Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خلائی مخلوق

***محمد مبشر انوار***
مسلم لیگ ن اور اس کے تا حیات قائدکہ ہماری قوم قیادت کے معاملے میں شاید بانجھ ہو گئی ہے کہ قیادت کی دستار چند خاندانوں کو سونپ کر انکی تقلید میں لگی ہے،میاں نواز شریف ’’خلائی مخلوق‘‘ کیخلاف انتخابات لڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ایک جمہوریت پسند ہونے کے ناتے ،مجھے بھی اس نعرے میں کشش محسوس ہوتی ہے کہ ایک جمہوری ملک میں حقیقتاً جمہوری روایات کو فروغ ملنا چاہئے اور عوام کو اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کاحق میسر ہونا چاہئے لیکن کیا اس کیلئے ضروری ہے کہ قیادت کا تاج صرف میاں نوازشریف ہی کے سر سجے؟نظریاتی جماعتوں میں نظریات کا تسلسل چلتا ہے اور کسی ایک قائد کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا کرتا بلکہ نظریاتی سیاست کرنیوالوں کو ہمیشہ نئے خون کی ضرورت رہتی ہے تا کہ وہ عوام میں جا کر اپنے نظریات کو حالات کے مطابق بیان کرکے اپنی جماعت کیلئے راہ ہموار کر سکیںلیکن جیسا شروع میں پوچھا کہ کیا ہماری قوم اتنی بانجھ ہو گئی ہے یا ہم کسی دوسرے کو موقع دینا ہی نہیں چاہتے؟ کیا مسلم لیگ ن میں صرف میاں نوازشریف ہی پوری جماعت ہیں؟ اگر واقعتاً ایسی بات ہے تو پھر اس حقیقت سے کوئی بھی ذی فہم انکار نہیں کر سکتا کہ میاں نواز شریف صحیح معنوں میں قائد ہی نہیں بلکہ ان کی سوچ،حیثیت ایک آمر سے زیادہ قطعی نہیں کہ قائد تو وہ ہوتا ہے جو اپنے کارکنوں میں قیادت کی خوبی کو ابھارکر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا سکے،نہ کہ قومی رازوں کو آشکار کرکے ریاست کے مفادات کو ٹھیس پہنچائے اور اداروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے؟ان اداروں میں فقط قانون نافذ کرنیوالے ادارے ہی نہیں بلکہ قانون کی تشریح کرنے والے بھی شامل ہیں اور اس وقت آپ کو سب سے زیادہ ملال ان ہی اداروں پر ہے کہ جو آئین و قانون کے مطابق فیصلے دے رہے ہیں اور آپ ایک تاجر کی طرح فقط یہ آرزو لئے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح آپ کو اور آپ کے خاندان کو ان مقدمات سے محفوظ راستہ مل جائے اور آپ محنت شاقہ سے کمائی ہوئی دولت سمیٹ لیںجبکہ عوام کو ایک بار پھر گمراہ کرنے کیلئے نعرے خلائی مخلوق کو شکست دینے کے لگا رہے ہیں۔ 
حالت یہ ہے کہ اس وقت وہ لوگ جو کبھی انتہائی قریب رہے ہیںاور بھٹو کے شدید ترین مخالف بھی ،آج میاں نواز شریف کا رویہ دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ بھٹو نے ضیاء الحق پر تنقید ضرور کی تھی مگر فوج کو بطور ادارہ کبھی گالی نہیں دی،کبھی نہیں کوسا۔ پھانسی کے پھندے پر جھول جانے کے باوجود قومی مفادات کا ایک لفظ تک ان کی زبان پر نہیں آیا،کبھی ایٹمی طاقت کے حصول کی خاطر کئے گئے اقدامات یا ایٹمی طاقت میں حاصل کی گئی پیشرفت سے متعلق کوئی اشارہ تک نہیں دیا گیا،میاں صاحب آپ پر تو ابھی ابتلا کا دور صحیح معنوں میں آیا ہی نہیں اور آپ کی چیخیں ہیں کہ آسمان تک جاتی سنائی دے رہی ہیں،زبان ہے کہ صرف دھمکیاں ہی نہیں دے رہی،ناکردہ گناہ بھی اس درماندہ قوم کے ماتھے پر سجا رہے ہیں۔ ممبئی حملوں کے متعلق تو ہندوستانی لکھاری تسلیم کر چکے ہیں ،غیر جانبدار جرمن صحافی ثابت کر چکا ہے کہ ممبئی حملوں میں ہندوستان خود ملوث رہا ہے اور اس اعانت امریکہ اور اسرائیل نے کی ہے مگر آپ نہ جانے کس کے کہنے پر انٹرویو میں یہ انکشاف فرما رہے ہیں کہ کیا ہمیں نان اسٹیٹ ایکٹر کو دوسرے ملک جا کر 150بندے مارنے کی اجازت دینی چاہئے؟ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ریاست پاکستان نے بھیجا تھا؟ آپ کے اس انٹرویو پر مستنصر حسین تارڑ صاحب نے آپ کے متعلق صحیح لکھا ہے کہ ’’ہندوؤں کو ان کا بھگوان مل گیا‘‘۔کل کو اگر ہندوستان یا امریکہ یا اسرائیل،آپ کو وزیر اعظم پاکستان بنانے کی ضمانت دے تو آپ اس کے عوض ریاست پاکستان کے دوسرے اثاثہ جات کی تفصیل بھی فراہم کر دیں گے؟حکومت آج بھی مسلم لیگ ن کی ہے،اور مسلم لیگ ن کے قائد اور ان کے حواری یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ خلائی مخلوق کو شکست دیں گے مگر افسوس کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپنے اختیارات کا استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی ساکھ بری طرح کھو چکی ہے اور اس پرطرہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور ان بیانات پر ڈھٹائی کا اظہاراسے مزید مشکلات کا شکار کر رہا ہے مگر تاحیات مگر نا اہل قائد کو اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ انکی بلا سے ،جن کے نزدیک ملکی سالمیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی انہیں ایسی پارٹی سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے؟بحیثیت ایک جمہوریت پسند ،ہمیں اس بیانئے سے کلیتاً اتفاق ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ ہمیشہ اقتدار سے رخصتی پر ہی یہ اصول کیوں یاد آتا ہے؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ اقتدار جب بھی ملا،اسی خلائی مخلوق کی غیر مشروط تابعداری،فرمانبرداری اور دیگر خدمات کے عوض ہی ملا ،اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ ’’مذاق جمہوریت‘‘پر دستخط کرتے وقت خلائی مخلوق کے ساتھیوں کو کبھی واپس نہ لینے کا اعلان کس نے کیاتھا ؟یا11مئی 2013کی شہرہ آفاق تقریر یا مطالبے کو کون بھول سکتا ہے جس میں واضح اکثریت کا راگ الاپا گیا تھا؟ یا اس حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ آج قائد کے دائیں بائیں کون کون براجمان ہے اور اس کا تعلق کس کے ساتھ رہا ہے؟
دوسری طرف خلائی مخلوق ہے کہ ریاست پاکستان کی سالمیت کیلئے مسلسل جانوں کا نذرانہ دینے سے نہیں کترا رہی،ہر دوسرے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے سے ہر سطح کی خلائی مخلوق ریاست کے تحفظ میں سینہ سپر ہے اور مسلسل اپنے خون سے اس کو سینچنے میں مصروف عمل ہے۔ اس وقت نہ صرف پاکستانی عوام انصاف کی خاطر خلائی مخلوق کی یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہیں بلکہ غیرملکی ریاستی اکابرین بھی دو طرفہ معاملات پر خلائی مخلوق سے ہی معاملات طے کرتے نظر آتے ہیں۔ بے شک جمہوری روایات میں کسی غیر جمہوری عمل کی نہ تو حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی بھی شکل میں تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن بقول میکاولی /چانکیہ اگر کسی تاجر کو حکمرانی مل جائے تو وہ سلطنت بیچنے کے طریقے ڈھونڈتا ہے،آج پاکستان کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے تو کیا ریاست کے محافظ سوئے رہیں؟دوسرے الفاظ میں خلائی مخلوق وہی ہے جو اس وقت پاکستان کے دشمنوں سے ،پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑ رہی ہے ،مسلم لیگ کے قائد میں اتنی ہمت تو ہے نہیں کہ اپنے دشمن کا واضح نام لے سکیں مگر دعویٰ اسے شکست فاش دینے کا ہے،کتنی عجیب بات ہے !!!مسلم لیگ ن کی اپنی صفوں میں اس غیر ذمہ داری نے کس قدر بے چینی پیدا کر رکھی ہے،اس کا احساس بھی شاید میاں نواز شریف کو باقی نہیں رہا وگرنہ خلائی مخلوق سے جنگ کا اعلان نہ کرتے۔ حقائق تسلیم کرنے سے ہی بہتری کے در وا ہوتے ہیں اور مجھے کم از کم یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ جس خلائی مخلوق کی بات میاں نواز شریف کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ پاک فوج ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کہ ماضی میں جو کچھ فوج نے کیااس کا نقصان ریاست پاکستان کو ہوا مگر آج فوج حقیقتاً خلائی مخلوق کی مانند پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ میاں صاحب کو بھی احساس ہونا چاہئے کہ ایسی خلائی مخلوق کو شکست دینا کسی کے بس کی بات نہیں۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں