Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استاد ،شا گرد ، اسکول قا بلِ رشک مستقبل کشید کرنیوالی مثلث

تسنیم امجد۔ریا ض
نظم و ضبط سے مراد وہ ا صول و ضوابط ہیں جو روز مرہ زندگی پر لا گو ہو تے ہیں اور جن سے زند گی کا پہیہ آ سا نی و فرا وا نی سے گھو متا ہے۔ انہیں قوا نین کہا گیا ہے ۔ان ضا بطو ں کی جڑیں انسان کی پیدائش کے بعدسے اس کے گردو پیش میں ہی ہو تی ہیں ۔یہ وہ پو دا ہے جس کی نگہداشت روزِ اول سے ہی مقصود ہے۔لا پر وائی کے نتےجے میں اس کی نشو نما حسبِ منشاءنہیں ہوتی ۔اس تمہید سے مراد انسان کے گر دو نوا ح کا ما حول ہے جو اس کی پر ورش کرتا ہے ۔ہر انسان اپنے ما حول کی پیدا وار ہے ۔اس کی شخصیت پر اس کی چھاپ اس طرح پڑ تی ہے کہ وہ اس کے مطا بق ہی عمل کرتا ہے ۔
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر ایک آ زاد ملک، جس کی مٹی زر خیزاور وسا ئل سے بھر پور ہے،اپنے ان پو دو ں کی بے سرو سا مانی کی عکاس ہے جو اپنی ہی مٹی سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔تعلیم کی اہمیت و افا دیت کو کون نہیں جا نتا لیکن اس کے حصول کے بھی کچھ قا عدے و قوا نین ہو تے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بچے تعلیم کے ا صل مقصد سے سر فراز ہو ں گے ؟ان ضوابط کا انہیں احساس ہو گا جو معا شرے کی روح ہیں؟اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا ۔کاش ہمار ے کر تا دھرتا اس کا ادراک کر لیں۔اسکول ،گھر کے ما حول سے پڑ ھے سبق کی پہلی لیباریٹری ہے ۔ما ں کی گودپہلی درسگاہ ما نی گئی ہے ۔اسکول کا ما حول اس میں نکھار لانے میں اہم ہوتا ہے ۔بچے کا ذہن خالی سلیٹ کی ما نند ہے ۔تضاد ِزندگی اس کی شخصیت پر بہت برا اثر ڈا لتا ہے ۔ما ں کی سنائی کہا نیا ں اورلو ر یا ں اسے جھو ٹی لگتی ہیں ۔استاد کا احترام بھی اسے مقدم ہے ۔وہ اپنی ڈا نواں ڈول سوچ کے ہا تھو ں مجبور ہو کرآ خر کار خود کو حا لات کے رحم و کرم پر چھو ڑ دیتا ہے ۔
تعلیمی ادارے انسان کی بو دو با ش میں نہا یت اہم ہیں ۔کسی قوم کی تر قی ،کردار کی نشو و نما اسی سے ممکن ہے ۔مادرِ علم یعنی اسکول ایک معا شرتی ادارہ ہے ۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کا تعلق فرد اور معا شرہ دو نو ں سے ہے ۔نظم و ضبط ایک اعلیٰ معا شرے کی روح ہے جس کا سبق اسکول سے شروع ہو تا ہے ۔آ خر کار ایک طا لب علم تمام ضوابط کا مر کب بن کر فا رغ ا لتحصیل ہو تا ہے اور پھر اپنا مقام متعین کرتا ہے تاکہ معا شرتی زندگی میں بھر پور کردار ادا کر سکے ۔اسکول خود ایک دنیا ہے اس کا معاشرہ ،بڑے معا شرے کی بنیاد ہے ۔ایسے اسکو لو ں کے بچے بے چارے خودکو با ہر کہ دنیا میں کیا ثابت کر سکیں گے؟ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اسکولوں کو کس قدر اہمیت دی جا تی تھی۔استاد کا درجہ اس قدر بلند تھا کہ حکمران وقت بھی اس کی تکریم کرتاتھا ۔طا لب علمو ں پر ان کی دھاک اس طرح بٹھا دی جا تی تھی کہ وہ ان کو رو حانی باپ جا نتے تھے ۔ا خلاقی ضبط پذ یری کا یہ عالم تھا کہ محض استادکے تصور سے ہی رو ح کپکپا اٹھتی تھی کہ کو ئی شکا یت ان تک نہ پہنچ جا ئے ۔یہ خوف ان کی بے پناہ عز ت کی بدولت تھا ۔ آج نہ تو وہ طلبہ رہے اور نہ ہی وہ استاد و والدین ۔اس کے ذمہ دار ہمارے صاحبان اختیار ہیں۔
در اصل استاد ،شا گرد اور اسکول ایک ایسی مثلث ہے جو باہمی جدو جہد سے ملت کی اعلیٰ تر بیت اور ملک کے قا بلِ رشک مستقبل کی تعبیر کشید کر تی ہے ۔افسوس کہ آج دور جا ہلیت کو ہم مختلف انداز میں اپنا رہے ہیںاور خود پر نام نہاد تر قی کا لیبل چسپاں کر کے شا دیا نے بجا رہے ہیں ۔
حالات کی ستم ظریفی کے مارے استاد اور شا گرد ، کس منزل کو اپنا کہیں ؟ طلباءکو کون سا سبق پڑ ھا ئیں ؟ کتا بو ں میں لکھا ہوا یا وہ جو ماحول انہیں پڑ ھا رہا ہے ۔اس ضطراب کو کیا نام دیا جائے ؟وطن میں ایک جانب ان سے قدرے بہتر تعلیمی اداروں کے نقص بھی سنبھا لے نہیں سنبھلتے ۔اکثر طلباءکبھی جماعت میں زیادہ بچو ںکی شکایت کرتے ہیں ،کبھی گرمی کا شکوہ کہ ایئر کنڈیشنر کام نہیں کر تا اور کبھی میز اور ڈیسک کا کہ یہ آرام دہ نہیںہیں۔حال ہی میں آ پا کا بیٹا صرف اسی وجہ سے اسکول جا تے ہوئے روزانہ ا ڑی کرتا ہے اور ڈا نٹ کھا تا ہے ۔ان بچوں کو کمرہ¿ جماعت کے آداب کون سکھائے گا ؟ ہمیںوہ اسکول بھی یاد آ ئے جن میں اسکول اوقات کے بعد جانور یعنی گھو ڑے،گا ئیں بھینسیں اور بھیڑیں با ندھی جا تی ہیں۔اگلے دن طلباءاس بد بو کی شکا یت کرتے ہیں تو ان کو ڈا نٹ کر چپ کرا دیا جا تا ہے ۔کس سے شکوہ کریں کہ:
جن کے دامن کی ہوا میرے چرا غو ں پہ چلی 
وہ کو ئی اور کہا ں تھے، وہ مرے ہمدم تھے
قوم کو تعلیم سے دور رکھنے کی شا ید اسی لئے کو شش کی گئی کہ انہیں شعور نہ آسکے ۔یوں وہ سچ اور جھو ٹ میں تفریق نہیںکر سکیں گے ورن انہی کے گریبان پکڑے جا ئیں گے ۔اولاد کی تعلیم کے ذمہ دار والدین ہو تے ہیں ۔خواہ امیر ہو ں یا غریب ۔والدین کی اس فطری خواہش کو کو ئی دبا نہیں سکتا مگر آج روٹی کی فکر میں ان کو اس طرح دبا دیا گیا ہے کہ بیچارے تعلیم سے بیگا نے ہو چکے ہیں ۔وہ مجبور ہو کراپنے جگر کے ٹکڑوں کومز دوری کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔غریب ہو نا کو ئی جرم نہیں لیکن ان کے جذبات سے کھیلنا بڑا جرم ہے ۔اس نا قا بلِ تلافی جرم کی سزا کچھ بھی نہیں ۔اخلاقیات کی سزا ہے تو سہی لیکن اس کی پا سداری کا خیال کسی کو نہیں ۔ان معصوم بچو ں کے حقوق کی چر خی پیچھے کو گھوم رہی ہے ۔ما ضی کے ٹاٹ اسکول جن کا انگریزی اسکول والے مذاق ا ڑاتے تھے ،ان کے تعلیمی معیار کا کو ئی مقا بلہ نہیں کر سکتا تھا ۔یہ لا جواب نتائج کے حامل ہوتے تھے ۔یہی طلباءاعلیٰ عہدو ں پر دیکھے جا تے تھے ۔ان ٹاٹ پر بیٹھنے والوں میں بلا کا نظم و ضبط ہوتا تھا کیو نکہ اسا تذہ اسے اپنی ذمہ داری گر دا نتے تھے ۔والدین بھی اسا تذہ کو کھلی چھٹی دیتے تھے ۔بچے جا نتے تھے کہ اسا تذہ کا رتبہ والدین کی نظر میں کتنا بلند ہے ۔اس لئے وہ دل و جان سے ان کی تعلیمات اپنا تے تھے ۔تاریخ ایسے وا قعات سے بھری پڑی ہے جن میں یہ و ضا حت ہے کہ طلباءاساتذہ کی خدمت کواپنا فریضہ جا نتے تھے ۔
آج نہ وہ طلباءرہے اور نہ ہی وہ اسا تذہ ۔ دونوں جا نب آ ج ٹینشن ہی ٹینشن ہے ۔یہ کہیں تو بجا ہو گا کہ ” نیت ثابت منزل آسان“، آج انہی نیتو ں کی سزا پو ری قوم بھگت رہی ہے ۔ہمیںمسلما ن ہو نے پر فخر ہو نا چا ہئے ۔اپنی تا بناک تا ریخ کوسا منے رکھتے ہو ئے نظام زندگی تر تیب دینا ہمارا فرض ہو نا چا ہئے ۔آ زادی کے حصول کا مقصد تو یہی تھا ۔
تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ مختلف انجمنیں تعلیم کی تر قی کے لئے بھر پور کو ششیں کر رہی ہیں لیکن افسوس اب یہ بھی بے بس نظر آنے لگی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غربت میں اضافہ اس قدر تیزی سے ہو رہا ہے کہ لوگ چا ئلڈ لیبر کو تر جیح دیتے ہیں ۔گھر کے سارے بچو ں کو کام پر لگا کرعا ر ضی سکون حا صل کرتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطا بق سیا لکوٹ فٹ بال فیکٹری میں5سے 11 سال تک کے بچے بھی کام کرتے ہیں انہیں ایک پرا جیکٹ مکمل کرنے پر 40روپے ملتے ہیں جو ایک ہفتے میں مکمل ہو تا ہے ۔یہ پیسے والدین کو دیئے جا تے ہیں۔وہ اسی پر خوش ہو جا تے ہیں۔ایک باپ کا کہنا ہے کہ ہم اس سے آ ٹا لے لیتے ہیں۔بڑا شکر ہے جی ،روٹی تو مل جا تی ہے ۔بھیک ما نگنے سے بچ جا تے ہیں ۔
مختصر یہ کہ اسا تذہ اور اسکول حسنِ تر بیت کا ایک حصہ ہیں ۔یہا ں حیوان بھی انسان بنتے ہیں ۔بچو ں کو اس ما حول میں بٹھا کر یہ کہنا کہ وہ تعلیم حا صل کر رہے ہیں ،کس قدر گھنا ﺅ نا مذاق ہے ۔کیا کہیں جب:
ضمیر نہیں کا نپتے یہا ں
زمین کانپ جاتی ہے 
آج کے حالات ہمیں خود احتسابی کے لئے پکار رہے ہیں۔کاش ہم جان جا ئیں کہ نظام تعلیم ،نظامِ حیات کا اسی قدر اہم جزو ہے جیسے شا خیں کسی درخت کا جز و ہو تی ہیں ۔تعلیم ایسا شعبہ ہے جس کے با عث ایک کو نہیں بلکہ پو ری نسل کو فا ئدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ہمیں دین اسلام نے علم حاصل کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔
 

شیئر: