Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟

پہلا محاسبہ یہ ہے کہ توحید کا عرفان ہو،ایمان بالغیب کے تقاضے ہر شق اور ہر شرط کے ساتھ پورا کرناہی اس کو ایک ماننا ہے
 
* *  *ڈاکٹربشریٰ تسنیم ۔ شارجہ * * *
   ایک مسلمان، وہ مرد ہو یا عورت جب تک اپنا بے لاگ احتساب نہیں کرتا ،اس کی اصلاح کے مواقع سامنے نہیں آتے۔ کمی کہاں ہے؟خطا کیا ہے؟گناہ کیا ہیں ؟ اور ان میں ہمارا نفس کتنا آلودہ ہے؟یہ سب عوام الناس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ صغیرہ، کبیرہ، ظاہری باطنی،جانے اَن جانے کئے گئے گناہوں کی معافی مانگ تو لیتے ہیں لیکن اس جملے کی روح سے نابلد ہوتے ہیں۔کوئی ندامت کا جذبہ اس جملے کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ہوائی باتیں اور زبان کی ورزش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔نہ دل کی دنیا میں شرمندگی کا جوار بھا ٹا اٹھتا ہے اور آنکھوں سے جواب دہی کے خوف کی برکھا تو کیا برسنی نمی تک نہیں آتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی خطاؤں پر نظر ہی نہیں ہوتی۔نفس تسلی دیتا ہے کہ ہم نے نہ کوئی قتل کیا ہے،نہ ڈاکا ڈالا ہے، نہ زنا کیا ہے اور نہ ہی ملک وقوم سے غداری کی ہے۔ہم ایک اللہ کو مانتے ہیں، اسکے محبوب نبی کریم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں،قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، رمضان المبارک کے مہینے میں روزے رکھتے اور حج عمرہ کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیںاور یہ سب اعمال کرنے کے باوجود ہم استغفار بھی کرتے ہیں۔
    یقینا یہ سب ایک مسلمان کی صفات ہیں اور جنت ایسے مسلمان کیلئے واجب ہے مگر کیا ہم حقوق اللہ،حقوق العباد کی ادائیگی میں معیار کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نیکی کے معاملے میں کمتر معیار پر راضی ہونے کی عادت میں مبتلا ہیں اور دنیا کی خواہشات کے لئے معیار اعلیٰ ترین ہے؟ اور کیا یہ یاد رہتا ہے کہ اللہ رب العزت نے بندے سے یہ پوچھنا ہے کہ تم جو کچھ کر سکنے کے وسائل اختیارات ،صلاحیتیں اور مہلت دیئے گئے تھے، اس کے حساب سے کیا کرکے آئے ہو؟ جو کما کے لائے ہو وہ الگ بات ہے۔ یہ دیکھا جائیگا کہ کیا کچھ کر سکتے تھے وہ کیوں نہیں کیا؟  
    میزان اسی لئے تو رکھی جائیگی کہ دنیا کی چاہت کے پلڑے میں وزن زیادہ ہے یا پھر آخرت کی چاہت میں وزن زیادہ ہے۔دل کی سچی اور کھری چاہت پر ہی اعمال کی درجہ بندی کی جائیگی۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تلقین کی:
    ’’اے مومنو!اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر نفس یہ جائزہ لیتا رہے کہ وہ اپنی کل (آخرت )کیلئے کیا جمع کر رہا ہے،بے شک اللہ تمہارے ہر عمل کی خبر رکھتا ہے (کہ وہ عمل کتنا معیاری ہے)‘‘(الحشر18)۔
    اور اگر مومن اس معیار کا جائزہ لینے سے غافل ہوتا ہے تو نتیجتاً یہ معاملہ سامنے آتا ہے:
    اور فاسق اور مؤمن کبھی برابر نہیں ہوسکتے،جیسے اہل جنت اور اہل جہنم برابر نہیں ہو سکتے(الحشر)
    اہل جنت میں شامل ہونے کیلئے آج اور ابھی اپنا احتساب بے لاگ کرنا ہوگا اور اپنی کل کیلئے معیاری نیکیاں کرنی ہوں گی۔
    محاسبہ یا احتساب بہتر سے بہترین کا سفر ہے۔ٹارگٹ، منزل یا نصب العین کو پورا کرنے کے لیے کماحقہ کوشش کرتے ہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا ہے ۔جو غلطی ہوجائے اس کو آگے بڑھنے سے پرلے درست کر لینا ہے تاکہ جب مالک کے سامنے کام کی رپورٹ پیش کرنے حاضر ہوں تو مالک خوش ہو جائے۔ اس کو قرآنی زبان میں’’ تقویٰ ‘‘اختیار کرنا کہتے ہیں۔یہاں تو مالک رب کائنات ہے اور اس کے حضور پیشی کسی لمحے بھی متوقع ہے اور اس کی نگاہوں سے کسی لمحے بھی ہم اور ہمارے اعمال  اوجھل نہیں ہو سکتے۔ اس رب کی عظمت کا احساس، اس کی ذات کی پرچان، اس رب کی رحمت کا عرفان جس قدر دل میں جاگزیں ہوگا اُسی قدر مؤمن "ولتنظر نفس ما قدمت لغد "( ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے: الحشر18)کی حقیقت سے واقف ہوگا۔
    پہلا محاسبہ اپنے ایمان کا یہ ہے کہ توحید کا عرفان ہو۔اللہ ایک ہے،یہ ہمارا عقیدہ ہے۔اس کی ذات پر  ایمان بالغیب  کے تقاضے ہر شق اور ہر شرط کے ساتھ پورا کرناہی اس کو ایک ماننا ہے ۔شرک خفی اور جلی کا علم کما حقہ ہونا چاہئے۔ شرک تو کسی صورت معاف نہیں ہوگا۔جب افکار و اقوال میں اعمال و معاملات میں اللہ رب العزت کی ذات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ بھی ہو اور شک تذبذب بھی موجود ہو" دنیا کیا کہے گی"کا خو ف بھی ہو ،روزی کے حصول میں کامیاب ہونے کیلئے " مروجہ دنیاوی اصول" بھی سہارا لگتے ہوں،مشکل کشا اللہ کی ذات بھی سمجھی جائے مگر واسطے کے لئے غیروں کے در پر حاضری بھی ہو تو ایمان کی یہ کون سی شکل ہے ؟شرک کم ہو یا زیادہ توحید کو خالص نہیں رہنے دیتااور" ادخلوا  فی السلم کافہ"(اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو:البقرہ208 ) اور "للہ الدین الخالص" (اللہ تعالیٰ ہی کیلئے خالص عبادت کرنا ہے:الزمر3)کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایمان وہی قابل قبول ہے جو خالص ہو اور ہمہ پہلومکمل ہو۔
    ہم اپنے اعضاء و جوارح سے ،ذاتی پسند و ناپسند کے معیارسے،خاندان و برادری کے اصولوں سے پرکھ سکتے ہیں کہ ہم صرف ایک اللہ کے کتنے فرماں بردار ہیں، اس ایک اللہ کے سامنے اپنے ہر عمل کی جواب دہی کیلئے کتنے لرزاں ہیں۔کیا واقعی ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں ؟لیکن یہ کیسا ایمان ہے کیسی محبت ہے کہ اس وحدہ لا شریک کی ایک نہیں مانتے یا جو من کو پسند ہو وہ مانتے ہیں اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں اپنے رب کو احکم الحاکمین تسلیم نہیں کرتے اور اُس رب کائنات کے حضور پیشی کو معمولی حاضری جانتے ہیں۔ ہر مومن اپنا خود محاسب بنے اور سوچے کہ اس نے اپنے رب کے حضور پیش ہوکر زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ کو صرف اور صرف" ایک " تسلیم کرنے کے کیا ثبوت تیار کررکھے ہیں؟
    "ولتنظر نفس ما قدمت لغد" کی تلقین سراسر ہمیں بہتر سے بہترین کی طرف راغب کرنا ہے ورنہ وہ مالک یوم الدین تو "علیم بذات الصدور" ہے۔یہ سب ریکارڈ تو ہمیں ہی دکھانے مقصود ہیں اُس دن جب ذرہ برابر نیکی اور بدی سامنے لائی جائیگی اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔جب حکم ہوگا :پڑھو اپنے اعمال نامے کہ آج ہر نفس کو اپنے کرتوت دیکھ کر خود ہی اپنا مقام سمجھ آجائیگا۔اس دن کی شرمندگی یاد رہنا بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کو ایک ماننا ہے۔ دنیا کے انسانوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنااللہ کی ذات کو بھلا دینا ہے۔جو دنیا کی خاطر اللہ کو بھلا دیتا ہے تو پھر اللہ بھی اسے بھلا دیتا ہے اور اللہ کا کسی کو بھلا دینا یہ ہے کہ اس سے اپنی حالت بہتر کرنے کا احساس چھین لیا جائے اور اس کیلئے ہدایت کے راستے بند ہو جائیں۔
    اصلاح کے طریقے:
    «  تجدید ایمان کی تلقین" لا الہ الا اللہ"کا ذکر کرنے سے کی گئی ہے۔جب بھی یہ ذکر کیا جائے تو اپنے اور اللہ رب العزت کے درمیان جو رشتہ ہے اُس کو شعوری کوشش کرکے دل میں محسوس کیا جائے۔
     «  اسماء الحسنیٰ کو یاد کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔اسماء الحسنیٰ در اصل اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔معرفت محض زبان سے نام دہرانے سے نہیں مل سکتی۔اللہ تعالیٰ سے اس کی ذات کی معرفت مانگیں بھکاری بن کر…جس کی جھولی بھر گئی وہ ولی اللہ ہوگا۔
    «   اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کے شعوری تصور کی پریکٹس دن میں5 مرتبہ فرض کی گئی اس لئے کہ باقی اوقات میں بھی یہ عمل جاری رہے۔
    رمضان المبارک کے قیام اس پریکٹس میں اضافہ کرتے ہیں تاکہ اگلے 11ماہ یہ مشق جاری رہے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
    ’’اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے سارے معاملات کی درستی کے لیے التجا کرتے ہیں اس لئے کہ ہم صدق دل سے گواہی دیتے ہیں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو اکیلا ہے،بے نیاز ہے،نہ تیری کوئی اولاد ہے اور نہ تو کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی تیرا ہمسر ہے نہ کبھی ہوگا‘‘۔
    ’’ہم اُن سب قصوروں کی معافی چاہتے ہیں جو تیری ذات و صفات کے ساتھ ہم سے سرزد ہوئے اور تیری خالص بندگی کے لئے تجھ سے ہی اعانت طلب کرتے ہیں‘‘۔ لا الہ الا انت سبحانک اناکنا من الظالمین۔
    اللہ رب العالمین اور بندہ مؤمن کے درمیان عبد اور معبود کا رشتہ جس قدر مضبوط ہوگا ایمان کی دوسری شق" محمد رسول اللہ "کی گواہی اتنی ہی سچی ہوگی۔اگر احتسابِ نفس سے یہ نتیجہ نکلا کہ عقیدۂ توحید کے شیشے میں بال ہے تو عقیدۂ رسالت میں جھول لازمی ہوگا اور یہ اللہ الخالق کے ساتھ شرک کی مزید ایک کڑی ہوگی۔
    اللہ پر پختہ ایمان ہی ہمیں یہ ماننے پر مجبور کرتا ہے کہ اس نے اپنا ایک پیغمبر ہماری رہنمائی کیلئے مبعوث فرمایا۔وہ انسانوں میں سے ایک انسان، اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے۔خاص الخاص خاصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو اپنے لئے منتخب کر لیا،اپنا محبوب بنایا، امام الانبیاء بنایا، ہمارے لئے اسوۂ کامل بنایا۔رب نے ان کا درجہ جو مقرر کر دیا کوئی اس کو نہ بڑھا کر رب کے برابر کر سکتا ہے نہ اس کی شان میں کوئی گستاخی کر سکتا ہے اس لئے کہ وہ خاتم النبیین ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر توحید کی اعلیٰ ترین ایمانی کیفیت پاکر مجھ سے محبت محسوس ہوتی ہے تو اس کا ثبوت بھی پیش کرو اور وہ ثبوت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنا ہے ،سب کے لئے اسوۂ کامل وہی ہے ۔
    ’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(آل عمران31)۔
    ہم اللہ سے محبت کے دعوے دار اپنا محاسبہ کریں کہ جو رشتہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے درمیان قائم کیا وہ کس نہج پر ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو قانون بنایا کہ اتباع نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرط پر میری محبت حاصل ہوگی۔
    ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں کتنے سرخرو ہیں؟اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو ،اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو اپنی مرضی سے من کی خواہش پر سمجھا اور اسی کو دین سمجھا تو پھر یہ بھی سوچیں کہ ہم نے رب کی مرضی کے خلاف کیا اور اس پر اصرار بھی کیا۔گویا کہ جو پیمانہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے لیے بنایا ہم نے اس سے انحراف کی پالیسی اپنائی ۔اللہ رب العزت نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو  بشر کہا، ہم نے غلو کیا۔
     اللہ تعالیٰ نے فرمایا: غیب کا علم میں نے کسی کو نہیں دیا۔ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو حاضر و ناظر بنا دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خود وضاحت کر رہے ہیں کہ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں اپنے لئے خیر ہی جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتامگر ہم مُصر ہیں کہ وہ غیب سے واقف ہیں۔اللہ تعالیٰ نے شفاعت کیلئے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں اور شفاعت کیلئے ایک پیمانہ رکھا ہے مگر ہم اس پر مطمئن ہیں کہ شفاعت کیلئے قرآن و سنت کے مطابق عمل کریں نہ کریں ،شفاعت ہمارا حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے کے امتی ہیں۔
    کیا کبھی سوچا ہم نے کہ جب میدان حشر میں ہمارا نام پکارا جائے گا تو نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھے گا یا  اداس ہوگا؟
    کیا ہم ان لوگوں میں شامل ہونگے جو اللہ کے اذن سے جنت میں پرلے پرل داخل ہونگے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فخر کریں گے یا وہ نکمے نالائق امتی ہوں گے جن کی شفاعت کا اذن ملنے کے انتظار میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے رہیں گے۔ ہمیں ڈرنا چاہئے اُس وقت سے جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ لوگوں کی شکایت اللہ سے کر رہے ہوں گے کہ انہوں نے میرے بعد قرآن کو چھوڑ دیا تھا ۔
    ’’رسول کہے گا کے اے میرے پروردگار!بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘(الفرقان30)۔
    سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور لسٹ بنائیںکہ کتنی بدعات زندگی میں فرض سمجھ کراپنا رکھی ہیں،محاسبہ کریں اپنا کہ شفاعت کے قابل کون کون سے اعمال ہم کر رہے ہیں؟ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ جس بندے کے اعمال سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق پائے گا اسی کو قبول کرے گا ،اسی کی شفاعت کا اذن دے گا۔رب العزت تو اسی سے خوش ہوگا جو اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہنا مانے گا ۔ہم اندازہ لگائیں کہ صبح سے شام تک کتنے کام ایسے ہیں جو مسنون طریقہ سے کرتے ہیںاور بدعات سے پاک ہوتے ہیں؟
    ایک بار پھر سوچ لیں ہم اللہ کے ساتھ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ کس طرح کا رشتہ بنائے ہوئے ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ نے جو مقام کامل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقرر کرکے ہمیں دیا ہم اس کو  بعینہٖ تسلیم نہیں کرتے تو اللہ کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔کیا یہ عقیدۂ توحید  اور ایمان کے منافی نہیں؟ عقیدۂ توحید و رسالت میں پختگی نہ ہوگی تو ساری عبادتیں بھی اللہ کے رنگ میں رنگی نہ ہوں گی۔
    اصلاح کیسے ہو؟:
    «  اپنے غلط افکار پر اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے معافی مانگی جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ رب العزت ہمیں عقیدہ رسالت اور نبی اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی محبت، عقیدت، اتباع کے لیے سچا علم عطا فرمائے،وہی علم جو خود رب نے اتارا ہے ،غلو کے فتنہ سے بچائے۔
    «   سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا مطالعہ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ لازمی کیا جائے۔
    «  روزانہ ایک سنت کو زندگی میں شامل کیا جائے اور بدعات کو ختم کیا جائے ۔
    «   نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شفاعت حاصل کرنے کے لیے وہ اعمال کئے جائیں جن سے شفاعت ملنے کی امید دلائی گئی ہے۔
    «  درود شریف پڑھنا دراصل اللہ تعالیٰ سے عہد کی تجدید ہے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تعلیمات اور مشن کو جاری رکھیں گے۔
    کیا وعدے کی تجدید کے الفاظ سیکڑوں کے حساب سے ہوں اور وعدہ وفا نہ کیا جائے تو یہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگی؟ اگر اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ سے محبت کیسے مانی جائے گی؟
    ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘دراصل وہ شجرِطیبہ ہے جس پر اعمال صالحہ کے پھل لگتے ہیں۔
    ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پر ایمان کی اگلی شق کلام اللہ پر مکمل ایمان ہے۔’’ ذالک الکتب لا ریب فیہ‘‘ کے اقرار کے بعد اس کے کسی حکم،جملے آیت پر شک ہونا یا اس کو اس دور میں قابل عمل نہ سمجھنا ایمان کے منافی ہے اور اس منفی سوچ سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار بھی مشکوک ہوجاتا ہے ۔اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن پر ایک ساتھ مکمل لاریب ایمان ہی اسلام کا مکمل دائرہ ہے۔ قرآن پاک وہ دستورِ زندگی ہے جس کے مطابق زندگی گزارنا ہی دائرہ اسلام میں رہنے کی شرط ہے۔
    ہم قرآن پاک کو آئینہ بنا کر اپنے اقوال و اعمال کو پرکھیں ،اپنا احتساب کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کے نام پر دھوکا دے رہے ہیں۔قرآن پاک سے ہمارا سلوک ظالمانہ ہے۔اس کے کیا حقوق ہیں؟بہت کم مسلمان جانتے ہیں۔اس کا حقیقی ادب و احترام کیا ہے؟اس سے ناواقف ہیں۔
(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - - -روزوں کی فرضیت کا مقصد کیا ہے؟

شیئر: