر وہی تمہاری شفاعت کا سبب بن جائے اور اگر وہ عمل طالح (برے)ہیں ،تو تم بروزِ محشر اسے چھپا نہ پائو گے ،وہ بھی تمہارے سامنے آجائے گا ۔اللہ تعالیٰ اُس عمل کو جسے تم معمولی سمجھ رہے ہوگے تمہارے سامنے ظاہر کردیں گے اور وہاں انکار کی گنجائش نہ ہوگی ۔
      حضرت لقمان مزید فرماتے ہیں کہ’’ اے میرے بیٹے ،نمازقائم کرو ،اور اچھے کاموں کی تلقین کیا کرو اور برے کاموں سے منع کیا کرو۔‘‘
    حضرت لقمان کے فرمان میں3 امر ہیں:
    (1)نماز قائم کرو۔
    نماز ہر شریعت میں رہی ہے۔ اس کی کیفیت ؍ ہیت میں تبدیلی واقع ہوتی رہی ، پھر نماز کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ :
    ’’اللہ کی مدد چاہو ،نماز اور صبر کے ذریعہ سے۔ ‘‘(سورہ و آیت؟؟؟)۔
    اسی طرح نماز جسم وروح کے لئے باعث سکون وراحت ہے اور ایک مسلمان کو دنیاوی کوئی فائدہ بھی نہ ہو، وہ نماز صرف اللہ کا حکم سمجھ کر پڑھے تو اس سے مالک راضی ہوگا اور جب مالک راضی ہوتا ہے تو غلام پر انعامات کی بارش کرتا ہے۔
     (2)اچھے کاموں کا حکم کرو۔
    ایک شخص دوسرے کو جب اچھائی کا حکم دے گا تو لامحالہ امر ہے کہ اول وہ خود بھی تو اچھے کام کرے گا ۔اگر اس کا عمل اچھائی کے برعکس ہوتو اس کی بات نہیں سنی جائیگی اور اگر سن بھی لی جائے تو اس کا اثر نہیں ہوگا ۔
     ( 3)برائی سے منع کرنا۔
    برائی سے منع کرنا بھی اسی وقت ممکن ہے جب خود برائی سے باز رہے۔ اگر کوئی شخص خود برے کام کرے اور دوسروں کو کہے یہ نہ کرو تو اس کا کتنے اثر ہوگا یہ ہر عام وخاص جانتا ہے ، اس لئے ایک داعی کو 2کام لازماً کرنے پڑیں گے کہ وہ خود بھی اچھے کام کرے اور برے کاموں سے باز رہے ،اس طرح وہ دوسروں کو تبلیغ کرسکے گا۔ جب ایک شخص اچھے کام کرتا ہے اور اچھائی کا حکم بھی دیتا ہے اور برے کاموں سے باز رہتا ہے اور برائی سے منع بھی کرتا ہے تو لامحالہ بات ہے کہ بہت سے لوگ اس کے دشمن بن جائیں گے ،وہ اسے جانی نقصان نہ بھی پہنچائیں ذہنی اذیت دیتے رہیں گے جس پر اسے صبر کرنا ہے اور یہ لمحات بڑے ہمت کے ہوتے ہیں کہ بے وجہ تنقید برداشت کی جائے ،بے وجہ کے طعنے سنے جائیں ، اس پر طنز واستہزاء کے تیر برسائیں جائیں اور ان سب کے جواب میں وہ خاموش رہے اس کے لئے بڑی ہمت وبڑا حوصلہ چاہیے اور یہی بات حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمائی تھی کہ صبر کرنااور صبر کرنا بڑی ہمت کا کام ہے ۔
    اور جن لوگوں سے مزاج نہیں ملتے ،ان سے بھی بے رخی سے بات مت کرو،دوستانہ نہ ہونا ایک الگ معاملہ ہے لیکن یہ نہ ہو کہ جن
 کے ساتھ مزاج کی ہم آہنگی نہیں ،ان سے بے رخی برتی جائے ،ان کے ساتھ بے اعتنائی کا معاملہ کیا جائے ۔حضرت لقمان نے اپنے لخت ِ جگر کو اس سے منع فرمایا اور مزید فرمایا کہ متکبر مت بنے ،یعنی بے رخی کا معاملہ تکبر کے زینے کی پہلی سیڑھی ہے ،اس سے بچنا اور ساتھ ہی فرمادیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بھی متکبرین کو پسند نہیں فرماتے اس لئے تکبر سے بچنا ۔اس کے ساتھ ہی حضرت لقمان نے فرمایا کہ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو،یعنی زمین پر اکڑ کر چلنا بھی تکبر کے قبیل سے ہے ،زمین پر اکڑ کرمت چلو ، اعتدال ہر شے میں لائق تعریف ومدح ہوتا ہے او ر افراط وتفریط لائق مذمت ،اس لئے ان دونوں امور سے بچ بچا کر ایام ہائے حیات بسر کرو۔
    آخری بات حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو یہ سکھائی کہ اے میرے بیٹے !اپنی آواز کو پست رکھو۔یہاں بھی وہی درج بالا امر ہے یعنی عدل ، اعتدال ۔یعنی آواز نہ اتنی پست ہو کہ دوسرا سن ہی نہ سکے اور نہ ہی اتنی زور زور سے بولو کہ دوسروں کی آواز تم نہ سن سکو ۔یاد رکھو کہ گدھا زور زور سے بولتا ہے لیکن صوت الحمار اللہ تعالیٰ کو ساری آوازوں میں سے زیادہ ناپسندیدہ ہے ۔
    قارئین کرام! حضرت لقمان کی اپنے فرزند ِدلبند کو یہ نصیحتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں اپنی اولاد (بچوں) سے ان کی نفسیات سامنے رکھ کر ،ان کی ذہنی اپروچ کا انداز لگا کر بات چیت کرتے رہنا چاہیے اور آج کے ماحول کا تقاضا یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ڈسکس کریں تو اس کے تنائج زیادہ بہتر رہیں گے ۔ڈانٹ ڈپٹنے کے دور گزر چکے ہیں ۔
    حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم کے ساتھ10 برس رہے ۔آپ ؓ خود فرماتے ہیں کہ ان10 برسوں میں کبھی نبی کریم نے مجھے نہیں ڈانٹا ۔ایک واقعہ حضرت انس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم نے مجھے کسی کام سے بھیجا ۔میں بچوں کے ساتھ کھیل کھود میں لگ گیا ،اس کے باوجود بھی نبی رئوف رحیم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔اسی طرح صحاح ستہ میں شامل حدیث شریف کی کتاب ’’سنن ابن ماجہ ‘‘میں فرمان نبویؐ موجود ہے کہ :
    ’’اکرمو اولاد کم واحسنو اوبھم ‘‘
    "اپنی اولاد کے ساتھ نرمی برتو،اور ان کی بہتر تربیت کر و۔"
    اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم نے بھی اپنی امت کو اولاد کی بہتر تربیت کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور اولاد کی تربیت اگر طرزِ نبویؐ پر کی گئی تو ان شاء اللہ اولاد کی دنیا وآخرت بھی سنوارے گی اور والدین کی بھی لیکن ہمارا اجتماعی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم معروضی حالات سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں اور سابقہ دور کے خود تو نہیں بنتے لیکن اپنے بچوں اوراپنی بیوی کے ساتھ وہی برصغیر کی جاہلانہ رسوم ورواج کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں جبکہ اسلام جاہلانہ رسم ورواج کو مٹانے آیا ہے اور اس نے والدین کے حقوق کے ساتھ اولاد کے حقوق بھی بتلائے ہیں ۔
    اس وقت سورۂ لقمان کی آیات کے تناظر میں گفتگو کرنا مقصود تھی ۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل ِ صالح کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل ؑکو آدابِ فرزندی
مزید پڑھیں:- - - - - -عظیم مسلمان سیاح ، ابن بطوطہ
      

 

شیئر: