Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم کی کمی دور ہو سکتی ہے مگر تربیت کا سقم نہیں،ڈاکٹر سعیدہ میمن

 زینت شکیل۔جدہ
مالک حقیقی نے مقررہ مدت کے لئے جہان فانی میں دنیا کی زندگی عنایت فرمائی ہے کہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے بہترین زاد راہ اپنے ہمراہ لے کر انسان واپس جائے۔ وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے ۔اس کی قدر وہ لوگ جان سکتے ہیں جو تاریخ کے واقعات کا گہری بصیرت سے مطالعہ کرتے ہیں ۔ 
اس ہفتے ہماری ملاقات ہوا کے دوش پر محترم ڈاکٹر شفیق الرحمن اور انکی اہلیہ ڈاکٹر سعیدہ پروین سے ہوئی۔ گفتگو وقت، صلاحیت، علم اور خود انسان کی کتنی قدر کی جانی چاہئے ،قدرت نے ہر انسان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کائنات کو اس کے لئے مسخرکردیا۔ صاف ہوا و شفاف پانی، سورج کی روشنی اور سرسبز مٹی کہ انسان کو انہی چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور کائنات کے ذریعہ یہ تمام چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں ۔”کیمیا“ ایک ایسی چیز ہے جو حیات انسان کے لئے بہت زیادہ مفید نہیں ۔اس لئے جس قدر ہوا،پانی، سورج کی روشنی کی ضرورت ہے ،وہ وافر مقدار میں کرہ ارض میں موجود ہے لیکن آج کا انسان اپنا قیمتی وقت صرف کر کے اپنے لئے نقصان دہ چیزیں نہ صرف ذہانت کوثابت کرنے کے لئے بنا رہا ہے بلکہ اس بات پر انہیں شاباشںکی صورت میں بڑے بڑے تمغے کی تمنا ہوتی ہے کہ چونکہ ہم نے ریڈیائی لہروں کو اتنا عام کردیا ہے کہ کوئی انسان اس سے بچنا چاہے تو پھر اسے پہاڑوں پر جاکر ہی بسنا پڑے گا اور اس بات کی سرمستی کہ جو کیمیا قدرت نے بہت کم مقدار میں پیدا فرمائی ہے تاکہ سمجھنے والے سمجھیں کہ اس کافلاح عام میں کوئی بڑا کردار نہیں، اس کو نہ صرف اپنی روزمرہ زندگی میں داخل کرلیا بلکہ دنیا کو اس سوچ تک پہنچادیا کہ چونکہ ہم بہت بڑی عقل کے مالک ہیں اس لئے ہم جو کہہ رہے ہیں ،وہی بات تم مان لو۔ان تمام نکات پر نہ صرف بات ہوگی بلکہ اس آسان زندگی کو مشکل بنانے پر ان کی بازپرس بھی ہوگی ۔ ایک صدی گزرنے کے بعد نسل نوایسا ہی کرے گی۔
اسے بھی پڑھئے:خواتین کی تربیت ہی بہترین معاشرے ک ی بنیاد ہے، غوثیہ سبین خان
یونیورسٹی آف سندھ، جامشورو سے پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر سعیدہ پروین نے کہا کہ والدین کا اپنی اولاد کے لئے سب سے قیمتی تحفہ انکی تربیت ہے۔تعلیم کی کمی پوری ہو سکتی ہے لیکن اگر کسی کی تربیت میںسقم ہو تو وہ تاحیات دور نہیں ہو پاتا، آخری سانس تک ساتھ رہتا ہے ۔
محترمہ سعیدہ پروین اپنے والدین کا بہت محبت کے ساتھ ذکر کر رہی تھیں جنہوں نے انہیں ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی اور اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند کیا۔ والد عثمان صاحب خود علم دوست شخصیت تھے اور والدہ سونا صاحبہ بھی بچوں کی تعلیم کی طرف متوجہ رہتی تھیں۔7 بھائیوں اور چار بہنوں میں سب نے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹر بھی بنے اور ماسٹرز بھی کیا ۔
تعلیم کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا بچوں کے لئے مفید ہورتا ہے۔ اس سے جسمانی اور ذہنی بالیدگی ہوتی ہے۔دانشور انور مقصود ،جنید جمشید اور کئی دیگر افراد نے بہت اچھا کام کیا۔ نئی نسل کو بہت کچھ سکھا دیا۔
ڈاکٹر سعیدہ پروین صاحبہ کتابوں کی ڈاکٹر یعنی پی ایچ ڈی ہیں۔ انہوں نے سندھی لٹریچر میں سند حاصل کر رکھی ہے جبکہ ڈاکٹر شفیق ایم بی بی ایس ہیں۔
سینٹ میری اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔1972ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم نے اسکولوں کو قومیالیا اور کئی سال کے بعد اندازہ ہوا کہ اس سے تعلیمی معیار میں بہت کمی آئی ہے۔ لوگوں میںجب یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ ہمیں کون پوچھے گا تو وہ کام اپنی مرضی کا کرتے ہیں اور انہی لوگوں کو جب پرائیویٹ اداروں میں دیکھیں تو انکا رویہ بالکل الگ ہوتا ہے اور کبھی سختی بھی ہوجاتی ہے کہ ایسی جگہ ٹرانسفر کردیتے ہیں جہاں وہ زندگی بھر نہیں جاناچاہتے۔مطلب یہ کہ ہر فرد کو اپنا محاسبہ خود کرنا چاہئے ۔ 
ڈاکٹر سعیدہ میمن نے پبلک سروس کمیشن کی تحت لیکچررشپ کے لئے امتحان دیا اورلیکچررکی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ آج وہ حیدرآبادمیں گورنمنٹ کالج فار گرلزمیں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج سے نصف صدی پہلے جب سندھ کے شہر ڈیپلو میں کوئی بڑا اسکول نہیں تھا، اس وقت کے مقامی صاحب فراست لوگوں نے تعلیم کو عام کرنے کے لئے بہت کام کیا جن میں خواتین شامل ہیں ۔فرحت آپا اور زینت میمن آپا کی خدمات قابل ستائش ہیں۔
آج حیدر آباد کالج میں طالبات کی تعداد ساڑھے چار ہزار ہے۔ ٹیچرز کوالیفایڈ ہیں ۔ اسلامی کلچر ،مسلم ہسٹری سمیت 8 مضامین کورس میں شامل ہیں۔ڈاکٹر سعیدہ نے کہا کہ آج ہم نے جن چیزوں کو ترقی سمجھ لیا ہے ، یہ تو محض کمیونیکیشن کی بات ہے۔ اس کو معاشرے کی ترقی تو نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کے غلط استعمال سے خود ایک اچھی ایجاد کا نقصان ہو رہا ہے۔ لوگوں کے ارد گرد ہر وقت ریڈی ایشن کی موجودگی انہیں کئی بیماریوںمیں مبتلا کر رہی ہے ۔ نوجوانوں میں کاہلی اور سستی پیدا ہو رہی ہے۔ گھر کا ماحول پہلے جیسا نہیں رہا لیکن آج بھی ہم اس بات کو ممکن بنا سکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ جب انکی تربیت کے کئی سال گزر جائیں پھر ضرورت کے تحت موبائل دے دیں۔ انہیں بچپن سے ہی اس کا عادی نہ بنائیں۔ بچوں کی عمومی صحت موبائل فون کی ریڈیائی شعاعوں سے متاثر ہو رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعیدہ نے کہا کہ شادی بیاہ کی رسمیں اچھی لگتی ہیں لیکن اس وقت جب ملک کے حالات بھی اچھے ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا ان کے دونوں خاندان چونکہ پہلے سے رشتہ دار بھی تھے تو ہر طرح کی آسانی رہی لیکن ملکی حالات نے کچھ زیادہ سپورٹ نہیں کیا ۔ ڈاکٹر صاحب کو مزید تعلیم کے لئے انگلینڈ جانا تھا اس لئے شادی ملتوی نہیں کرسکتے تھے اور جب89ءمیں شادی ہوئی تو کئی علاقوں میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ کرفیو کی نرمی کے اوقات میں تمام رسومات انجام دی گئیں۔ رخصتی کے بعد کی رسمیں سسرال میں ہوئیں لیکن ویسے شادی بیاہ کی تمام رسمیں خوش گوار رہیں۔ مایوں اور سہرا بندی کی رسم بھی سب کو بہت اچھی لگتی ہے کیونکہ یہ ہماری ثقافت کی پہچان ہیں۔
سندھی لٹریچر میں ڈاکٹریٹ کی حامل سعیدہ پروین میمن نے کہا کہ طالبات کے لئے سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم ضرورہونی چاہئے لیکن سب سے اہم بات شعورِ حیات ہے کیونکہ آنے والی نسل کی پرورش کی ذمہ داری ان پر ہی ہوتی ہے اس لئے مستقبل کی ماﺅں کو بہترین تعلیم سے آگاہ کرنا سب سے ضروری امرہے۔انہیں انگلش، اردو کے ساتھ اسلامی علوم، مسلم ہسٹری پڑھانا چاہئے تاکہ ایک سنہری تاریخ سے روشناس ہو سکیں کیونکہ مسلمان کسی کی تقلید نہیں کرتا بلکہ سب کی رہنمائی کرتا ہے۔ 
رائل کالج آف ایڈنبرا کی فیلو شپ حاصل کرنے والے ڈاکٹر شفیق الرحمن کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ بروقت درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ یہ صلاحیت آپ کو بہت پر اعتماد بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیپلو میں طالبات کے لئے تعلیم کا انتظام کرنے کے حوالے سے انہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحبہ لوگوں کو بتاتی ہیں کہ پہلے زمانے کی عورتیں بے شک باہر پڑھنے نہیں جاتی تھیں لیکن گھر پر ہی انکی تعلیم کا سلسلہ ایسا ہوتا تھا کہ وہ اپنے قومی ادب اوراپنی ثقافت سے مکمل طور پر آگاہ ہوتی تھیں۔ 
گھر کی تربیت،ماحول اور معاملات سے ہوتی ہے۔ ماں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔انہیں اپنا خیال بھی رکھنا چاہئے اور دوسرں کا بھی تاکہ بچوں میں اپنے بچپن سے ہی اپنے علاوہ اوروں کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ 
ڈاکٹر شفیق نے کہا کہ ان کی اہلیہ ڈاکٹر سعیدہ بہت محنتی ہیں۔ وہ میرٹ پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کرتیں اور اس کو بے حد ناپسند کرتی ہیں۔ لوگوں کا رویہ اس وقت برا لگتا ہے جب وہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ کام کریں یا نہ کریں، کوئی انہیں انکی کرسی سے ہٹا نہیں سکتا لیکن کوئی پوچھے یا نہ پوچھے، انسان کو اپنے آپ کو سچائی پر رکھنا چاہئے ۔اپنا احتساب خود کرنا چاہئے۔ وقت کی قدر یہی ہے کہ وقت پر ایمانداری سے اپنی ذمہ داری پوری کی جائے۔ اس طرح ہر کام وقت پر ہوجاتا ہے ۔ڈاکٹر شفیق نے کہا کہ لوگ آجکل بہت سارے مسائل میں گھرے ہیں تاہم صحت کے مسئلے میں وہ سب سے زیادہ پریشان ہیں۔آئے روز اوپن ہارٹ سرجری ہو رہی ہے لیکن اس سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان سادہ غذا لے یعنی اپنے کھانے میں فائبرکی مقدار بڑھادے، چکنائی کم کردے اور چہل قدمی کی عادت بنا لے۔ اسے اسمارٹ رہنے کے لئے کچھ اور نہیں کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر سعیدہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شفیق بہت نرم مزاج ہیں۔ لوگوں کے کام آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کے سلسلے میں ضرور انسان باہر جائے لیکن اسے اپنی مٹی کا حق ہر صورت میں ادا کرنا چاہئے۔ بچوں کی تربیت میں ان کی محنت شامل ہے۔ 
اردو اور انگریزی لٹریچرکا شوق سے مطالعہ کرتے ہیں اورایک طویل فہرست ہے جو انکے پسندیدہ مصنفین ہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ جب آپ کوئی بات کریں تو اس پر خود بھی عمل کریں مضامیں بیکن کو پوری دنیا نے پڑھا ہوگا لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ جج بیکن جو اپنے اخلاقی اصول کو عوام کی اصلاح کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن ان کا یہ سب کچھ اس وقت صفر محسوس ہوتاہے جب اس کتاب کے ابتدائیے کو پڑھا جاتا ہے کہ بیکن خود بھاری رشوت لینے کی وجہ سے اعلیٰ عہدے کی کرسی سے معزول کئے گئے۔ 
دنیا سیکھنے کی جگہ ہے اور اس سے کسی وقت بھی کوئی سبق مل سکتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں انہیں اپنی سمت درست رکھنی چاہئے ۔
 

شیئر: