Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرے ڈرائیور نے مجھے چائے کا کپ کیوں پیش کیا؟

طلال القشقری۔ المدینہ
میرا بنگلہ دیشی ڈرائیور ٹریفک رش والی شاہراہوںسے بچ بچا کر گلیوں گلیاروں سے گاڑی نکال کر مجھے ریکارڈ وقت میں منزل مقصود پر پہنچانے کا بڑا ماہر ہے۔ اسکی کوشش ہوتی ہے کہ مجھے کولیسٹرول کے باعث انجماد خون کا عارضہ لاحق نہ ہو۔
بنگلہ دیشی ڈرائیور ایک طرح سے ٹریفک انجینیئر والے طورطریقے اختیار کرکے انتہائی مصروف سڑکوںسے بچا کر ٹیڑھے میڑھے راستے استعمال کرنے میں بڑا کمال رکھتا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کوئی ایپلی کیشن استعمال نہیں کرتا۔ وہ سڑکوں سے واقفیت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اچانک وہ مصروف شاہراہ سے گاڑی کو موڑ کر کسی ایسی گلی میں گھس جاتا ہے جہاں پر اژدحام نہیں ہوتا اور تیزی سے منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے جبکہ اسکے ساتھ چلنے والی دوسری گاڑیاں شاہراہ پر پھنسی کھڑی ہوتی ہیں اور انکے ڈرائیور اژدحام سے نکلنے کی ترکیبیں لڑاتے رہتے ہیں۔
ایکبار میں بنگلہ دیشی ڈرائیور کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اژدحام کے مسائل سے بچنے کے اسکے ہنر سے لطف اٹھا رہا تھا۔ اسی دوران بنگلہ دیشی کہنے لگا ”بابا !بنگلہ دیشی بلدیہ غریب ہے، او رجدہ کی بلدیہ مالدار ہے البتہ بنگلہ دیش کی سڑکیں عمدہ ہیں اور جدہ کی سڑکیں تھکی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر مجھے بڑا غصہ آیا۔ مجھے بہت برا لگا کہ وہ جدہ کی سڑکو ںکی برائی کررہا ہے اور اسکی محترم میونسپلٹی کا مذاق بنا رہا ہے۔ ڈرائیور کی بے باکی دیکھیں کہ وہ سعودی عرب کے ایک محترم ادارے کے خلاف زبان درازی کررہاہے۔ میں اسے نہ صرف یہ کہ ڈانٹنے والا تھا بلکہ اسکی تنخواہ کاٹنے ا ور اسے خروج نہائی پر ملک سے چلتا کردینے تک کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔اللہ بھلا کرے میرے شیطان کا کہ وہ مجھے اسی حال میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا اور فرشتہ¿ رحمت میرے سر پر سوار ہوگیا۔ میں نے عقل کی زبان سننا شروع کردی۔ اس نتیجے پر پہنچا کہ بنگلہ دیشی ڈرائیورجو کہہ رہا ہے بات تو اس کی سچ ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ بنگلہ دیشی جدہ کی ان سڑکوں کے بارے میں کہ اسے بے کار نظر آرہی ہیں فکر مند بھی لگتا ہے۔ اسکی غیرت کا تقاضا تھا کہ اس نے جدہ کی سڑکوں کے بارے میں جنہیں وہ اچھی دیکھنا چاہتا تھا سچ بات کہہ دی۔ جدہ میونسپلٹی گلیوں پر توجہ نہیں دیتی۔دولت ہونے کے باوجود جیسا کہ ڈرائیور کا کہناہے، اندرونی سڑکوں اور گلیوں کو لاوارث چھوڑے ہوئے ہے۔ 
حاصل کلام یہ کہ گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا گرم چائے کا کپ میری نئی ثوب پر گر گیا۔ چائے اس قدر گرم تھی کہ میری کھال اس سے جل گئی۔ایسا اس لئے ہوا کہ اندرونی سڑک پر ایک گہرا گڑھا اچانک نمودار ہوگیا تھا اور گاڑی کا پہیہ اس میں گرنے کی وجہ سے ہی چائے کا کپ میرے اوپر الٹ گیا تھا۔ ڈرائیور نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور ضد کرکے اپنی تنخوا سے گرما گرم چائے کا ایک کپ مجھے پیش کیا۔ میں نے اسکا تحفہ قبول کرلیا ۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ جس سڑک سے گزر رہا ہے وہ میری ملکیت نہیں۔ اس سڑک کی خرابی کی وجہ سے جو تکلیف مجھے ہوئی اس کا ذمہ دار وہ بنگلہ دیشی ڈرائیور نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: