Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زبان انسان کو تخت پر بٹھاتی ہے ،جوتے بھی پڑواتی ہے

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
سسرال میں قدم رکھتے ہی ماریہ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ نہ صرف میکے بلکہ سسرال میں بھی ایک خاص مقام کی حامل ہے۔ اس کے اندر غرور کا عنصر جھلکنے لگا تھا۔ وہ میکے میں بھی چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور اب سسرال میں چار بہنوں کے اکلوتے بھائی کی بیوی، اس لئے اس کے دماغ میں یہ سمایا ہوا تھا کہ میں بلا شبہ چاہے جانے کے قابل ہوں۔ وہ نہ صرف میکے بلکہ سسرال میں بھی سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔اسی لئے ہفتوں کیا مہینوں بھی ساس صاحبہ اسے پلنگ سے اترنے نہ دیتیں۔ اس کا کام صرف اتنا ہوتا کہ صبح اپنی مرضی سے سو کر اٹھتی۔ ناشتے سے فارغ ہو کر کوئی دیدہ زیب لباس پہن کر مہمانوں کے سامنے اپنی ساس کے حسن ذوق کا منہ بولتا ثبوت بن کر اپنے حُسن کے جلوے بکھیرتی ۔ دونوں چھوٹی نندیں جو کنواری تھیں، اس کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھیں۔ 
جہاں اس قدر محبت اور توجہ بن مانگے مل جائے وہاں انسان کو اور کس بات کی تمنا رہ جاتی ہے مگر ماریہ تو ان تمام چیزوں اور باتوں کی عادی تھی۔ میکے میں بھی بچپن سے ہی بے حساب پیار، محبت اور توجہ اس کے حصے میں آئی تھی اس لئے سسرال کی محبت اس کے لئے کوئی نئی چیز ، انوکھی بات یا انمول شے نہیں تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ دنیا میں یونہی ہوتا ہے، یہی زندگی کا دستور ہے۔ وہ شاید اسی قابل ہے تبھی تو لوگ اس سے اتنی محبت کرتے ہیں۔ اس کے حسن اور ذہانت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے گھر کے سبھی لوگوں کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے۔ 
قدرت کی کچھ اپنی ہی حکمتیں ہیں، اصول ہیں جن کے تحت وہ انسانی زندگی میں ایسے ایسے انقلاب لاتی ہے جن کا انسانی ذہن تصور بھی نہیں کر سکتا مگر ماریہ تورنج و الم کی دنیا سے دور اپنی دنیا میں مگن دلداری کے ہنڈولے میں جھول رہی تھی۔ اسے یہ مطلقاً علم نہ تھا کہ قدرت نے اس کے دامن میں کیسے کیسے امتحان ڈالے ہیں جو گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کب ا س پر وار کریں۔ اسے ہوش اس وقت آیا جب پہلی دفعہ ا سکے کان سے یہ آواز ٹکرائی کہ آئے ہائے، بہو بیگم کو دیکھو!سال ہونے کو آگیا اورابھی تک نئی نویلی بنی ہوئی ہیں ۔ یہ اس کی ساس کی کوئی قریبی رشتہ دار تھیں جنہوں نے ماریہ کی شادی کی سالگرہ کے موقع پر یہ بات کہی۔ 
ماریہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کی ساس نے نظریں جھکائے جھکائے ٹھنڈی سانس بھری اور آہستہ سے بولیں، ہماری قسمت ہے۔یہ سنتے ہی ماریہ کا خون کھول گیا کہ ایک ہی سال میں ان کی قسمت بھی خراب ہو گئی۔انہیں مجھ جیسی حسین و جمیل بہو مل گئی ہے ناں اس لئے ایسی باتیں کرتی ہیں ۔ وہ غصے میں بھناتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ماریہ نے فی الوقت تو بات ختم کر دی مگر اس نے یہ سمجھ لیا کہ بات تو اب شروع ہوئی تھی۔ ان خاتون کی جرا¿ت کیسے ہوئی کہ کسی محفل میں میری بے عزتی کریں اور ساس صاحبہ کو دیکھو کہتی ہیں کہ میری قسمت ۔ماریہ جس نے بچپن سے ہی اپنی ہر بات منوانا سیکھا تھا،وہ جو چاہتی ، خود بخود اس کی گود میں آگرتا ، آج وہ زندگی کے اس مقام پر منجمد ہو کر رہ جاتی، اس کے لئے یہ ناممکن تھا۔ اس مقام سے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی او رنہ ہی اپنے قدم آگے بڑھا سکتی تھی۔
دن پر لگاکر اڑتے گئے۔ماریہ کی زبان میں تیزی بھی آتی گئی۔ وہی ماریہ جو پہلے اس قدر نازک مزاج تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر گھنٹوں روٹھ کر بیٹھ جاتی تھی ،اب 24گھنٹے لوگوں کی رنگ برگنی باتیں سن کران سنی کر دیتی یا ترکی بہ ترکی جوب دے دیتی ۔ اس کی دونوں نندیں بھی بیاہ کر اپنے اپنے گھر کی ہوچکی تھیں۔ماریہ کا شوہر بھی اب اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزارتا تھا۔ ماریہ بھی اس ماحول کی عادی ہو چکی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ شاید اس کے حالات میں ٹھہرا¶ آچکا ہے مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔ حالات و واقعات کی اپنی ہی ایک کڑی ہوتی ہے اور اس کڑی میں ہر آنے والا وقت ایک نئی گردش پرودیتا ہے۔ ماریہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے سسرال کا ماحول جوبظاہر پرسکون تھا،اس میں ایک زبردست طوفان نے ہلچل مچا دی۔ساس نے کہا کہ ہمارے گھر کا سکون خراب ہو رہا ہے۔ ہمیں ایسی بدزبان لڑکی نہیں چاہئے ،ہم نے ایسی خوبصورتی کاکیا کرنا جس کو بزرگوں کی عزت کرنی نہ آتی ہو۔ انسان تو وہی اچھا ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔ زبان ہی انسان کو تخت پر بٹھاتی ہے اور زبان ہی جوتے پڑواتی ہے۔
دیکھا جائے تو انسان کی زندگی میں شکل وصورت اتنی معنی نہیں رکھتی جتنا اس کا اخلاق و کردار رکھتا ہے۔ زبان بظاہر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے لیکن زندگی میں اس کا بہت اہم کردار ہے جس سے بہت سے لوگوں کی زندگیاں بن جایا کرتی ہیں اور کہیںبگڑ بھی جاتی ہیں جیسا کہ ماریہ نے زبان کی وجہ سے اپنی زندگی تباہ کر ڈالی ۔
گھر ایک ایسی پناہ گاہ ہوتی ہے جہاں انسان زندگی کی سختیوں اور پریشانیوں سے تھک ہار کر کا رخ کرتا ہے۔ وہ گھر میں سکون حاصل کرنے کے لئے جاتا ہے ۔ اپنے گھر کو جنت ِ ارضی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے اندر انسان کو لچک پیدا کرنی چاہئے تا کہ گھر کا ماحول مکدر نہ ہو۔

شیئر: