Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیک اعمال کی قبولیت کی شرط ، رزق حلال

   
ظاہری  گندگی کے ساتھ  باطنی گندگی بھی دورکرنی ضروری ہے،حرام  رزق  پیٹ میں  جارہا  ہو تو پورا جسم اور روح گندی ہوجاتی ہے
 
فرخندہ شاہد۔ ریاض

گزشتہ سے پیوستہ

بظاہر  چوری کرنا ایک  بہت  بڑا  جرم ہے  لیکن کیا  کوئی یہ  ماننے کو تیار ہے کہ  بجلی کے میٹر بند کر  کے ہم بجلی  چوری  کرنے  کے مرتکب  ہو رہے ہیں۔  ہم مہنگائی  اور سسٹم کی  خرابی کا  بہا نہ کرکے خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔آج کے دور میں  ہمارے  تمام  کام  اسی بجلی  کے ذریعے  ہو تے ہیں۔  پانی کی  موٹر  بجلی سے  چلتی ہے، کھانا  پکانا  ،پانی گرم کرنا، زندگی کے  مختلف  کام  اسی بجلی کے  مرہون منت ہیں،  تو کیا  یہ  بجلی  حرام کی  نہ ہوئی ؟ کیا  ہمارا سب کچھ  حلال  ہے؟  اس بات  پر ہمیں  ضرور  سوچنا چاہیے  اور غور کرنا چاہیے ۔جس نے جو چیز چوری کی،  جس طرح  چوری  کی  سب حرام ہے۔ گاڑی  کا ڈرائیور  جب سگنل کی  سرخ بتی پر اس لئے نہ رکے کہ دائیں  بائیں  کوئی  نہیں  ہے تو وہ خلاف ورزی کر کے سگنل کراس کر لیتا ہے۔ بظاہر تو یہ  ایک  چھوٹی سی  بات ہے  لیکن  اگر سوچا  جائے تو  یہ بھی  ایک  چوری  ہے۔ ایسی  بہت  سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہماری زندگیوں میں  شامل  ہیں  اور ہمیں ان کا احساس ہی نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں اللہ کا  ڈر  اور  خوف  نہیں  رہا۔ اگر اللہ کا ڈر اور خوف  ہو تو  ہر چھوٹی  سے چھوٹی  بات  کا  احساس ہو  جاتا ہے  ۔
    آج کل ہماری روزمرہ زندگی میں  حرام  شامل ہو  رہا ہے اور ہم اسے  جائز قرار دینے کے لیے مختلف  توجیہات پیش کر  رہے ہیں  حالانکہ اگر  دیکھا جائے تو ہم چوری  بھی کررہے ہوتے ہیں،  ہم جھوٹ  بھی  بول رہے ہوتے ہیں،  ہم سود بھی  کھا رہے ہوتے ہیں،  دھوکہ دہی،  ملاوٹ،  رشوت  لینا دینا سب ہو رہا ہو تا ہے لیکن  اگر  نشاندہی کی  جائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو آج کل کی ضروریاتِ زندگی ہیں۔  اس کے بغیر کامیاب ہونا ناممکن ہے۔یہ کہتے ہیں کہ اگر  سب کچھ  حرام  ہے تو پھر  حلال کیا ہے؟  یہ علماء   اور  مولوی  تو ہر  چیز کو ہی  حرام  قرار  دیتے ہیں  ۔قارئین کرام !کیا  یہ سب  باتیں  ہر  مسلمان  کے سمجھنے کی  نہیں؟  کیا ہمارا  دین  صرف  علماء   اور مولویوں کا دین  ہے؟ 
    آج ہم اپنی  بیٹیوں کو  وراثت میں حصہ نہیں  دیتے  جو کہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے  ان کا  مقرر کردہ  حق ہے لیکن   ہمارا  معاشرہ  اسی حرام  کام میں  ملوث  ہے۔ کیا ایسے  والدین اور بھائیوں کا رزق حلال ہے؟  ایسے لوگ  خود بھی حرام  کے مرتکب ہوتے ہیں اور ایسے بھائی اپنی  اولاد پر بھی اپنا مال  حرام کر لیتے ہیں۔اگر  یہ  بات  بتائی  جاے تو رشتہ داریاں ختم ہوجاتی  ہیں، کوئی  سچی بات  سننے کو  تیار نہیں۔  ویسے تو روزے،نماز وزکاۃ اور  خیرات،  صدقے ،عمرے  سب کام دھڑا دھڑ  کئے جاتے ہیں  لیکن جہاں ان جائز  حقوق  اور ان کی  ادائیگی  کی بات  آتی ہے تو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ ـکیا  انکی یہ عبا د یتیں قبولیت کا  درجہ  رکھتی ہیں؟  سورہ بقرہ آیت   188 میں  اللہ ؒتعالیٰ فرماتا ہے:
      " (دیکھو  تم )ایک دوسرے  کا مال  نا حق  نہ کھایا کرو ،نہ حاکموں کو  رشوت  پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا  لیا کرو، حا لانکہ  تم  جانتے ہو۔ "
     لیکن  یہاں تو یتیموں کا مال نا جائز  طریقے سے کھائے جاتے ہیں  ہماری  عدالتوں کے  اندر سچ کو جھوٹ  اورجھوٹ کوسچ ثابت  کیا  جارہا ہے۔  اچھائی اور  برائی  کا معیار  ہی بدل گیا ہے۔ بھتہ خوری  اوراقربہ پروری  ہمارے معاشرے میں  عام ہو چکی ہے۔ ناپ تول میں  کمی  قیمت  بڑھانے  کے لیے  زیادہ  بولی  بولنا، بد نیتی اور خیانت  سے مال کمانا تو کوئی  بات  ہی نہیں  اور اسی  طرح  حرام  کا  سلسلہ بڑھتا چلا  جا تا ہے۔ آج کے دور میں ہم جن اندیشوں سے  نمٹ رہے ہیں یہ بڑھتے ہوے جرئم اولاد کی نافرمانی، دین سے لاتعلقی  یہ تمام  چیزیں  ہم سب  کے سامنے آرہی ہیں ۔آج اگر ان چیزوں پر  ہم بحث کر ہے ہیں تو یہ سب  ایک  نقطہ  پر آکر رک جاتی ہیں  اور وہ نقطہ  ہے حلال اور حرام  کمائی میں  فرق  ،جس کا ہماری زندگی  سے  براہ راست تعلق ہے  ۔ تمام  نفسانی بیماریاں اور  نفسانی  خواہشات  حلال سے دوری کی وجہ سے  نظر  آرہی ہیں۔
      جب ہم حلال اور حرام کی تمیز بھول جاتے ہیں تب شیطان  ہمیں  حرام کے ساتھ مل کر برائی کی  دعوت دیتا ہے اور ہم آہستہ آہستہ اس کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں  دیکھتے کہ کیا کما رہے ہیں اورکیا  گنوارہے ہیں اور ہمارے اہل و عیال کے  پیٹ میں کیا جارہا ہے ۔حرام رزق سے کھڑے کئے ہوے گھر،  کوٹھیا ں اور محلات کبھی  ہمارے  لئے سکون کا باعث  نہیں  بن سکتے اور حلال  کمائی سے بنایا ہوا ایک  سادا ساگھر سکون کا باعث  ہوتا ہے۔  ہمیں اپنی روزمرہ زندگی کی معمولات اور ان چھوٹی چھوٹی  باتوں پر  غور کرنا چاہیے کہ کہیں  ہم جانے انجانے  طریقے سے حرام کے مرتکب تو نہیں  ہورہے۔ جہاں  دینِ حق  غالب نہ ہواور وہاں  باطل کا نظام  ہو  تو ہمیں ہر  قدم  پھونک پھونک کراٹھانا ہوگا۔
     جب اللہ  تعالیٰ اور اسکے رسول   ہمیں حکم دیتے ہیں کہ تمہارا  رزق  حلال  ہونا چاہیے  تو ہمیں اس کا سب سے پہلے جائزہ لینا چاہیے کیونکہ حرام گندگی ہے اور جب گندگی جسم کے اندر جائیگی  تو پورا انسان گندہ ہو گا۔اگر ہمارے کپڑوں یا جسم  پر کوئی  گندگی  لگی  ہو تو ہم اسے صاف کرنے کیلئے مختلف  واشنگ  پاوڈر، صابن و شیمپو  غرض ہر قسم کی  چیزیں  استعمال کرتے ہیں  اس لئے کہ صفائی  اچھی ہو اس لئے ایک  مسلمان  کیلئے  ظاہری  گندگی  دور کرنے کے ساتھ ساتھ  باطنی گندگی بھی دورکرنی ضروری ہے  لیکن اگر جسم کا گوشت پوست بھی گندہ ہو ،حرام  رزق  پیٹ میں  جارہا  ہو تو پورا جسم اور روح گندی ہوجاتی ہے  اور وہ ظاہر ی صفائی سے صاف نہیں  ہوتی اور اسکے نتیجے میں ہماری ساری عبادتیں، دعائیں اور ہرنیک عمل بیکار ہو جاتا ہے ۔اگر ہم حلال اور حرام  رزق کی  اہمیت سمجھ  لیں تو ہماری دنیا اور آخرت  دونوں سنور جاے گی ۔ہمارے پیارے نبی نے فرمایا :
    ’’ جو شخص  اپنے  ہاتھوں سے  محنت کر کے  روزی  کما تا ہے اللہ نے اسے  اپنا دوست  قرار دیا ہے۔ "(شعب الاایمان)۔
    اور ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث مبارک ہے ، آپ  نے  فرمایا:
     " امانت دار  تاجر قیامت کے دن  انبیاء  اور  صالحین  کے ساتھ  ہو گا۔ "
    یعنی  اس سے زیادہ  رزق حلال کی  برکت اور کیا ہوگی ـ
    ہم اپنے  بڑوں سے  سنتے  آئے ہیں کہ جن بچوں نے  رزق حلال کھایا  ہو وہ بڑے  نیک  اور  فرما نبردار ہوتے ہیںـ۔  یہ بات ہم اور آپ سنتے آئے ہیں  اور ہم نے  اس بات کو صادق بھی  پایا ہے ۔آج اگر ہم مائیں  بہنیں  اور بیٹیاں اس بات کی طرف متوجہ ہو جائیں اور اپنی زندگی  کے  تقاضے کم کر دیں تو اکثر  مرد  حرام کمانے  پر  مجبور  نہ ہوں  اور جہاں  جہاں جس  جس کے  ہاتھ میں  ذمہ داری ہے  اسے پوری  کریں اور حرام کی  طرف  جانے والے  راستوں سے  بچیں  اور اگر ہم یہ سوچیں کہ انسان کی عزت  برانڈڈ کپڑوں ، جوتوں  اور کوٹھیوں  ،گاڑیوں  اور اور زیورات میں  نہیں،یہ نمودو نمائش کی زندگی  کامیابی کا معیار  نہیں   بلکہ  ہم اپنے صحابہ کرامؓ  کی زندگی  کو دیکھیں کہ ان کی زندگی میں  کامیابی کا معیار کیا  تھا  ۔اپنے محدود وسائل اور  سادگی میں انھوں نے کتنی کامیاب  زندگی گزار ی اور دنیا کو کیا  دیا  تاریخ  اسکی  گواہ ہے۔ اصل زندگی  تو یہ ہے کہ قیصروکسریٰ اور روم جیسی  سلطنتوں کو  زمین بوس کر دیا۔آج ہمیں  یہ سوچنا  اور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ رسول اللہنے ہمیں جو سنت دی ہے اور جو طریقے سکھائے ہیں کیا ہم نے اپنی زندگی میں اس پر عمل کرنے کی کو شش کی ہے؟اگر نہیں تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ۔جتنا  وقت اور جتنی  سانسیں  باقی ہیں  اُن پر عمل کرنا  شروع کر دیں اور اپنے لئے اور اپنے  اہل و عیال کے لئے  حلا ل  طریقوں سے رزق  تلاش کرنا شروع کر دیں کیونکہ آپنے ارشاد فرمایا :
      " کوئی شخص دنیا سے اس وقت تک نہیں  جاسکتا  جب تک کہ وہ اپنے  حصے کا  رزق  نہ حاصل کر لے ،یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ملنے میں  تاخیر  ہو تو اللہ  سے ڈرتے رہو اور روزی  حاصل کرنے میں  اچھا  طریقہ  اختیار کرو  اور حرام  کے قریب  نہ  جاو۔" ( سنن ابن ماجہ)۔
    اگر ہم یہ سوچ لیں کہ جو ملنا ہے اتنا ہی  ملے گا تو کیوں نہ صحیح  طریقے سے  حاصل  کیا  جائے اور ہم یہ دیکھیں کہ ہمارا رب کیا  چاہتا ہے اور اپنے رب کی رضاکودیکھیں اور اس کے نبی محمد کے بتائے ہوئے طریقے اپنائیں تو سب آسان ہو جائیگا۔  ہمیشہ حلال رزق کی طلب کریں اور اسی حلال رزق سے اپنے بچوں کی تربیت کریں  تو ہم پر خودبخو  حلال رزق  کی برکتیں ظاہر  ہونے لگیں گی  اور ہماری آخرت بھی سنور جائیگی کیونکہ  دنیا  آخرت  کی کیتھی ہے اور اس کھیتی میں  ہم سب  ہل چلا رہے ہیں۔اگر ہم اللہ کے  پسندیدہ  بندوں میں شامل ہو نا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ اور اسکے پیارے نبی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ہمیشہ  زندگی بسر کرنی چاہیے  اور ہر وہ چیز جو انسان کو  برائی  اور حرام کی طرف لے کر جاتی  ہے  اُس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
      اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق دے، آمین  یا رب العالمین۔
 

مزید پڑھیں:- - - -عزت لٹی، جان بھی گئی، آواز دو انصاف کہا ں ہے

شیئر: