Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نگراں حکومت کا معاملہ بد اعتمادی کا شکار

کراچی ( صلاح الدین حیدر ) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن خورشید شاہ کی ملاقات پھربے نتیجہ رہی۔ عام تصوریہی ہے کہ دونوں میں بد اعتمادی اور سیاسی منافقت عروج پر ہے۔پہلی والی حکومتیں خود ہی نگراں وزیر اعظم اور صوبوں میں نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کرکے 90 دن کے اندر انتخابات کرا دیا کرتی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے دورمیں 18 ویں ترمیم کے ذریعے طریقہ کار میں تبدیلی کر دی گئی۔ اب ہر اہم سوال پر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف مل کر فیصلہ کرتے ہیں۔ دونوں نے پہلے چیف الیکشن کمشنر چنا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی ۔ احتساب کمشنر کا انتخاب کیا۔دونوں ہی ان کی توقعات کے خلاف نکلے۔جس وجہ سے اب تو شاہد خاقان عباسی نے ہی خورشید شاہ خود کوئی فیصلہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نگراں وزیر اعلیٰ  کا نام (ن) لیگ کی طرف سے آیا تو آصف زرداری نے اس رد کردیا۔ اگر پیپلز پارٹی نے کوئی نام تجویز کیا تو نواز شریف نے قبول نہیں کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے۔حزب اقتداراورحزب اختلاف کے درمیان فضول سی ملاقاتیں پچھلے دو ہفتے سے جاری ہیں، ہر مرتبہ اعلان کیا جاتاہے ،کہ بس دو دنوں میںنگراں وزیر اعظم کا نام فائنل کردیا جائے گالیکن بات آگے بڑھ جاتی ہے۔ماہرین قانون کے مطابق آئین کے آرٹیکل 45کے تحت آئندہ دو دنوں میں اگر وزیر اعظم اور خورشید شاہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو 8ممبران کی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔دونوں پارٹیاں 4/4نام تجویز کریں گی ۔اسپیکر کے ذریعے صدارت اس معاملے کو 3 دن کے اندر حل کرنا پڑے گا۔اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر الیکشن کمیشن کو صرف2 دن کے اندر نگراں وزیر اعظم کا اعلان کرنا پڑے گا۔2013میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب الیکشن کمیشن نے میر ہزار خان کھوسہ کو وزیر اعظم نامزد کیا۔مختصر یہ کہ آئندہ صرف 8دن میں اس مسئلے کو حل کرنا پڑے گا ورنہ انتخابی عمل طوالت کا شکار ہوجائے گا ۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو تقریبا 300انتخابی عذرداریاں انتخابی حلقوں کے بارے میں عدالتوں کے فیصلوں کی منتظر ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ  معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے۔ یہی صورتحال رہی تو، پھر الیکشن جولائی کے آخر کی بجائے اکتوبر نومبر تک ملتوی ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے۔ 

شیئر: