Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کام، کام اور کام کو مقصد حیات بنایا، کامیاب بھی ہوئی ، حلیمہ

 زینت شکیل ۔جدہ
رب العالمین نے ہر جاندار کی حیات کاملہ کی بنیادی ضرورت ہوا، پانی، مٹی اور سورج کی روشنی وافر مقدار میں عطا فرمائی ہے ۔ اس زمین پر ایسا کوئی جاندار نہیںجس کا رزق مالک حقیقی کے ذمہ نہ ہو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہر جاندارکے رزق کا ذمہ مالک حقیقی نے لے رکھا ہے۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ جس چیز کی جہاں ضرورت ،طلب اور قدر ہوتی ہے ، وہ چیز وہاں متنوع صورتوں میں پہنچ جاتی ہے جس جگہ علم و فضل اور ہنرو کمال کا اعزاز وکمال و احترام اور اسکی قدر اور ہمت افزائی کی جاتی ہے، وہی اصحاب علم و فضل اور ارباب کمال کا مرجع ہو جاتا ہے ۔
ہوا کے دوش پر ” اس ہفتے ہماری ملاقات محترمہ حلیمہ صاحبہ سے ہوئی تو اندازہ ہوا کہ انسان کی شخصیت پر نام کا کتنا اثر ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی سیر کرنے کے بعد شہر بھر کے سماجی و ثقافتی اجتماعات میں مختلف ممالک کی رسومات و عقائد و نظریات کو جاننے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تجربہ حاصل کر نے کے بعد بھی آگے بڑھنے اور ترقی کی راہیں طے کرنے کی قوت اور اس پر مزاج کا حلم، ان کے والدین کی فراست بیان کرتا ہے کہ جنہوں نے اپنی صاحبزادی کا نام رکھتے ہوئے فراست سے کام لیا۔
محترمہ حلیمہ سہیل آفتاب نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً17 سال کی عمر سے علمی و ادبی میدان میں اپنا حصہ ڈالنا ا ور کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ کسی اسکول میں چھوٹے بچوں کی کلاس میں انہیں مزے مزے کی کہانیاں سنا کر ان میں کام کی باتیں بتاتیں۔ اس طرح وہ مونٹیسوری سیکشن کی بہترین ٹیچر بننے کے سفر کاآغاز کر چکی تھیں ۔
حلیمہ سہیل کا کہنا ہے کہ آپ اگر تعلیمی شعبے کو پیشہ ورانہ انداز میں اپناتے ہیں تو اس کی ذمہ داری صرف چند گھنٹے کی جاب کی طرح انجام نہیں دیتے بلکہ اپنے اسٹوڈنٹس کی تر بیت کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں اور اس میں کامیابی ہی اصل کامیابی ہوتی ہے ۔والدین کے بعد اسکول و مدرسے کے اساتذہ ہی بچوں کے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ وہ انہی کی شخصیت کااثر اپنی زندگی میں لیتے ہیں اس لئے جیسی ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے، ویسی ہی معلم یا معلمہ کی بھی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم سے زیادہ بہرحال تربیت کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جن کی اہمیت زیادہ ہو ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔استاد کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو اتنا راست رکھے کہ اس کے اسٹوڈنٹس بھی یہی اچھی عادات اپنالیں۔
محترمہ حلیمہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ بچپن سے ہی اپنے سے چھوٹے کزنز کو اپنا شاگرد بناکر انہیں ایسی سنجیدگی سے پڑھایا کرتی تھیںجیسا کہ میں انکی سچ مچ ٹیچر ہوں اور اسکول میں کلاس ہو رہی ہے ۔ میرا وہی شوق آگے بڑھا اور جب کسی سہیلی یا آنٹی وغیرہ نے کہا کہ ابھی تمہاری کلاسز آف ہیں تو ان چھٹیوں میں فلاں کلاس کو پڑھادو یا تم سمر کلاسز لے لو تو میرے لئے یہ سب مشکل نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح کئی اسکولوں میں تجربہ بھی حاصل ہوا جو بعد میں میرے کام آیا۔
آج میں اپنی طالبات کو یہ بتانا ضروری خیال کرتی ہوں کہ دنیا کتنی ہی ترقی کرجائے، والدین سے بہتر مشورہ دینے والا کئی میسر نہیں آ سکتا۔ بظاہر آپ کتنی ہی بڑی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرلیں ، جو باتیں اور مشورہ والدین آپ کو دیں گے، وہ کتاب میں کہیں نہیں ملے گا ۔
اسے بھی پڑھئے:ماحول ، معاشرہ اور مستقبل عورت کے ہاتھ میں ہے ، شبینہ فرشوری
یہ بات درست ہے کہ دیہاتی لوگ انتہائی سادہ ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی،تصنع اور بناوٹ سے دور ہونے کے باعث فطرت کے زیادہ قریب ہوتی ہے لیکن کوئی انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ علم و دانش شہری ماحول میں ہی وافر میسر آتا ہے۔جہاں انسان سادہ زندگی سے مطمئن ہوتا ہے،وہیں وہ سادگی محض سے نکل کر سائنس وٹیکنالوجی کے ذریعے بھی حقائق فطرت تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ یہ بھی اس کی فطرت کا بنیادی قانون ہے کہ وہ علم اور عقل سے فطرت کے قوانین دریافت کرے۔قرآن کریم میں ہمیں فرمایاگیا ہے کہ اس دنیا کو تسخیر کرو۔
محترم سہیل آفتاب بزنس ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد ایک معروف ادارے سے منسلک ہو گئے ۔ انہیںچونکہ سیاحت کا شوق ہے، اس لئے اکثر بیرون ملک سیر کا پروگرام بنالیتے ہیں ۔ حلیمہ نے اس موقع پر بتایا کہ ہم لوگوں نے انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر کئی ممالک کی سیر کی لیکن جو خوبصورتی ترکی میں نظر آئی وہ کہیں نہیں ملی۔ اب جتنی بار موقع ملے گا، بار بارترکی دیکھنے جائیں گے۔ وہاں کی ہریالی دیکھنے سے صرف آنکھوں ہی کو نہیں ،دل کو بھی بہت انبساط حاصل ہوتا ہے حالانکہ دنیا میں ایسی ہریالی اور ممالک میں بھی موجود ہوگی لیکن جو جگہ دل کو بھا جائے، وہاں بار بار جانے کو دل چاہتا ہے اور اگرآسانی بھی میسر ہو تو سیاحت کا شوق پورا کر لینا چاہئے ۔
حلیمہ صاحبہ کو شادی بیاہ کی رسمیں نہ صرف بہت پسند ہیں بلکہ خاندان بھر کی شادیوں میں اپنی شرکت کو یقینی بھی بناتی ہیں اور اس سلسلے 
 میں بہت اہتمام کرتی ہیں ۔ ایسے موقعوں پر شوخ لباس بھی زیب تن کرتی ہیں تاکہ خوشی کے موقع کا اظہار بھی ہو کہ مالک حقیقی نے خوشی دی ہے تو اس کا اظہاربھی ہونا چاہئے ۔شادی بیاہ کی رسمیں ویسے بھی یادگار ہوتی ہیں اور دیارغیر میں رہنے والوں کے لئے ایک اچھا موقع ہوتی ہیںکیونکہ ہم اپنے بچوں کو بتا تے ہیں کہ ہماری رسومات کتنی خوبصورت اور بھرپور ہیں ۔ہمارے یہاں کی ہر شادی ایسی ہی ہوتی ہے جیساکہ باہر کے ملکوں میں کسی شہزادی کی شادی ہوتی ہے۔
محترمہ حلیمہ سہیل آفتاب نے جب پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تو ارادہ تو تھا کہ اسی شعبے میں مہم جوئی
 کریں گی لیکن اس کا موقع ویسے تو نہیں مل سکا لیکن اب معلمہ بن کر اس شعبے سے وابستگی اور لگن ان کے کام سے ظاہر ہوتی رہتی ہے ۔
جناب منظور الٰہی اپنی اہلیہ شہناز منظور کے ہمراہ جب 1975ءمیں سعودی عرب آے تو معلوم نہیں تھا کہ ان کے بعد انکی آنے والی 
 نسل بھی اپنے والدین کی طرح اس ملک کو اپنا مان لے گی۔ آباو اجدادکی خوبیاں جیسے اگلی نسل میں شامل ہوتی ہیں،اندازہ یہی ہے کہ انکی دلی خواہشات بھی اسی لحاظ سے نسل در نسل منتقل ہوتی ہونگی۔
فیصل منظور اور عدیل اعوان دونوں بھائیوں نے اپنے بزنس پر توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج انکی آئی ٹی کمپنی” انٹرنیشنل ٹیکنالوجی 
سے منسلک ہے۔ 
حلیمہ صاحبہ بہت تعریف کر رہی تھیں کہ انکی دونوں بھابھیاں اخلاق کی بہت ہی اچھی ہیں ۔ در اصل آپ کو کسی کے اخلاق کااندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کو کوئی کام ہواوروہ کام آپ کے رشتہ دار انتہائی محبت اور خوشدلی سے سر انجام دیں۔ایسے میں آپ پر ان کی اخلاقیات منکشف ہوتی ہیں پھر آپ انہیں دل سے دعائیں دیتے ہیں۔ 
جب عبیر اور مبین کے بعد ٹوئنز عائشہ اور فاطمہ اس دنیا میںآئے تو اس موقع پر جتنا ساتھ ہماری دونوں بھا بیوں نے دیا، وہ واقعی بہی بڑی بات ہے ۔اس کا شکریہ تو میں لفظوں میں ادا نہیں کرسکتی ۔
سہیل آفتاب نے بزنس ایدمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت شروع کی ۔ معروف کمپنی کے اکاﺅنٹ سیکشن 
 میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ حلیمہ کی شخصیت بہت ہمہ جہت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ شہر بھر کی تقریبات میں شرکت کرتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ وہ اور کوئی کام نہیں کرتی ہوں گی اور جب اسکول کی ذمہ داری نبھاتی ہیں تو لگتا ہے کہ 
 بچے بڑے ہوچکے ہوں گے اسی لئے ان کے پاس اتنی فراغت و فرصت ہے۔ ان سب کاموں کو منظم کرنے میں وقت کو مینج کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ 
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ وقت تو سب کے لئے چوبیس گھنٹے ہی ہوتا ہے لیکن کوئی اس میں صرف ایک کام کرتا ہے اور کوئی اس وقت میں کئی کئی کام سر انجام دے دیتے ہیں۔حلیمہ کی روزانہ کی ٹائمنگ بہت کیلکولیٹڈ ہے۔ ویک اینڈ پر بچوں کی فرمائش بھی پوری کی جاتی ہے یعنی حلیمہ کام، کام اور کام کومقصد حیات بنایا اور کامیاب بھی ہوئی ۔
سہیل آفتاب نے اپنی اہلیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حلیمہ بہت نرم مزاج ہیں۔ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش میں رہتی ہیں ۔کھانے بنانے کی شوقین ہیں ۔سیاحت کا بھی شوق ہے۔ کئی ممالک کی سیر کر چکی ہیں۔ کھانے میں انتہائی مزیدار ، لذیذ پکوان تیار کرتی ہیں۔ ان میں قورمہ،آلو گوشت اور بریانی سر فہرست ہیں۔ 
یورپین فیسٹیول کے حوالے سے پروگرام میں بچوں کے ہمراہ انکی شرکت سے بچوں نے بھی کئی ممالک کے بارے میں آگاہی حاصل کی۔وقت کی پابندی بچوں میں بھی آئی ہے۔ بچوںکو اکثر تاریخی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔ عالمی ادب کے کئی مصنفین انکے پسندیدہ ہیں۔
حلیمہ سہیل آفتاب سمجھتی ہیں کہ آفتاب بہت ساتھ دینے والے شریک حیات ہیں ۔کوئی بھی کام ہو، وہ ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس لئے گھر اور باہر کے تمام کام بآسانی نمٹ جاتے ہیں ۔ حلیمہ سمجھتی ہیں کہ انسانی فطرت نہایت وسیع ہے۔ اگرچہ انسانی جذبات کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے لیکن ہر جذبے سے پیدا ہونے والے زاویے اور انکے مختلف اظہار کی مختلف صورتوں سے پیدا ہونے والے واقعات، جذبات، انسانی فطرت کی بے پایاں حیثیت ثابت کرتے ہیں۔
بقول علامہ اقبال:
بے ذوق نہیں ہے اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر 
٭٭٭
کھول آنکھ ،زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
 مشرق سے ابھرتے ہوے سورج کو ذرادیکھ
 
 

شیئر: