Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افرادی قوت کی درآمد

علی الجحلی ۔ الاقتصادیہ
پہلے تو میں اپنے قارئین کو یہ یقین دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ افرادی قوت کی درآمد کے حوالے سے میرا تعلق ڈرائیور اور گھریلو ملازمہ تک محدودد ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان میں سے ایک سعودی معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلی کے تحت کسی بھی لمحے اپنی ملازمت سے محروم ہوسکتا ہے۔ معاشرے میں تحریک یہ چل رہی ہے کہ ڈرائیور سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ ایک بوڑھی خاتون نے مملکت میں ڈرائیونگ کی خواتین کو اجازت دینے کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”میں تو اپنی گھریلو ملازمہ سے ڈرائیور کا کام لونگی اور مصیبتوں کی جڑ ڈرائیور کی چھٹی کردونگی“۔ میں نے جب بڑی بی کے مذکورہ تبصرے کا تذکرہ اپنے دوست سے کیا تو اس نے اس پر حیرت کا اظہار کیا۔ کہنے لگا یہ تو حد ہوگئی۔ اسکے بعد پھر اس نے اپنے ردعمل سے رجوع کرتے ہوئے بڑی بی کے تصور کی خصوصیات بیان کرنا شروع کردیں۔
ہم میں سے کوئی بھی شخص گھریلو ملازمہ کی تنخواہ میں اضافہ کرکے اس سے بچوں کو اسکول لانے لیجانے اور بزرگ خواتین کو مارکیٹ سے شاپنگ کرانے کا کام لے سکتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ماضی قریب تک سعودی گھرانوں میں جاری وہ خطرات بھی کالعدم ہوجائیںگے جن کے تحت کہا جارہا تھا کہ مرد ڈرائیور کے ساتھ خواتین کا تنہا آنا جانا اچھی بات نہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ملازمہ سے ڈرائیونگ کا اضافی کام لینے والا خیال کس حد تک قابل قبول ہوگا تاہم اسکی خوبیوں اور خامیوں کا تقابلی مطالعہ کرلینا ضروری ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ خاتون ڈرائیو ر مرد ڈرائیور سے بہتر ثابت ہوگی اور بڑی بی کا جو خیال ہے وہ بڑی حد تک سعودی معاشرہ قبول کرلے گا۔
اس حوالے سے کچھ مسائل بھی ہیں۔خاتون ڈرائیور کی درآمد پیچیدہ عمل ہے۔مرد ڈرائیور کی درآمد آسانی سے ممکن ہے۔خاتون ڈرائیور کی درآمد پر انکی تنخواہ بڑھے گی۔
ایک صاحب کا کہناہے کہ سعودی عرب میں افرادی قوت کی درآمد کی جتنی فیس ہے اور انکی یہاں جتنی تنخواہیں ہیں وہ تمام جی سی سی ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ تعجب انگیز امر ہے ۔ ہمارے یہاں تارکین وطن دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ بچت کرلیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کفیل انکی بنیادی ضروریات پور ی کردیتا ہے اور انکی تنخواہ بچ جاتی ہے۔ایک گھریلو ملازمہ نے اس امر کی تصدیق مجھ سے یہ کہہ کر کی کہ میں اس سے قبل ایک خلیجی ریاست میں ملازمہ تھی۔ وہاں میں بمشکل ہی چند سکے بچا پاتی تھی۔ یہاں معاملہ مختلف ہے۔ میں نے آج کا کالم وزارت محنت اور دیگر ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی بنیاد پر تحریر کیا ہے۔ اس معاہدے میں ایک شق سعودی کفیلوں کیخلاف جاسکتی ہے۔ درآمدکے اخراجات میں کمی کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ اس مسئلے پر توجہ ہی نہ دی جائے۔ مجھے امید ہے کہ وزارت محنت ہمارے پڑوسی ممالک اور سعودی عرب میں گھریلو ملازمین کے حال میں توازن پیدا کرنے کی سبیل نکالیگی۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: