Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان ، کسلمندی اور اکتاہٹ کے بجائے محنت اور نشاط کا مہینہ

ابراہیم محمد باداﺅد ۔ المدینہ
      رمضان المبارک کا استقبال مختلف لوگ مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ کئی لوگ اپنا یومیہ پروگرام رمضان المبارک سے ہم آہنگ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ بعض حضرات 24گھنٹے کا پروگرام الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسا اسلئے بھی ہوتا ہے کیونکہ سرکاری ملازمین کی یومیہ ڈیوٹی 8بجے کے بجائے صبح 10بجے سے شروع ہوتی ہے۔ بعض لوگ شام کے بجائے صبح سویرے سونے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگلے دن کی ڈیوٹی کا آغاز روزے کے عالم میں کرتے ہیں۔ امسال روزے کا دورانیہ 16گھنٹے تک کا ہے ۔ موسم گرما کے دوران سعودی عرب کے بعض شہروں میں درجہ حرارت 50ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ سارے حالات کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ سب کے باوجود کام کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، بند نہیں ہوتا۔ ماننا پڑتا ہے کہ بہت سارے لوگ طرز حیات تبدیل کرکے خود کو تیزی کے ساتھ رمضان المبارک کے حالات اوراس کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں۔
      ”مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رمضان المبار ک کے دوران دفاتر“کے زیر عنوان تازہ ترین جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں 80فیصد سے زیادہ ملازم یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کی بدولت ڈیوٹی میں ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔ 44.5فیصد کا کہنا ہے کہ ماہ مبارک کے دوران ملازم کی کار کردگی متاثر نہیں ہوتی جبکہ 55فیصد نے واضح کیا کہ وہ ماہ مبارک کے اختتام تک اہم اجلاس اور اہم فیصلے ملتوی نہیں کرسکتے۔
      بعض لوگوں کی پختہ سوچ یہ ہے کہ رمضان المبارک کے حالات کارکردگی کے تعطل اور مطلوبہ کاموں کے التوا، فیصلوں کی معطلی اور معاملات کی تاخیر کے باعث بنتے ہیں۔ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 74.7فیصد رمضان کے دوران کام میں سست روی کے معترف ہیں۔46.4فیصد شدت سے اس کے قائل ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے رمضان میں اوقات کار کم ہوجاتے ہیں اور بہت سارے لوگ مارکیٹنگ یا عبادت یا اسی طرح کی دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان ان کیلئے محنت اور جدوجہد کا شاندار موسم ہے۔ یہ ایسا زریں موقع ہے جو سال میں صرف ایک ہی بار آتا ہے۔
      ہمیں ان تمام حالات سے نمٹنے کیلئے محنت کرنی ہوگی۔ ہم رمضان المبارک کو آرام و راحت ، سستی ، کسلمندی اور اونگھ کے مہینے کے بجائے کارکردگی کے مہینے میں تبدیل کرنا ہوگا۔ رمضان کا مہینہ عظیم الشان موقع ہے ۔ یہ ہمیں اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو پتہ چلے کے اس کے اندر توانائی کا خزانہ موجود ہے جس سے وہ فائدہ اٹھاسکتا ہے، محنت کرسکتا ، نماز پڑھ سکتا اور بہت سارے کام کرسکتا ہے۔ اگر رمضان کا مہینہ نہ ہوتو اپنے اندر موجود ان خفیہ صلاحیتوں اور وسائل کا ادراک ہی نہ کر پائے۔ ہمیں رمضان کی آمد پر خوشی کا اظہار ضروری ہے۔ ہمیں اپنے اندر موجود صلاحیتوں اور توانائیوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی محنت بھی کرنا ہوگی تاکہ محنت مشقت اور غیر معمولی جدوجہد کی دریافت اور عادت کا سلسلہ رمضان تک محدود نہ رہے اور یہ ہماری روز مرہ کی زندگی کا معمول بن جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: