Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمنسٹی اسکیم ابتدا ہی میں متنازعہ ہوگئی

حکومت نے مکانات پر قبضہ کیا تو ریئل اسٹیٹ بزنس کو دھچکا لگے گا ریونیو کم ہوجائیگا لیکن وکلاء کے مزے آجائینگے، نئی اسکیم پر تجزیہ
 صلاح الدین حیدر ۔ بیورو چیف۔ کراچی
اعلان کے ساتھ ہی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متنازعہ بن گئی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا پریس کانفرنس میں دعویٰ کہ ٹیکسوں میں کمی ساری ہی سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہے فوراً ہی غلط ثابت ہوگیا۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان  خان اور پارٹی کے ترجمان فواد چوہدری نے اسے مسترد کردیا۔ ان کے خیال میں یہ ساری اسکیم منی لانڈرنگ کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن اسکیم میں خوبیاں بھی ہیں۔تنخواہ دار طبقہ ، خواہ حکومت ہو یا نجی اداروں میں بہت خوش نظر آتاہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں شاید ہی پہلے کبھی اس قدر فائدہ پہنچا یاگیا ہو۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ سب سے پہلے لوگوں کی ماہانہ آمدنی میں انکم ٹیکس کی چھوٹ 60کی دھائی میں  یا ان کے کہنے کے مطابق ایوب خان کے دور حکومت میں دی گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ محمد شعیب نے  جو دراصل ورلڈ بینک  سے تعلق رکھتے تھے۔ ملازمین کو سالانہ آمدنی میں 50ہزار کا انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا۔ وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئیںلیکن 2000 یا ان کے کہنے کہ مطابق 40 سال تک یہ سلسلہ یو ں ہی برقرار رہا۔ 2001ء میں جنرل مشرف کے زمانے میں اسے بڑھا کر ایک لاکھ اور پھر دوسرے سال 2 لاکھ روپے کی چھوٹ دی گئی ۔ نچلے طبقے کے ملازمین کیلئے یہ بہت بڑی خوش خبر ی تھی۔بے نظیر اور نواز شریف کے دور حکومت میں اسے بڑھا کر 3اور پھر 4لاکھ کر دیا گیا لیکن جب سے یہ استثنیٰ ساکت اور جامد تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے اعلان سے انکم ٹیکس چھوٹ بڑھا کر 12لاکھ کردی گئی ۔ان کا 5اپریل 2018 کا اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں اعلان متوسط طبقے کیلئے خاص طور پر ملازمین پیشہ حضرات کیلئے کسی تحفے سے کم نہیں تھا۔ ملازمین پیشہ طبقہ، خواہ حکومت میں ہو یا نجی ادارے کے لئے تو خوشی کی انتہاء نہیں تھی،85 فیصد لوگ اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اسلئے یہ پاکستان میں تنخواہ کی حد بندی  عمومی طور پر 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ ظاہر ہے انہیں ٹیکس فارم تو بھرنا پڑے گا ستمبر یا اکتوبر میں، لیکن انہیں صرف زیرو (0) انکم لکھنا ہوگا اور بس ، کوئی ٹیکس نہیں ہاں پیشہ ور طبقہ جیسے ڈاکٹر ، وکلاء، شعبہ صحافت میں سینیئر حضرات نیوز ایڈیٹر ، بیوروچیف ، ایڈیٹر وغیرہ کی تنخواہ اچھی خاصی ہیں۔ کچھ بہت زیادہ مشہوراخبار یا پھر ٹی وی اینکر کی تنخواہیں لمبی چوڑی ہوتی ہیں۔ ایک اور خاص بات اس اسکیم میں زمینوں کی خرید و فروخت سے تعلق رکھتی ہے، اس وقت کراچی ، لاہور ، اسلام آباد جیسے شہروں میں زمینوں اور مکانات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ 4/5 کروڑ سے لیکر 20/25/30 کروڑ تک کی حدو ںکو چھوتی ہیں لیکن فی الوقت  زمینوں اور مکانات کی فروخت کی قیمت رجسٹرا ر کے نزدیک صرف 40/45 لاکھ ہی ہوتی ہے اور خریدار کو معمولی ٹیکس دے کر چھٹکارہ مل جاتاہے ، اب اگر نیا قانون نافذہوگیا تو پھر دکانوں، مکانوں ، اور خالی پلاٹوں کی قیمت پر بھاری ٹیکس لگنے سے رئیل اسٹیٹ بزنس کو زبردست دھچکا لگے گا اور شاید ایک ایسا شعبہ ہے جو کہ فی الحال بہت زیادہ فائدہ مند ہے، مندی کی نظر ہوجائیگا ۔اس کا نقصان حکومت کو بھی ہوگا اس لئے کہ جہاں وہ بہت زیادہ ٹیکس کی امید لگائے بیٹھی ہے، تو اسے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے بازار میں مندی آگئی تو پھر  ٹیکسوں میں بھی کمی آجائے گی۔ ایسا نہ ہو کہ محکمہ ریونیو کے خواب چکنا چور ہوجائیں۔ خدشات تو ایسے ہی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہی اس بات کا صحیح اندازہ ہوگا۔عمران کے ساتھ ہی ، پیپلز پارٹی نے بھی اس اسکیم کی مخالفت کردی ہے، اسے خطرہ ہے کہ اس کا بجٹ کہیں بد انتظامی کا شکار نہ ہوجائے۔عباسی صاحب نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اگر زمینوں اور مکانات کی خرید و فروخت کی صحیح قیمت کاغذات پر نہیں دکھائی گئی تو پھر حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ 5 لاکھ میں خریدے ہوئے مکان یا فلیٹ کو دوگنی قیمت دے کر یعنی 10 لاکھ میں خود خرید لے۔ اب یہ کیسے ممکن ہوگا۔ اس لئے کہ کسی کی ذاتی جائیداد پر حکومت نے ہاتھ ڈالا تو عدالتوں میں مقدمات کی  بھرمار ہو جائے گی۔ لوگ فوراً ہی قانونی تحفظ کا سہارا لیں گے اور عدالتیں حکم امتناعی دینے پر مجبور ہوں گی۔ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف فوری فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے مقدمات خاصا لمبا عرصہ چلتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وکلاء کے مزے آجائیں گے۔ لیکن جج صاحبان پر بہت زیادہ بوجھ پڑ جائے گا۔ ویسے بھی نواز شریف کی زبانی معلوم ہوا کہ سپریم کور ٹ میں 13لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یہ تو چلیں ایسے معاملات ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں چلتے ہی رہیں گے۔ کوئی اور حکومت آ بھی گئی تو اس میں تھوڑا بہت ردّو بدل کرے گی، لیکن انکم ٹیکس پر دی گئی چھوٹ کو واپس لینے کی کسی سیاسی برسراقتدار جماعت میں ہمت نہیں ہوگی۔عوام کو دی گئی سہولت واپس لینے کا مطلب شور شرابا، ہنگامہ، مظاہرے، اور نہ جانے کیا ہوگا۔ ہاں جو بات سب سے اہم ہے وہ ہے جنرل ایمنسٹی انکم یعنی  پاکستانیوں کا خفیہ سرمایہ ملک سے اندر ہو یا باہر اسے ملک کے اندر ظاہر کرنے پر 5 فیصد انکم ٹیکس اور ،بیرونی دولت ڈالر اکائونٹ میں ہو کسی یا کسی اور کرنسی میں ظاہر کرنے پر 2 فیصد انکم ٹیکس دے کر کالے دھندے کو سفید کرنے کی سہولت جو  شروع سے ہی تنقید کا نشانہ بن گئی ۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر نے تو صاف طور پر کہہ دیا کہ تجارتی برادری کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ تنخواہ دار طبقہ بے شک منافع میں رہے گا۔ ماہر معاشیات شبر زیدی نے تو اس کا خیر مقدم کیا ہے، ان کے مطابق ٹیکس evasion کے تحت جمع کی گئی دولت منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ ڈالر اکائونٹ رکھنے والے اس کی زد میں نہیں آتے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی  نے اس اسکیم کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر زور دیا ، قرضے معاف کرانے والوں کی تفصیل  بھی مانگ لی گئیں۔سینیٹ کے سابق چیئر مین رضا ربانی نے پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کا اعلان کیا ہے  لیکن اکثر تجزیہ کار اسے بہترین قرار دے رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں اکثریت ہے۔ وہاں وہ جاری کیا جانے والا آرڈیننس با آسانی پاس کروا لے گی لیکن سینیٹ میں کیا ہوگا جہاں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے  اور جہاں اب ایک بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نئے چیئر مین مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔عمران خان کی پارٹی بھی اسے مستر د کرچکی ہے۔ تو پھر ایک ایسی حکومت جو کہ صرف 2 مہینے کی مہمان ہے۔کیسے معاملات کو لے کر آگے چلے گی اسی پر بحث جارہی ہے۔
*********

شیئر: