Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”جسے تو بھلا نہ پائے وہ کلام لکھ رہاہوں“

نیوز ڈیسک۔دمام
تاریخ دان کہتے ہیں کہ جب دو نئے افراد یا تہذیبوں کے لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہوئے تو ان کے درمیان ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور بات چیت کے نتیجے میں ایک نئی تہذیب اور زبان کی راہ ہموار ہونے لگی جو بتدریج کسی ملک و قوم کی تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کا حصہ بن کر اس ملک و قوم کی ترقی کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ ایسے ہی میل جول اور آپسی تعلقات کے نتیجے میں اردو کی راہ ہموار ہوئی۔ 11ویں صدی عیسوی میں دوقوموں کے باہمی اختلاط سے اردو زبان کا آغاز ہوا جب مسلمان ہندوستان آئے تو انکی زبان عربی، فارسی یا ترکی تھی، لہٰذا بات چیت میں وہ اپنی زبان کا استعمال کرتے کیونکہ وہ مقامی زبان سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے تھے اس لئے اظہارِ مقصد کیلئے ملے جلے الفاط استعمال ہونے لگے۔ مقامی الفاط و زبان اور ہندوستانی مزاج و ماحول کا یہی ملا جلا انداز ایک مشترکہ تہذیب اور نئی زبان کا ذریعہ بنا۔ اس زبان کو تاریخی پس منظر میں مختلف ناموں یعنی ریختہ، ہندوی، اردوئے معلی، ہندوستانی اور اردو کے نام سے جانا گیا۔
  اردو زبان برِصغیر سے نکل کر ساری دنیا میں بولی جانے لگی جب لوگ اپنے روزگار کی تلاش میں ملکوں ملکوں جا کر بس گئے اور ایک اکثریت نے خلیجی ممالک کا رخ کیا۔ ان ممالک میں ادبی نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد کیا جانے لگا اور مختلف ادبی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی "گلف ا±ردو کونسل" ہے جو سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین اور سلطنتِ عمان میں مقیم اردو کے شعراءو ادباءکا متحدہ پلیٹ فارم ہے۔ اس کونسل کی پہلی مرکزی کمیٹی کے صدرکویت سے افروزعالم اور جنرل سیکریٹری جدّہ سے مہتاب قدر منتخب ہوئے۔ بحرین سے رخسار ناظم آبادی جوائنٹ سیکریٹری اور متحدہ عرب امارات سے سلیمان جاذب میڈیا سیکریٹری منتخب ہوئے۔
ذیلی کمیٹیوں کیلئے کویت سے خالد سجاد، قطر سے اشفاق احمد، متحدہ عرب امارات سے ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی، سعودی عرب، سے سہیل ثاقب، میر فراست علی خسرو، بدرالدین انصاری اور سلطنتِ عمان سے قمر ریاض کا انتخاب کیا گیا۔
گلف اردو کونسل کے زیرِ اہتمام سب سے پہلے جدہ میں دو روزہ سیمینار منعقد کیا گیا۔ دو پروگرام کویت میں منعقد کئے گئے۔ پچھلے سال دمام میں ایک نشست کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اسلم بدر مہمانِ خصوصی تھے۔ گلف اردو کونسل کے بینر تلے دمام، سعودی عرب میں ایک نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان سے آئے ہوئے خوبصورت لہجے کے شاعر سعید احمد منتظر مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک محفل رہے۔یہ محفل دو حصوں پر مشتمل تھی۔ رات ساڑھے 8 بجے تلاوتِ قرآنِ پاک سے محفل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اصطفاءالرحمٰن صدیقی نے تلاوتِ کلام پاک کی سعادت حاصل کی۔ غزالہ کامرانی نے نعت طیبہ پیش کی۔ 
نشست کا پہلا حصہ نثری تھا جس کی نظامت مسعود جمال نے کی اور سب سے پہلے بہت ہی جامع مضمون "اردو کا سفر زبان سے بولی کی جانب" پیش کیا پھر محترمہ قدسیہ ندیم لالی نے کتاب سے محبت کے حوالے سے اپنا مضمون "کاغذ کا نشہ" پیش کیا۔ حاضرین نے دونوں مضامین کو بہت پسند کیا۔ 
محفل کا دوسرا حصہ شعری تھا جس کی نظامت سلیم حسرت نے اپنے منفرد انداز میں نبھائی۔نئی نسل کو اردو زبان کی طرف راغب کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے دو بچوں ظل الرحمٰن صدیقی اور اجتبیٰ الرحمٰن صدیقی نے اپنی نظمیں سنائیں جسے حاضرین نے بہت سراہا۔ اس کے بعدشعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا جس میں سب سے پہلے ناظمِ مشاعرہ سلیم حسرت نے اپنا کلام سنایا اور خوب داد سمیٹی۔ ان کے بعد محمد انس الدین، محمد معراج الدین صدیقی، آصف اختر، داو¿د اسلوبی، یوسف علی، اقبال اسلم بدر، محترمہ غزالہ کامرانی، ضیاالرحمٰن وقار صدیقی، محترمہ قدسیہ ندیم لالی، ایوب صابر، ڈاکٹر عابد علی اور مہمان خصوصی سعید احمد منتظر نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا۔ آخر میں صدرِ مشاعرہ اور گلف اردو کونسل دمام کے صدر سہیل ثاقب نے صدارتی خطبے میں مہمانِ خصوصی سعید احمد منتظر اور دمام ، الخبر،ظہران اور الجبیل سے آئے ہوئے شعرائے کرام اور حاضرینِ محفل کا گلف اردو کونسل کی جانب سے شکریہ ادا کیا اور اپنے کلام سے بھی نوازا۔ اس طرح یہ خوبصورت محفل اختتام پذیر ہوئی۔ اس محفل کی خاص بات یہ تھی کہ ٹھیک اپنے وقت پر شروع ہوئی اور دیئے گئے وقت پر ہی اختتام پذیر ہوئی اوریوں مشاعروں میں ایک نئی روایت کاآغاز کیا کیونکہ عمومی طور پر مشاعرے نہ تو دیئے گئے وقت پر شروع ہوتے ہیں اور نہ ہی ختم۔محفل میںپیش کئے گئے شعرائے کرام کے کلام سے اقتباس پیشِ خدمت :
٭٭ظل الرحمٰن صدیقی:
سب دوا کھاتے اور پیتے ہیں
ایسے مرمر کے لوگ جیتے ہیں
٭٭اجتبیٰ الرحمٰن صدیقی:
بھول گیا انسان خود اپنے مقصد کو
محو خواب ضمیر اٹھاﺅ تو اس کو
٭٭محمدسلیم حسرت:
ناز نخرے بھی ہم ا±ٹھاتے ہیں
پیر بیگم کے ہم دباتے ہیں
تن کے چلتے ہیں سامنے سب کے
گھرمیں جورو کے جوتے کھاتے ہیں
٭٭محمد انس الدین:
جب کچّی دیواروں کے پکّے مکان تھے
گھر کے بڑے ہی اس گھر کی پہچان تھے
٭٭محمد معراج الدین صدیقی:
آرزو بے حساب نے مارا
مجھ کوتو ایک خواب نے مارا
ایک تم کو ہی عمر بھر چاہا
بس مرے انتخاب نے مارا
٭٭آصف اختر:
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، رہیو پیار سے میرے بھائی
ذات، دھرم اور فرقہ واری، نیتاو¿ں کی ضرورت ہے
٭٭داﺅد اسلوبی:
اس حسینِ ناز پیکر پہ غزل کیسے لکھوں
پنکھڑی لب کو تو چہرے کو کنول کیسے لکھوں
٭٭یوسف علی:
نئے موسموں کی خوشبو ترے نام لکھ رہا ہوں
جسے تو بھلا نہ پائے وہ کلام لکھ رہاہوں
مری انگلیوں سے ہو کرترے دستِ مرمریں تک
جو کبوتروں سے پہنچے، وہ پیام لکھ رہا ہوں
٭٭اقبال اسلم بدر:
جب سے موسم بدلنے لگے ہیں
بے سبب پیڑپھلنے لگے ہیں
ہم نے دل میں بسایا تھا جن کو
آستیں سے نکلنے لگے ہیں
٭٭غزالہ کامرانی:
اتنی خنکی تھی اسکی ہراک بات میں
اس کی سردی سے میں کپکپاتی رہی
٭٭٭
ضیاالرحمٰن وقار صدیقی:
میں جانتا ہوں یہ روشن جہان میرا ہے
زمیں نہیں ہے مگر آسمان میرا ہے
مرا یہ جسم کسی کا اسیر ہو تو رہے
مرا شعور مگر پاسبان میرا ہے
٭٭قدسیہ ندیم لالی:
جو یوں مکالمہ جاری رہے تو لطف آئے
کہ میں سوال کروں وہ جواب ہو جائے
٭٭محمد ایوب صابر:
فلک پہ چاند ستارے سفر میں رہتے ہیں
زمیں پہ لوگ بھی سارے سفر میں رہتے ہیں
وہ ڈھونڈ لیتے ہیں آخرہمیں کہیں نہ کہیں
سناہے میرے خسارے سفر میں رہتے ہیں
٭٭ڈاکٹر عابد علی:
یاروں کا کہا ٹال نہیں سکتے کسی طور
ہو شعر، غزل، نظم سنا دیتے ہیں سب کچھ
٭٭افضل خان:
ہے مشکل بہت خود کو انسان رکھنا
سلامت خدا میرا ایمان رکھنا
دیے آس کے بھی جلاﺅ مگر تم
ہواﺅں سے تھوڑی سی پہچان رکھنا
٭٭سعید احمد منتظر:
شریکِ جرمِ محبت نہیں تو کیا ہو تم
کہ انتہا ہوں اگر میں تو ابتداءہوتم
٭٭٭
تمہارے جلووں کی روشنی سے پگھل گئے اہلِ بزم سارے
تمہیں کہے کوئی چاند کیونکر کہ رات کا آفتاب ہو تم
٭٭سہیل ثاقب:
گر جائے کوئی اسکو اٹھا لیتے ہیں بڑھ کر
اُٹھ جائے تو پھر اسکو سنبھلنے نہیں دیتے
٭٭٭
لو گھر بنا یا ، سجا بھی لیا اسے ثاقب
سوال یہ ہے کہ رہنا نصیب کب ہو گا 
 
 

شیئر: